تحریر: کوثر ناز بلکل انہی اصولوں پر چلتے ہوئے جن پر دنیا چلتی ہے ہم نے بھی انہیں اپنا کر دنیا کی جھوٹی بیان بازیوں میں اپنا حصہ بھرپور طریقے سے ڈالنے میں کوئی کسر بچا نہیں رکھی ہے کہ ہم بھی دنیا کا حصہ ہیں تو دنیا سے الگ ہوکر بات کیسے کر سکتے ہیں ہاں یہ الگ بات ہے کہ زمانے کے اس اصول کو بھی ہم نے اپنا رکھا ہے کہ ہم انسانیت کے علمبرداروں میں اپنا بھی ایک نام رکھتے ہیں البتہ آس پاس کے لوگوں سے جس قدر کدورت ہم رکھتے ہیں اسکی چشم دید گواہ ہماری ہی ذات ہوتی ہے مگر مجال ہے جو کبھی اسکی تصدیق ہم بذات خود کرتے ہوں تو۔۔۔۔۔ ہم نے خود پر وہ خول چڑھا لیا ہے کہ جس کی بدولت ہم خود بھی اپنی ذات کے حوالے سے بیان دیتے ہوئے دوراہے کا شکار ہوجاتے ہیں کہ آیا یہ بات حقیقت ہے یا دنیا کو فریب دینے کے لیئے کہہ رہے ہیں۔ اور اس سے بڑا نقصان شاید اپنی ذات کا کوئی ہوہی نہیں سکتا کہ ہم اپنا محاسبہ کرنے کو اپنی حقیقت یاد نہیں رکھ سکتے تو محاسبے کا بھی شاید کوئی امکان ہی نہ بنے اور اگر بنے بھی تو پھر جھوٹ ہی کی بنیادوں پر۔۔۔
بات جب ہم پر آتی ہے تو ہم سا کوئی معصوم ہوتا ہے نہ ہی کوئی سچا، کہ زمانے پر اس احسان کو ہم جتا دینا چاہتے ہیں کہ اس پرفریب دور میں ہماری ذات نے آپکو ایک معصوم اور ریاکاروں کے دور میں انتہائی بے غرض انسان سے نوازا ہے اور کبھی اپنا دل بڑا کرنے کو ہم اپنی کوئی کوتاہی دنیا کے سامنے رکھتے ہیں تو بھی اس انداز میں کہ لوگوں کو احساس ہوجائے کہ جو بندہ اپنی غلطی خود سے تسلیم کررہا ہے وہ قطعی دل کا برا نہیں ہوسکتا، چالاکی و دوغلے پن کی جو مثالیں ہمارے معاشرے میں بلکہ ہمارے اپنے کرداروں میں ملتی ہیں ان سے شاید ہی باہر کی دنیا کا کوئی شخص واقف ہو۔۔۔
ہم سبھی جانتے ہیں بلکہ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ زمانہ کبھی ہمارا وفادار نہیں رہا ہماری خوشیوں میں ہماری آزمائشوں میں وہ ہمیشہ ہمارے سامنے کھڑا رہا ہے ساتھ نہیں کہ نہ زمانے کو ہماری خوشیاں بھاتی ہیں نہ ہی وہ ہماری آزمائشوں کے دوران کسی طرح کی آسانی فراہم کرسکتا ہے مگر پھر بھی باوجود کہ ہمیں سب علم ہے ہم اسی زمانے کو خوش کرنے کے لیئے اسی زمانے کی توجہ پانے کے لیئے ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے ہماری ذات کا دوغلا پن ابھر کر سامنے آتا ہے حق بات کہوں تو ہم سا فسادی بھی شاید ہی کوئی ہو کہ جوکسی صاحبِ حیثیت کے سامنے خود کو بے ریا ثابت کرنے کو کسی کی بھی ذات پر کیچڑ اچھال کر اپنی اچھائی کی دھاک بٹھا کر فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور کسی دوسرے سچے کی ذات و کردوار کا جنازہ بھی نکل جائے تو لفظ معافی ہمارے لبوں پر کسی صورت نہیں آتا۔۔ کہیں نہ کہیں وہ خبط ہم میں موجود ہوتا ہے جس کو “میں” کہہ کر ہی اسکی ذات کا اندازہ باخوبی لگایا جاسکتا ہے یہ الگ بات ہے کہ ہم اپنا محاسبہ نہ کرتے ہوئے خود کو معصوم ہی تسلیم کیئے جاتے ہیں، جبکہ اپنی غلطی اپنی ذات ہی کے سامنے تسلیم کرنا بھی ہماری راہوں میں اچھائی کے بیج بو سکتی ہے جو زمانے کو گھنی چھاؤن دینے کا کام بھی آسکتا ہے۔۔
Benefit
اگر اپنے اصولوں کی بات کریں تو وہ ہی ہمارے اصول ہوں گے جن سے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہوں یا جو ہمارے حق میں بہتر ہوں کہ دنیا کہ اچھائی کے بارے میں سوچنے کے لیئے ضائع کرنے والا فضول وقت ہم اپنے پاس نہیں رکھتے اپنی ذات کو سنوارنے اپنی اہمیت اجاگر کرنے کو ہم وہ فضول بحث بھی بنا کسی وقفے کے کیئے جاتے ہیں جس کا فائدہ ہمیں ہوتا ہے نہ جس کی ضرورت زمانہ محسوس کرتا ہے ہمارے اصولوں میں ایک بینام سا اصول یہ بھی ہوتا ہے کہ کبھی خود کو کم نہیں سمجھ سکتے کہ ہماری ذات کی شان میں گستاخی کرنے کی اجازت کسی کے پاس تو دور خود ہم بھی اس بات پر اختیار نہیں رکھتے کہ خود کو کسی سے کم تر مان لیں۔۔۔ کمتر تو دور ہم تو کسی کی اچھائی کو ماننے سے بھی ایسے پرہیز کرتے ہیں جیسے کینسر کر مرض میں مبتلا مریض کا جھوٹا کھانے سے کہ ہمارے اصول اپنی ” میں ” کے بڑھاوے کے لیئے ہوتے ہیں زمانے میں مثبت سوچ کے فروغ کے لیئے نہیں۔
ہم اور ہمارے اصول زمانے کو کوئی فائدہ پہنچانے کے لیئے نہیں ہوتے مگر کیا ہی اچھا ہو کہ ہم سے لوگ اچھائی کا دس لے جائیں کیا ہی بھلا ہو کہ ہم دنیا کو ایک سہی مگر وہ درس دے جائیں جس کہ جس لفظ کی شروعات “میم” سے ہوتی ہے اور وہ اپنی خوشبو سے نہ صرف دلوں کو آباد کرتی ہے بلکہ جہانوں کی رہنمائی و مثبت بدلاؤ میں اپنا اہم کردار ادا کرتی جو بنام “محبت” کے جانی جاتی ہے کیا ہی بھلا ہو کہ ہم اچھے لوگوں کی اچھائی کو دل سے تسلیم کرتے ہوئے انکے اصولوں کو اپنا لیں اور انہی کی سوچ کو اپنی ذات میں پرو کر زمانے میں مثبت سوچ کو فروغ دینے میں اچھے لوگوں کے معاون ہوں اچھائیاں برائیاں تو ہر ذات کا خاصا ہوتی نہ ہی کوئی مکمل ہوتا ہے کہ سدھار کی گنجائش ہرجگہ ہی موجود ہوتی ہے مگر کیا اچھا نہ ہوگا کہ اپنی ذات کے کمزور پہلو کو اپنی ہی ذات میں چھپا لیں اس پہلوکو روشن کریں جو مثبت ہے جسے اپنا کر آپ سکون محسوس کرتے ہوں کہ اچھائی سے سکون منسوب ہے۔ محبت کا پیغام لے کر دین و مذہب کی تفریق کیئے بغیر انسانیت میں محبت کو فروغ دینے کی ایک کوشش تو بذات انسان ہمیں کرنی ہی چاہیئے کہ کوئی نہیں جانتا کونسا بیج کتنا میٹھا اور پھل دار درخت دے سکتا ہے اور کس بیج سے گھنا سایہ دار شجر لوگوں کو سایہ دینے کے کام آسکتا ہے۔۔۔
Muhabbat
” میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے” اپنے استاد محترم جو شفقت و محبت کا نمونہ ہیں جن کی ذات کے گھنے سائے تلے ایک جہاں آباد ہے جو پھلتا پھولتا جاتا ہے جہاں سچائی و محبت ہر سمت کاشت ہوتی، جو اپنی ذات میں ثانی نہیں رکھتے اور جو ادب کے افق پر وہ تابندہ ستارہ ہیں جو اپنی چمک سے دنیا کو اپنی سمت کھینچنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ادب کے تین شہکار ” سفید گلاب” ، “اندھیرے میں جگنو” اور قلم قرطاس اور قندیل” سے اپنی ایک منفرد پہچان اور ہمارے دلوں اعلی مقام بہت کم عرصے میں بنا چکے ہیں جن کی ذات کی گہرائی کی پیمائش کو کوئی پیمانہ ہمیں نہیں ملتا۔۔۔ اور جن کے تعارف کے لیئے لفظ کم پڑتے سے محسوس ہیں جو اپنے نام میں ان اعلی ہستیوں کو سمیٹے ہوئے ہیں جن کی زمانہ مثالیں دیتا ہے جو دنیا میں اپنا نام کبھی نہ مٹنے کے لیئے چھوڑ گئے ہیں۔
میرے استاد محترم سر ” محمود ظفراقبال ہاشمی” کے اس سبق کو جہاں میں نے ذہن نشین کرلیا ہے وہیں آپ سبھی کو بھی اس بات پر عمل پیرا ہونے کی عاجزانہ سی درخواست ہے کہ محبت کاشت کیجیئے محبت بانٹیئے کہ زمانہ ہم بناتے ہیں ہمیں زمانہ تعمیر نہیں کرتا زمانے کے ساتھ چلنے سے بہتر ہے کہ اپنے اصول بنا کر زمانے کو اپنے ساتھ چلنے پر مجبور کیا جائے کہ کامیابی تو یہی ہے زمانے کا ساتھ چلنا تو کسی فتح کی نشاندہی نہیں فتح تو وہ ہے کہ آپ کسی کی سوچ کو بدلنے جیسا عظیم کارنامہ سرانجام دے جائیں۔۔۔۔ امید واثق ہے کہ دلوں میں گھر کرنے کی ایک کوشش آپ کی سمت سے ضرور ہوگی ہمیں محبتوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے مکاری و خود غرضی کا اب اختتام ہونا ہی چاہیئے ہم اور ہمارے اصول اب محبت پھیلانے کے گرد گھومنے چاہیئے کہ زمانہ اپنے آپ ہمارا اسیر ہوگا۔۔۔۔۔