لاہور (جیوڈیسک) بھارت میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی قانون کی دھجیاں اڑانے لگے، بچے، خواتین، نچلی ذاتیں اور قیدی، کوئی بھی محفوظ نہیں۔ 2008ء سے 2013ء تک بھارتی سکیورٹی فورسز نے پولیس مقابلوں کے نام پر 555 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
ایک واقعے میں پولیس نے ممبئی میں 29 سالہ خاتون اور ایک مرد کو ہوٹل سے حراست میں لیا۔ خاتون کو زیادتی کا نشانہ بنا کر جوڑے سے 5 لاکھ رشوت مانگی۔ اتر پردیش میں خاوند کی رہائی کا مطالبہ کرتی چالیس سالہ خاتون بھی بھارتی پولیس کی درندگی کی بھینٹ چڑھی۔ اتر پردیش میں ہی دو کانسٹیبلز نے ایک خاتون کو پولیس اسٹیشن بلا کر زیادتی کا نشانہ بنایا۔
سی بی آئی نے 8 ماہ میں 583 بدعنوانی کے کیس بے نقاب کئے۔ 2014ء میں 36 ہزار 735 زیادتی کے کیس رپورٹ کئے گئے۔ اسی سال رشتے داروں اور شوہروں کے ہاتھوں تشدد کے ایک لاکھ 22 ہزار 877 کیس سامنے آئے۔
2014ء میں اغواء ریپ اور جہیز کی وجہ سے 3 لاکھ 37 ہزار خواتین مجرمانہ کارروائیوں کا نشانہ بنیں۔ 2013ء میں 58 ہزار 222 بچوں پر تشدد کے واقعے سامنے آئے جو 2012ء کے مقابلے میں 53 فیصد زیادہ تھے۔ دلت ذات بھی بھارت میں جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہی ہے، انہیں بنیادی حقوق بھی حاصل نہیں ہیں۔