تحریر: راشد علی راشد اعوان میں مضطرب ہوں کافی دنوں سے اور مجھے ایک سوچ رہ رہ کر یہ مجبور کر رہی ہے کہ آخر ایسا بھی کیا ہے ہمیں نفسانفسی نے گھیر لیا ہے، پہلے اسلاف کی پہچان ختم کی، روایات کو قبر کی تاریکیوں میں اتار دیا اور پھر تعلق تعلقات تو کیا رشتوں کی تمیز ختم ہوتی گئی اور مقصد اور مطلب صرف دولت، پیسہ، جھوٹی شان شوکت یا جاہ و جلال،، گھر سے نکلو تو یقین نہیں کہ واپسی ممکن بھی ہے یا نہیں ،،موت کا ہر وقت سروں پر پہرہ رہنے کے باوجود بھی جھوٹی انا کے ہاتھوں مجبور ہیں ہم لوگ،،،اپنے گردو پیش دیکھتا تو ہوں تو ہر کوئی مصروف،، کسی کے پاس وقت نہیں ،کتنی مصروفیت ہے! ہر کوئی، ہر وقت کہیں زیادہ مصروف نظر آتا ہے۔
وقت جوں جوں گزرتا جارہا ہے، کم پڑتا جارہا ہے، کام کرنے والے تو مصروف ہیں ہی۔ جو کام نہیں کرتے وہ کہیں زیادہ مصروف ہیں،گزرے وقت کی اہمیت اور بھی زیادہ محسوس ہوتی ہے، کبھی کسی نے وقت کے زیادہ ہونے کی شکایت نہیں کی، شکوہ ہے کہ یہ کتنی جلدی گزر رہا ہے۔
Economic System
بڑھاپے میں یہ رفتار اور بھی شدید ہوجاتی ہے اور یہ احساس زیادہ تکلیف دہ بن جاتا ہے،اچھے وقت کے گزرنے کا تو پتا نہیں چلتا اور برا وقت گزرتا نہیں ہے لیکن پھر اس برے وقت سے نکلنے کی بھی ایک معاشی دوڑ ہے جس میں ایک ایک لمحہ قیمتی ہے اور معاشرے کا ہر فرد انفرادی طور پر بھاگتا چلا جا رہا ہے، حالات ہیں کہ بہتر ہی نہیں ہوتے،جس معاشی نظام کے تحت یہ معاشرہ چل رہا ہے اس نے ایک طرف جہاں انسانوں کی وسیع اکثریت کو محروم اور مجبور کر رکھا ہے وہاں ان کی زندگیوں کا وقت بھی چھین لیا ہے۔
صرف سو سال قبل کی ہی بات کریں تو برصغیر کی سماجی زندگی میں سرمایہ داری کی یہ جعلی اور مسخ شدہ ”جدیدیت” اگرچہ نہ تھی لیکن انسان کے پاس دوسرے انسانوں کے لئے کچھ وقت ضرور ہوتا تھا، لوگ محلوں میں مل بیٹھتے تھے، ایک دوسرے کے دکھ سکھ بانٹتے تھے، محفلیں سجا کرتی تھیں اور معاشرتی تانا بانا مضبوط ہوتا تھا،ان ہی محفلوں اور سچی پیار و محبت کی انمٹ داستانیں ہمارے پشاور قصہ خوانی بازار کی تاریخ اور اس کے نام ہی سے اپنے ماضی کا پتہ دے رہی ہیں اور تب رشتے آج کی نسبت زیادہ سچے اور مطلب پرستی سے پاک ہوا کرتے تھے،آج دولت کی دھن اور خود کو نمایاں و معتبر کروانے کی جو جھوٹی ادائیں اپنا رنگ جماتی چلی گئی ہیںتب سے ہی سماجی بیگانگی اور دوری میں اتنا ہی اضافہ ہوا ہے، آج کروڑوں کے ہجوم میں بھی انسان خود کو تنہا محسوس کرتا ہے۔
Lower class
صرف غریب ہی نہیں درمیانے اور بالادست طبقات بھی اس نفسا نفسی سے دوچار ہیں،عدم استحکام سے دوچار اس گرداب اورانتشاری زمانے میں جہاں منافقت کے ڈیرے پڑ چکے ہیں میں غریب انسان کو میسر آرام کا تھوڑا بہت وقت بھی ذہنی تناؤ اور مستقبل کی پریشانی میں گزر جاتا ہے، محنت کش طبقے کو اگر کام سے فرصت نہیں ملتی تو دوسری طرف دنیا کے امیر ترین لوگوں کے پاس اتنی دولت ہے کہ اسے خرچ کرنے کا وقت نہیں، کہیں سے میں پڑھا ہے کہ گزرے سال بل گیٹس نے 23 لاکھ روپے فی منٹ کے حساب سے مال بنایا، کاروبار کے آغاز سے تخمینہ لگایا جائے تو بل گیٹس کی فی منٹ آمدن 28 کروڑ روپے بنتی ہے، یہ اتنی دولت ہے کہ اس کی نسلیں بھی خرچ نہیں کرسکتیں۔
اس تقسیم کار کے دوہرے نظام میں غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہی ہوتا جا رہا ہے ،زبانیں میانہ روی اور فکر آخرت کا درس دیتے نہیں تھکتی تو دوسری جانب وہی دولت حرام و حلال کی تمیز کے بغیر سمیٹ رہے ہیں،میرے ایک بھائی نے اپنی تحریر میں لکھا کہ ہم 60سال بعد بھی نہیں بدلے انگریزوں کی غلامی میں جب ان کے چرن چھوتے تھے تو تب وہ ادھر سے دولت سمیٹ کر اپنے ملک لے جایا کرتے تھے اور آج اسی غلام قوم کے آقا غلام اپنے ہاتھوں دولت سمیٹ کر ان ہی انگریزوں کے نگر پہنچتے ہیں،کہیں پانامہ لیکس ہیں ،سرے محل ہیں تویا پھر ایان علی جیسے ،،،سوچتا ہوں کہ حرص و ہوس حاوی ہی رہے گی یا کہ اپنی روایات کو ہم بچا ڈالیں گے،اللہ ہی جانتے ہیں کہ انجام کار آخر کیا ہو گا۔