نہ میرے دامن میں پھول مہکے، نہ میری آنکھوں میں خواب اترے ازل سے میں تو بھگت رہا ہوں، بہت سے مجھ پر عذاب اترے مجھے ہے دریا کے پار جانا، میں چپ کھڑا ہوں،میں سوچتا ہوں کبھی تو ختم ہو ا س کا جوبن، کبھی تو اس کا شباب اترے یہ قید خانے کی زندگی بھی، بجز اندھیرے کے کچھ نہیں ہے کبھی تو زندان بھی ہو روشن، کوئی یہاں آفتاب اترے ترے توکل پہ جی رہے ہیں، تو من و سلویٰ تو بھیجتا ہے کبھی وہ وقت آئے ہم پر، کہ آسماں سے شراب اترے کہاں سے آئی،کہاں سے لائے، یہ مال ووولت، یہ سب اثاثے سوال اب تک وہی ہے میرا، ہزار اس کے جواب اترے کدھر ہے منزل،کہاں ہے رستہ، یہ کس طرف قوم جا رہی ہے نہ کوئی رہبر، نہ کوئی لیڈر، کوئی قائد انقلاب اترے کہیں پہ حاکم، کہیں رعایا، یہ فرق تعلیم سے مٹا دو کسی جگہ تو ہوں سب برابر، کوئی تو ایسا نصاب اترے جو میرے حامی تھے رزمگاہوں میں، تیر بن کر برس رہے ہیں حسد میں لیکن جو مبتلا تھے، وہ آج مثل حباب اترے یہ میرا آنگن، وہ تیری چلمن، یہ ایک صدیوں کا فاصلہ ہے کبھی تو چمکے یہاں پہ انجم، کبھی کوئی ماہ تاب اترے