تحریر : محمد اشفاق راجہ اگرچہ کچھ لوگ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر سنگ زنی کے عادی ہو گئے ہیں لیکن لگتا ہے اب کچھ جوابی سنگریزے ان پر بھی پڑیں گے وزیراعظم نواز شریف نے ایک دو چھوٹی چھوٹی کنکریاں اپنی نشری تقریر میں ان کی جانب پھینک بھی دی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ ان کنکریوں سے کوئی اثر لے کر اپنا طرزعمل تبدیل کرنے کی بجائے اپنے پتھر پھینکنے کا شغل جاری رکھیں گے تاہم جواب میں اب انہیں بھی کچھ امید رکھنی چاہئے وزیراعظم نواز شریف کی تقریر ان کی ماضی کی تقریروں سے اس لحاظ سے مختلف تھی کہ اس میں وہ زیادہ پْراعتماد نظر آئے۔
کمیشن بنانے کا اعلان تو وہ لندن جانے سے پہلے ہی کر گئے تھے لیکن اس کی تشکیل اب تک اس لئے نہیں ہو سکی کیونکہ تحریکِ انصاف اور پیپلزپارٹی سمیت اپوزیشن کی بیشتر جماعتوں نے ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل کمیشن مسترد کر دیا تھا، پھر حکومت نے جن ریٹائرڈ ججوں سے رابطہ کیا وہ بھی کمیشن کی سربراہی پر تیار نہ ہوئے، وجہ بظاہر یہی تھی کہ جس کمیشن کو تشکیل سے پہلے ہی مسترد کیا جارہا تھا وہ اگر بن بھی جاتا تو اس سے مطلوبہ مقصد کیسے حاصل ہوتا ؟ اب سب مطالبات کی تان اس بات پر ٹوٹنے لگی تھی کہ کمیشن بنے تو چیف جسٹس کی سربراہی میں، چنانچہ وزیر اعظم نے اپنی تقریرمیں بتایا کہ وہ کمیشن کی تشکیل کے لئے چیف جسٹس کو خط لکھ رہے ہیں۔
تقریر کے فوری بعد یہ اطلاع بھی منظر عام پر آگئی کہ خط لکھ دیا گیا ہے، اب دیکھیں کہ چیف جسٹس کی جانب سے کیا جواب آتا ہے اور کمیشن کی تشکیل پر اپوزیشن کون سا طرز عمل اختیار کرتی ہے اب چونکہ کمیشن کی تشکیل کا معاملہ چیف جسٹس کے سپرد ہوچکا ہے اس لئے الفاظ کی گولہ باری کی مخالفانہ مہم میں کچھ کمی تو آنی چاہئے ابھی شاید ایسا نہ ہو، لیکن محسوس ہوتا ہے کہ حکومت بھی اب یہ فیصلہ کرچکی ہے کہ پروپیگنڈے کا پریشر برداشت نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی کوئی ایسے فیصلے کئے جائیں گے جن سے یہ تاثر ابھرے کہ دباؤ کے تحت فیصلے کئے گئے ہیں۔
Chief Justice of Pakistan
وزیراعظم نے کہا کہ ان پر لگائے گئے الزامات اگر ثابت ہوگئے تو وہ خاموشی سے گھر چلے جائیں گے تاہم انہوں نے الزام لگانے والوں سے کہا کہ اگر الزامات ثابت نہ ہوئے تو کیا وہ عوام سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگیں گے؟ ہمارے خیال میں الزام لگانے والے ایسا کوئی تکلف نہیں برتیں گے انہوں نے تو پہلے بھی یہ تحریری وعدہ کیا تھا کہ اگر انتخابات 2013ئ میں منظم انتخابی دھاندلی ثابت نہ ہوئی تو وہ معافی مانگ لیں گے، سپریم کورٹ کے جوڈیشل کمیشن نے فیصلہ دیا کہ منظم انتخابی دھاندلی کے کوئی ثبوت کمیشن کے روبرو پیش نہیں کئے گئے لیکن الزام لگانے والوں کی طرف سے معذرت طلبی کا کوئی بیان ریکارڈ پر نہیں بلکہ ستم ظریفی یہ ہے کہ کمیشن کے فیصلے کے باوجود دھاندلی کا الزام نہ صرف دہرایا جاتا رہا بلکہ اب تک اس کا تذکرہ ہوتا رہتا ہے۔
نجم سیٹھی پر 35 پنکچروں کے حوالے سے جوالزامات لگائے گئے ان کا کوئی ثبوت بھی پیش نہیں کیا گیا لیکن آج تک یہ الزام تراشی بھی جاری رکھی گئی ہے، سابق چیف جسٹس افتخار چودھری پر جوالزامات لگائے گئے ان کا کوئی ثبوت بھی پیش نہیں کیا گیا جس پر سابق چیف جسٹس نے عمران خان کے خلاف ہتکِ عزت کا دعویٰ بھی دائر کررکھا ہے جس کی سماعت کی تاریخ ابھی نہیں نکلی، تحریک انصاف کے رہنما حامد خان نے ایک خط لکھ کر سابق چیف جسٹس سے معذرت کرلی تھی لیکن عمران خان کے کہنے پر یہ خط واپس لے لیا گیا۔ اس ٹریک ریکارڈ کی روشنی میں وزیر اعظم کو یہ امید تو نہیں رکھنی چاہئے کہ الزامات لگانے والے ”ہاتھ جوڑ کر قوم سے معافی ” مانگ لیں گے، ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنا تو کجا، وہ تو شاید ”سادہ معافی” بھی نہ مانگیں۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں ایک موقع پر کہا ”جن کے خلاف غیرملکی عدالتوں نے فیصلے صادر کئے وہ ہمیں احتساب کا سبق پڑھارہے ہیں ”۔ وزیراعظم کا اشارہ غالباً امریکہ کی عدالت کے فیصلے کی طرف تھا جو سیتا وائٹ کی درخواست پر دیاگیا تھا۔
نواز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ ان کے خلاف وہی کیس ہیں جن کی پہلے تحقیقات ہوچکی ہے، مشرف دور میں بھی ایک پائی کی غیرقانونی ٹرانزیکشن ثابت نہ ہوسکی آج ایک بار پھر پاناما پیپرزکو بنیاد بناکر جوالزامات لگائے جارہے ہیں وہ پرانے ہیں ”۔ اپنی تقریر میں ایک موقعہ پر وزیراعظم نے کہا ”ہمیں جمہوریت کی تعریف سمجھانے والے بتائیں کہ آمر کے آگے کون وزارت عظمیٰ کے لئے ہاتھ باندھے کھڑا تھا” یہ اشارہ ان حالات کی طرف تھا جب عمران خان کو یقین دلایا گیا تھا کہ ان کی اگر چودھری برادران کے ساتھ سیاسی مفاہمت ہو جائے تو ان کی وزارت عظمیٰ کی راہ ہموار ہو سکتی ہے، لیکن اس وقت عمران خان کے نظریات کچھ اور تھے ، وہ نہ صرف ”سولوفلائٹ” کے قائل تھے بلکہ چودھری برادران اور شیخ رشید کے بارے میں ایسے الفاظ استعمال کرتے تھے جو اگر انہیں آج یاد دلادیئے جائیں تو وہ مسکرا دیتے ہیں۔
Imran Khan
شیخ رشید کے بارے میں ان کا فرمان تھا کہ وہ انہیں اپنا چپراسی رکھنا بھی پسند نہیں کریں گے اب وہ بڑے فخر سے ان سے ملاقاتیں کرتے ہیں، دونوں اکٹھے میچ دیکھنے بھی بھارت گئے تھے جہاں ڈاکٹر طاہر القادری پہلے سے موجود تھے۔ اگر عمران خان نے اس وقت جنرل (ر) پرویز مشرف کا مشورہ مانا ہوتا تو شاید ان کے حق میں بہتر ہوتا اوروزارت عظمیٰ کے لئے اب جو ”جدوجہد” کررہے ہیں وہ نہ کرنا پڑتی۔ نوازشریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم نے پہلے بھی حساب دیا اور آئندہ بھی دیں گے ”اخلاقیات کا سبق پڑھانے والے یہ تو بتائیں کہ آئین کی کون سی شق پڑھ کر انہوں نے فوجی آمر کی بیعت کی۔۔۔آئین توڑنے سے لے کر 17ویں ترمیم کی منظوری تک فوجی آمر کا ساتھ دینے والوں کا احتساب ہونا چاہئے۔
وزیراعظم کے خطاب کا لہجہ اگرچہ دھیماتھا انداز جارحانہ نہیں تھا ، تاہم ان کے خطاب میں بعض جملے خاصے کاٹ دار تھے جن میں بعض ہم نے اوپر درج بھی کئے ہیں اس خطاب کے بعد اب اندازہ لگایا جارہا ہے کہ حکومت دباؤ کے تحت فیصلے کرنے کی بجائے جوابی حملے بھی کرے گی بعض تجزیہ کاروں نے خوردبین لے کر اس تقریر میں سے نئے الیکشن تلاش کرنے کی کوشش کی ان کا خیال تھا کہ وزیراعظم نے بار بار اپنے خطاب میں عوام کا ذکر اس لئے کیا کہ وہ دوبارہ عوام کے پاس جانا چاہتے ہیں، لیکن باوجود تلاش کے اس تجزیہ نگار کو تقریر میں ایسا تاثر نہیں ملا، بلکہ اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے جو حلقے قبل ازوقت انتخابات کے حامی ہیں وزیراعظم نے ان کے خیالات کو پذیرائی نہیں بخشی۔