تحریر : ملک نذیر اعوان قارئین پانامہ لیکس نے سیاست کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے اور سیاست دانوں اور حکمرانوں کے پیٹ میں مروڑ پڑھ رہے ہیں۔پا نامہ لیکس کے شکنجے میںشریف برادران اور بہت سے سیاست دانوں کے نام آچکے ہیں۔تہلکہ انکشافات کے بعدکئی سیاستدانوں کے چہروں سے پردے اٹھ گئے ہیں۔پانامہ لیکس کے مطابق بہت سے پاکستانیوں نے بیرون ملک جائیدایں اور کمپنیاںبنائی ہیں۔ان کمپنیوں میں کاروباری شخصیات،پاکستانی سیاست دان،حاضر سروس اور ریٹائر ججز بھی شامل ہیں۔قارئین کرپشن ہمارے تمام مسائل کی جڑ ہے۔جو ہمارے سیاستدانوںاور حکمرانوں کے اندراثر انداز ہو چکی ہے۔سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے ہمارے ملک کے بے شمار وسائل ہیں۔مگر ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں اورسیاست دانوں نے ہمارے ملک کے وسائل کو بری طرح لوٹا ہے۔
مگر قارئین سوال یہ ہے احتساب سب کا ہونا چاہیے شریف برادران کو تو عمران خان نشانہ بنا رہا ہے جو ٢٣٩ اور لوگ ہیں وہ آب زم زم سے نہائے ہوئے ہیںاور قارئین میںچیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کو سلام پیش کرتا ہوں جس نے سب سے پہلے اپنے گھر سے احتساب کا عمل شروع کیااور آرمی کے جو افسر کرپشن میں ملوث تھے ان کو بر طرف کر دیا انہوں نے ایک مثال قائم کر دی اور یہی وجہ ہے آج پوری قوم بلا تفریق احتساب اور ملک سے دہشت گردی ختم کرنے کے لیے جنرل راحیل شریف کے ساتھ کھڑی ہے۔اور یہ بلاشبہ بات ہے اس پریشر کے بعدحکمران طبقہ پریشان ہے یہ بات بھی قابل تحسین ہے کہ وزیر اعظم صاحب نے چیف جسٹس کی سر براہی میںکمیشن بنانے کا اعلان کر دیا۔
ابھی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گااور وزیر اعظم صاحب تو یہاں تک کہہ رہے تھے اگر مجھ پر کوئی جرم ثابت ہو گا میں گھر چلا جائوں گا۔یہ بھی اچھا اقدام ہے اس سے پہلے بھی کئی کمیشن بنے ہیں مگر (result)صفر نکلا ہے۔عوام دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہیںمگر ہمارے سیاست دان اور وڈیرے (vip protocole) کے چکروں میں ہوتے ہیں ۔سابق حکمران اور موجودہ حکمران اور کئی سیاستدانوں کے رشتے دار ،عزیزو اقارب اور دوست احبا ب غلط طریقے سے کمائی ہوئی دولت بیرون ملک میں لے گئے ہیں۔یہ لوگ سرمایہ کاری اور کاروبار ادھر کرتے ہیںاور دولت بیرون ملک رکھتے ہیںجن لوگوں کے بیرون ملک میںجائدادیںاور کمنیاںہیں ان کے خلاف تحقیقات ہونی چاہیئے ان لوگوں نے پیسہ کہاں سے لایا ہے۔
Supreme Court and NAB
پانامہ لیکس نے تو بہت سے شریف لوگوں کی پگڑی اچھالی ہے اور عالمی سطح پر بد نامی اور ان کی شرافت کے تمام پردے اتار دیے ہیں۔مگر اب سوچنا یہ ہے کہ تحقیقاتی ادارے،سپریم کورٹ اور نیب کیا ایکشن لیتے ہیں۔جن ملکوں میں حقیقی جمہوریت ہے وہاں توحکمرانوں کے خلاف احتجاج ہو رہے ہیںہمارے ملک میں ابھی تک عوام کی طرف سے کوئی ایسا رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔میڈیا تو چیخ رہا ہے چونکہ وزیر اعظم نواز شریف صاحب بذات خودپانامہ لیکس کے شکنجے میں آرہے ہیں۔اس لیے انہوں نے دو دن پہلے ٹیلی ویزن پرقوم سے ذاتی خطاب بھی کیا جس کو پوری قوم نے سماعت کیا ہو گا۔اور وزیر اعظم صاحب نے اپنے خطاب میںپوری کوشش کی کہ قوم کومطمئن کر سکوں مگر ان کے خطاب سے قوم(satisficted)نہیںہوئی ہے۔
نواز شریف صاحب نے چیف جسٹس آف پاکستان اانور ظہیر جمالی صاحب کو کمیشن بنانے کے لیے خط تولکھ لیا اس سے پہلے بھی کئی معاملات پر جوڈیشنل کمیشن بنے ہیںمگر آج تک کسی کمیشن کی رپوٹ سامنے نہیں آئی ہے۔پانامہ لیکس کا پنڈررا بکس کھولنے کے بعدحکومتی وزراء وزیر اعظم صاحب کے دفاع میںاپنی صفائیاں پیش کر رہے ہیں۔پنجاب کے صوبائی وزیر رانا ثناء اللہ صاحب فرما رہے ہیں۔پانامہ لیکس کو شیطانی لیکس قرار دے رہے ہیںجو لوگ قومی سطح پرسچ کو تسلیم کرنے حوصلہ نہیں رکھتے اور جن لوگوں نے کبھی قرآن و وحدیت کوتسلیم کرنے کا اظہار خیال بھی نہ کیا ہویہ لوگ اسے شیطانی پانامہ لیکس سمجھ رہے ہیںجیسے یہ آسمانی صحیفہ ہو۔قارئین اگر آپ تھوڑا غور کریںتو رانا ثناء اللہ کے اس بیان سے اندازہ لگائیںابھی حکومتی ایوانوں میں کیا سوچا جا رہا ہے۔
اس کا دوسرے لفظوں میں یہ مطلب ہے،،الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے اپنی کوتاہی پر پردہ پوشی کر رہے ہیں۔اور دوسری طرف وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان صاحب یہ فرما رہے ہیں۔کہ پانامہ لیکس ایشو کو میڈیا کی نظر نہ کیا جائے پیپلز پارٹی کے راہنماء چودھری اعتزاز احسن،عمران خان اور دیگر سیاست دان یہ فر ما رہے ہیںکہ وزیر اعظم صاحب استعفیٰ دیں۔ہمارے ہاں ایسا کبھی نہیں ہوتا ہے۔آئس لینڈ کے وزیراعظم صاحب نے تو استعفیٰ دے دیا ہے۔مگر قارئین ہمارے ملک میںشاید یہ قانون نہیں ہے۔یہ تو آنے والا وقت بتائے گاجب کمیشن کی رپوٹ سامنے آئے گی کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ پاک آپ کا حامی و ناصر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔