کراچی (جیوڈیسک) متحدہ کا کراچی پریس کلب کے باہر دوسرے روز بھی دھرنا جاری رہا۔ دھرنے کے دوران گمشدہ کارکنوں کی بازیابی اور گرفتار کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ دھرنے میں گرفتار اور لاپتہ کارکنوں کے اہل خانہ اور پارٹی عہدیداروں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے بھی دھرنے میں شرکت کی۔
اس موقع پر متحدہ رہنما کا کہنا تھا کہ احتجاج وفاقی اور صوبائی حکومت کے خلاف ہے اور ہم متاثرہ خاندانوں کے مسائل سے دنیا کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ فاروق ستار نے الزام لگایا کہ گرفتار کارکنوں کو کسی عدالت میں پیش کیا گیا اور نہ ہی ریمانڈ لیا گیا۔ دھرنے کے بعد ایم کیو ایم کے سینکروں کارکنوں نے ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت میں ایک ریلی کی شکل میں کراچی پریس کلب سے وزیر اعلیٰ ہاؤس کی جانب مارچ شروع کر دیا۔
فاروق ستار کا کہنا تھا کہ پرامن طریقے سے وزیر اعلیٰ ہاؤس جائیں گے اور گمشدہ کارکنان کے متعلق یادداشت پیش کریں گے۔ تاہم متحدہ کے کارکنان اور پولیس کے مابین ہاتھا پائی شروع ہو گئی۔ پولیس حکام متحدہ کے کارکنان کو وزیر اعلیٰ ہاؤس جانے سے روکتے رہے تاہم کارکنان پولیس کو دھکیلتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔
لیکن جب پولیس کی جانب سے مزاحمت بڑھی تو مظاہرین پی آئی ڈی سی چوک میں دھرنا دیکر بیٹھ گئے۔ اس موقع پر کنور نوید جمیل نے شکوہ کیا کہ کوئی وزیر بات سننے کو تیار نہیں، مجرم اور بیگناہ کا فیصلہ کرنا عدالتوں کا کام ہے۔ بعد ازاں ڈی سی ساؤتھ مظاہرین سے مذاکرات کیلئے پہنچ گئے۔
ایم کیو ایم رہنماؤں نے پولیس سے مذاکرات کئے اور نجی ہوٹل کے پاس ہی دھرنا دے دیا۔ وزیر اعلیٰ ہاؤس کی جانب سے نثار کھوڑو نے ایم کیو ایم کے رہنماؤں کو مذاکرا ت کی دعوت دی جس پر ایم کیو ایم کے چھ رکنی وفد نے نثار کھوڑو سے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ملاقات کی۔
نثار کھوڑو کی جانب سے وزیر اعلیٰ سے ملاقات کی یقین دہانی پر ایم کیو ایم نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس موقع پر ایم کیو ایم کے رکن محمد حسین نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ وزیر اعلیٰ سے ملاقات میں گرفتار اور لاپتہ کارکنان کے بارے میں گفتگو کی جائے گی۔ ملاقات کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گے۔