تحریر: ریاض جاذب ریاست کے معنی تو یوں بہت دیئے گئے ہیں مگر ریاست کے معنی میں سب سے زیادہ پاپولر معنی ہیں وہ یہ کہ ریاست دراصل جمہور کے اس علاقہ(خطہ) کا نام ہے جہاں انسان ایک دائرے میں رہتے ہیں اور جس کی حدود ہوں۔ روئے زمین پر ایسی کوئی ریاست نہیں جس کی کوئی حدود نہ ہوں ،جہاں کے مکین دائرے کے اندر نہ رہتے ہوں۔ اگر ایسی کوئی جگہ ہے تو پھر ریاست نہیں وہ کوئی جنگل ہوگا۔ جہاں انسان نہیں وحشی کا بسیرا ہوگا ،جہاں کے لوگ غیرمہذب اور بکھرے ہوئے انتشار ،فساد زدہ ہونگے یہ معاشرہ نہیں گروہ تصور ہوتے ہیں، جو حدود میں نہیں بلکہ لامحدود ہونگے۔ قانون ،ضابطہ کے پابند ہونگے نہ اس سے روشناس۔ ایسا علاقہ ریاست کی پہلی اکائی پر تو پورا اترتا ہے کہ یہاں جمہور یعنی حضرت انسان تو رہتا ہوگا۔
مگر یہ انسان ریاست کی دوسری اور لازمی اکائی قانون ضابطہ ،حد ،حدود میں یہ نہیں آتے اکثر لوگ یہ محارہ استعمال کرتے ہیں” یہاں جنگل کا قانون ہے” یہ محاورہ غلط ہے، جنگل جانور،وحشییوں کا مسکن ہے۔ صیح محاورہ ہے کہ” یہ کوئی جنگل ہے جہاں کوئی قانون و ضابطہ نہیں”کیا ہمارا ملک جنگل ہے کہ یہاں کوئی قانون و ضابطہ نہیں کیا ہم لامتناہی گروہ کی شکل اختیار کرچکے ہیں کیا ہم انسانی معاشرہ نہیں افراد کا ہجوم ہیں ۔ایسا نہیں ہے پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جو اسلامی جمہوری ریاست ہے جس کا اپنا دستور ہے ،قانون ہے طرزحکومت ہے، اصول و ضوابط ہیں ،حدود وقیود ہیں نگران ہیں۔ منصفین اور منتظمین بھی ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ معاملات بہتری کی جانب کم اور تنزلی کی طرف زیادہ جاتے نظر آتے ہیں۔ دنیا میں ہمیں اپنی پہچان ناکام ریاست ،منتشر ریاست، متاثرہ ریاست، کمزور ریاست کے تاثر سے نہیں ایک مکمل فلاحی ریاست سے کرانا ہوگی اس کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
Politician
دستورکی پاسداری ،قانون کا احترام ، اصول و ضوابط کا پابند ، طرز حکومت بہتر بنانا ہوگا، منصفین اور منظیمن کو اپنا آئینی و قانونی کردار ادا کرنا ہوگا۔ سب سے زیادہ ذمہ داری ہماری سیاسی پارٹیوں اور اس کی قیادت پر عائد ہوتی کیوںکہ عوام کے یہ نمائندہ ہیںیہ ان کی اپنی پارٹیاں ہیں۔ حکومت میں شامل اور اپوزیشن کی تمام پارٹیوں کو عوام کی سیاست کرنا ہوگی۔ اقتدار کے حصول کے لیے نہیں عوام کے حقیقی مسائل کے حل کو اپنی سیاست کا محور بنانا چاہیے۔ موجودہ حالات میں تو ایسا لگ رہا ہے کہ دونوں غلط جارہے ہیں یہ کہاں چل پڑے ہیں نہ کوئی سمت ہے نہ کوئی ویژ ن جب ویژن ہی نہ ہو تو پھر مقصد بھی کوئی نہیں ہوتا اور جب کوئی مقصد واضح نہ ہو تو پھر کوئی منزل کا نشان نہ ہوگا بغیر مقصد بے نام منزل کے مسافر ہمارے سیاست دان۔ عوام کو بے وقوف بنانے میںلگے ہوئے ہیں ان عقل کے اندھوں کو یہ معلوم نہیں کہ گورننس صرف حکومت کرنے کا نام نہیں گورننس وہ طرز حکومت جو عوام کی بہتری فلاح کے لیے ہو جس میں انصاف کا بول بالا ہو قانون پر سختی سے عمل ہوتا ہو، جہاں ہر کوئی جواب دہ اور سب کا احتساب ہو۔
گورننس کو گڈ گوننس میں بدلنے میں اپوزیشن کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کی کسی سیاسی پارٹی نے اپنا یہ کام ٹھیک طرح سے نہیں کیا ہمارے سیاست دان ایک دوسرے کی کمزوریوں کو پکڑتے ہیں ان کی اپنی کوئی مضبوطی نہیں، یہ ایک دوسرے کی خامیاں سامنے رکھتے ہیں اپنی مہارت کو بہتر نہیں بناتے۔ یہ ہر وقت موقع کی تلاش میں ہیں مگر مواقع خود سے پیدا نہیں کرتے۔ عوام کے حقیقی مسائل کے حل کی خاطر کچھ خاص نہیں کرتے اس بات سے انکار نہیں کہ احتساب اور وہ بھی سب کا بلکہ بے رحمانہ احتساب ہونا چاہیے۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کہ باہر پڑے ہوئے اربوں ڈالر کے اثاثے واپس لائے جائیں۔ یہ کیا جائے وہ کیا جائے یا سب کچھ کیا جائے کی رٹ نہیں لگائی جائے بلکہ پہلے کرنے کے کام کی ترجیحات طے اور ان کی درجہ بندی کی جائے۔ عوام کی مشاورت اور شراکت کے فارمولہ پر عمل کیا جائے لاکھوں کے اجتماع بھی کئے جائیں اور دھرنے بھی دیئے جائیں مگر صاحبو۔
Poisonous Sweet Eat Death
ان لاکھوں کے اجتماع اور دھرنوں میں عوام کا ذکر بھی ہو کہ، پاکستان کے عوام کو کن مسائل کا سامنا ہے۔ کیپٹن کو کیا علم ہے کہ اس کے ایک کھلاڑی کے اپنے شہر لیہ میں زہریلی مٹھائی کھانے سے 30 انسانوں کی موت ہوچکی ہے، کیپٹن کے اپنے ایک ایک بڑَے کھلاڑی کے تاریخی شہر کے بڑے مشہور ہسپتال میں سی ٹی سکین خراب اور ایکسرے فلمیں دستیاب نہیں نشتر جیسے ہسپتال میں بیرونی آنے والے سیریس مریضوں کو بیڈ،الاٹ نہیں ہوتے ۔کیپٹن کو علم ہے کہ ڈیرہ غازیخان میں لوگ آج بھی ایک ہی گھاٹ پر انسان اور جانور ایک تالاب سے پانی پیتے ہیں جہاں کے کئی انسانوں کو آج کے دور میں بھی ایک ایسی بیماری جسے” ناروا ”کہا جاتا ہے لاحق ہے یہ بیماری دنیا بھر میں صرف ڈیرہ غازیخان میں پائی گئی ہے جسم کے کسی حصہ میں اندر اور باہر باقاعدہ دھاگہ کی طرح کا کیڑا لگ جاتا ہے وقت کے ساتھ بڑھتا ہے ۔ یہ نہ کاٹا جاسکتا ہے نہ ہی اس کو ختم، ایسا مریض سسک سسک کے مرجاتا ہے” زرداری کے بھٹو بیٹے” کو کیا علم ہے کہ راجنپورمیں نشتر گھاٹ کا منصوبہ آج بھی نامکمل ہے اس منصوبہ کو ان کی شہید والدہ کے نام سے بھی منسوب کیا گیا۔
طفل سیاست کو کیا علم ہے کہ ڈیرہ غازیخان کے ٹیچنگ ہسپتال میں برن یونٹ نہیں ہے ”کرپشن ویک ”منانے والے ٹوپی کو ترچھی رکھنے والے جماعتی لیڈر کو علم ہے کہ ان کے اپنے علاقہ میں عورتوں کو ان کی مرضی سے ووٹ ڈالنے کی اجازت تو درکنار ووٹ کے حق سے ہی محروم رکھا جاتا ہے۔ اگر ان سب کو سب کچھ پتا ہے تو پھر جلسوں میں دھرنوں میں ان کا ذکر کیوں نہیں ہوتا اسمبلی کے فورم پر آواز کیوں بلند نہیں کی جاتی کوئی تحریک کوئی قرارداد کوئی سوال جمع یا پیش کیوں نہیں کیا جاتا مخالف پارٹی کے خلاف” وائٹ پیپرز” شائع تو کیا جاتا ہے مگراس طرح کے خلاصے پرنٹ کیوں نہیں کئے جاتے جو عوام کے مسائل اور ان کے ممنکہ حل کے اوپر ہوں ۔یہ سب کرنا دراصل اپوزیشن کی اولین ذمہ داری ہے جو کہ وہ نہیں کررہی یا وہ سرسری لے رہی ہے۔ برسراقتدار پارٹی اگر اپنی ذمہ داری کو صیح طرح سے پوری نہیں کررہی تو متبادل قیادت سے بھی تو عوام مایوس ہیں حکمرانو، سیاست دانو، ہوش کے ناخن لو اور اپنا کام صیح طرح سے سرانجام دو ۔پاکستان کو ناکام ریاست نہیں کامیاب فلاحی ریاست بننے دو۔