تحریر: راحت ملک مدھم آنچ کو سیاسی ہوا دینے اور اپنی خواہشات کی تکمیل کا وسیلہ بنائے جانے سے پانامہ لیکس پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے والے عنصر میں بدلا جا رہا ہے ساری توانائی وزیراعظم کو ملوث کرنے پہ صرف ہو رہی ہے شوروغل میں بنیادی مسئلہ اوجھل ہوتا جا رہا ہے کہانی کے مطابق جرمنی کے ایک معروف اخباری گروپ کے رپورٹر کو ایک فون کال موصول ہوئی کال کرنے والے شخص نے اہم انکشافات پہ مبنی چند دستاویزاخبار کو دینے کی خواہش ظاہر کی اور مغرب کی عام روایت کے برعکس ایک کروڑ پندرہ لاکھ دستاویزات ‘ بلامعاوضہ اس اخباری رپورٹر کو تھما دیں جنہیں بعد ازاں دنیا بھر میں 375 صحافیوں نے کھنگال کر ایک سٹوری ترتیب دی اسے اب پانامہ لیکس یا پانامہ پیپرز کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اس کہانی کا مرکزی کردار وہ شخص ہے جس نے دستاویز اخباری گروپ کے حوالے کیں مگر وہ شخص کون تھا؟ کہاں سے آیا ؟ کس ملک کا باشندہ تھا ؟ اس بابت کوئی سوال نہیں اٹھایا جا رہا یہ تو بھی واضح نہیںکہ شخص مذکورہ اس کمپنی کا سابق ملازم تھا جو پانامہ میں آف شور کمپنیوں کے ٹیکس معاملات اور دیگر امور انجام دے رہی تھی ؟ یا وہ کوئی ایسا فردہے جس نے دستاویز چوری کر کے بلامعاوضہ اخباری صنعت تک پہنچائیں تاکہ دنیا میں تہلکہ مچ جائے اور کوئی یہ بھی نہ جان پائے کہ اس مجادلے کا ہیرو کون تھا ؟
دستاویز فراہم کرنے والا شخص اگر مذکورہ کمپنی کا سابق یا حاضر سروس ملازم نہیں تو پھر اس کی رسائی دستاویز تک کیسے ہوئی ؟ اس سوال سے بھی دستاویز کے متعلق جعل سازی کا شائبہ آتا ہے اور ہماری بحث میں اس نقطے پر کوئی توجہ مرکوز ہی نہیں (کیوں ؟ ) دستاویز میں دنیا بھر کے مالدار اور اہم عہدوں پر فائز افراد کی آف شور کمپنیوں میں شراکت یا ملکیت کا دعویٰ کیا گیا ہے ۔
حلانکہ سرمایہ داری معاشی نظام کے تحت دنیا کے چند ممالک میں آف شور کمپنیوں کو کاروبار کرنے کی قانونی اجازت و سہولت میسر ہے جن میں پانامہ اور دیگر جزائر شامل ہیں جو مغربی سرمایہ دار دنیا کے حاشیے میں کام کرتے ہیں یعنی عالمی سرمایہ داری نہ صرف ایسی سرگرمیوں سے آگاہ تھی بلکہ وہ ان کی حوصلہ افزائی کیلئے قوانین بھی مرتب کرتی ہے ۔آف شور کمپنیاں اپنی اصل میںایسے قانونی دائرے میں رہ کر دھندہ کرتی ہیں جس میں ٹیکسز میں چھوٹ و اعانت موجود ہوتی ہے۔
Offshore Companies
خالصتاً قانونی زاویے سے آف شور کمپنیاں بنانا ‘ خلاف قانون عمل نہیں اور کسی بھی قانون یا ضابطے ( سرمایہ دارانہ ) کے تحت کسی پاکستانی پر قدغن نہیں کہ وہ دنیا میں کہیں سرمایہ کاری نہیں کر سکتا یا وہ آف شور کمپنی میں شراکت داری یا مالکانہ حقوق حاصل نہیں کر سکتا تو پھر پاکستان سمیت دنیا بھر میں سیاسی درجہ حرارت کیوں بڑھ رہاہے ؟ یہاں سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ وزیراعظم نے آف شور کمپنیوں میں اپنے اور خاندانی افراد کے تعلق کو چھپایا کیوں ہے ؟ اور یہ کہ ان کمپنیوں میں جو سرمایہ کاری ہوئی وہ جائز ذرائع آمدن سے جمع شدہ دولت تھی یا پھر غیر قانونی ذرائع سے سرمایہ بیرون ملک منتقل کیا گیا تھا جسے عرف عام میں ہنڈی یا منی لانڈرنگ بھی کہا جاتا ہے۔
یورپ میں کارخانہ داری و صنعتی معاشی پیداوار نے مغربی ممالک کو خام مال اور تیار شدہ مصنوعات کی اجارہ داریاں قائم کرنے پر اکسایا تو نو آبادیات کا آغاز ہوا جو در حقیقت سرمائے میں بے پناہ اضافے کا دوسرا نام تھا مغربی ممالک نے اپنی نو آبادیات کو تجارتی کمپنیوں یا کوٹھیوں کا نام دیا تھا ہندوستان پر تسلط جمانے والی برطانوی کمپنی لندن میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام پر رجسٹرڈ ہوئی تھی عصر حاضر کی آف شور کمپنیوں کے کردار اور مقاصد ملحوظ رکھیں تو یہ کتنا نہایت درست ہوگا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی اس وقت کی برطانوی آف شور کمپنی کے علاوہ کچھ نہ تھی کیونکہ اس کمپنی پر انگلستان مین رائج صنعتی و تجارتی قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا تھا نیز کمپنی کو تسلط و جبر سے حاصل شدہ ناجائزر دولت کے لیے قانونی حصار مہیا کیا گیا تھا۔
سرمائے کی حرکیات کی تاریخ زیادہ پیچیدہ نہیں نو آبادیات کے بعد جدید نو آبادیاتی دور کا آغا ز ہوا ، یاد رہے کہ ایسا معروضی حالات اور سیاسی تبدیلیوں نیز قومی امنگوں او رآزادی و خود مختاری کی مقامی تحریکوں کا منطقی نتیجہ تھا وگرنہ مغربی سرمایہ دار اپنے حاصلات سے دستبردار ہونے یا اس میں نئی شراکت داری پر بلاارادہ شعوری یا رضا کارانہ طور پر کبھی بھی آمادہ نہیں رہا تھا دوسری عالمی جنگ اس کی عمدہ مثال ہے جو جرمنی کی بڑھتی ہوئی معاشی صنعتی پیداوار کو ایشیاء ‘ افریقہ و لاطینی امریکی منڈیوں تک رسائی نہ دینے کے نتیجے میں شروع ہوئی تھی ۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے سے عالمی سرمایہ داری کے کردار اور مقام میں تبدیلی آ گئی امریکہ نئے قائد کے طور پر سامنے آیا سرمایہ داری کے گاڈ فادر نے جنگ سے پہلے ہی مغربی نو آبادیات کے تدارک اور وہاں ریاست ہائے امریکہ کی سرایت کیلئے دبائو بڑھانا شروع کر دیا تھا۔
Woodrow Wilson
وڈرو ولسن نے اپنے 14 نکات میں دنیا بھر میں خود ارادیت کی حمایت کی تھی 1918 ء میں (سوویت انقلاب کے ایک سال بعد ) امریکی صدر ولسن نے کانگرنس کو لکھا تھا ‘ ‘ تمام نو آبادیاتی دعوئوں کی کھلے ذہن کے ساتھ اور مکمل غیر جانبدار قبولیت جن کی بنیاد قطعی طور پر اس اصول پر ( جس کے تحت خود اختیاری کی حیثیت متعین کی جاتی ہے ) ہو ۔
اور متعلقہ عوام کے مفادات بھی لازمی طور پر اتنی ہی اہمیت کے حامل ہونے چاہئیں ” (Right of self determination by J.sexena) چنانچہ عالمی سرمایہ داری کی نو آبادیاتی گرفت تیزی سے ٹوٹنے لگی 1946ء کے بعد اس عمل میں مزید تیز آئی تو مغربی طاقتوں نے امریکی قیادت میں سیاسی اقتدار میں مقامی شراکتوں کو تسلیم کر لیا یوں اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی تعداد بڑھنے لگی مگر بیشتر نو آزاد ملکوں پر بالواسط طور پر عالمی مالیاتی اداروں اور ملکوں کی گرفت برقرار رہی اور نئے عہد کے تقاضوں میں ”سنہری اصولوں ” نے امداد و ترقی کے دور کا آغاز کیا جو رفتہ رفتہ سرمائے کی منتقلی میں بدلنے لگا دنیا میں ترقی کا ایک نیا پیمانہ متعارف کرایا گیا جو سستے خام مال ‘ سستی محنت او ر ٹیکسوں میں چھوٹ کے ایک مربوط نظام پر مشتمل تھا یہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے ترقی کا نیاماڈل تھا اور اس میں شریک سرمایہ کار کمپنیوں کو اپنے آبائی ملکوں میں غیر ممالک میں کی گئی سرمایہ کاری و منافع پر ٹیکس سے استثنیٰ کا قانونی تحفظ دے دیا گیا یہ دو طرفہ تحفظ تھا ۔جہاں سرمایہ کاری ہو رہی تھی وہاں پر مقامی ٹیکسوں میں رعایت کے علاوہ سرمایہ کار دوست ماحول کی تشکیل کیلئے مزید ”رعایات ” بھی میسر تھیں جبکہ آبائی ملک میں جہاں سے سرمایہ اور ٹیکنالوجی (سازوسامان ) آیا تھا وہاں بھی اس طرح کی بیرونی آمدن پر ٹیکس معاف تھا یہ بات البتہ درست ہے کہ ایسی کمپنیاں مخفی نہ تھیں تاھم ان کے اور مقامی ملکوں کے درمیان طے پانے والے اکثر معاہدے خفیہ ہی ہوتے تھے کیا اس عمل کو آف شور سرمایہ کاری کہنا غلط ہوگا ؟
بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں نہ صرف نو آبادیات کا خاتمہ ہو گیا بلکہ نو آزاد ملکوں میں خود مختاری اور قومی سرحدوں کے دفاع یا مقامی سرمایہ کاری کے فروغ سے قومی بورژوازی بھی انگڑائی لینے لگی بتدریج اس عمل نے نو آزاد ممالک میں پہلے کی نسبت بیرونی سرمایہ کی مزاحمت بڑھنے لگی یا وہ مراعات کم ہونے لگیں جو پانچویں دھائی سے شروع ہوئی تھیں غیر وابستہ ممالک میں سرمایہ دار دنیا کے مفادات کیلئے خطرات بڑھنے لگے تھے چنانچہ اشتراکیت کے بڑھتے ہوئی اثرات کے مقابل مغرب میں بھی بے لگام سرمایہ داری پر قدغن اور محنت کش عوام کی بہبود کیلئے تیسرا ماڈل معرض وجود میں آیا فلاحی ریاستوں سے ان ملکوں کے سرمایہ کار حلقوں کیلئے تنگی کا احساس بڑھنے لگا دریں حالات محفوظ ترین سرمایہ کاری کیلئے سابقہ نو آبادیات یازیر تسلط نیم خود مختار جزائر آئس لینڈ، ورجن آئی لینڈ، پاناما میں قانونی بنیاد مہیا کر دی گئی تاکہ مغربی سرمایہ کار ان محفوظ جزائر کے قانونی ڈھانچے میں رہ کر آف شور کمپنیوں کے ذریعے ٹیکس سے چھوٹ کے فوائد حاصل کرتے رہیں ۔ ہوا۔ یوں کہ اس تجارتی قانونی سرگرمی میں افریقہ ‘ ایشیاء و لاطینی امریکہ کے نو آزاد ممالک کے ابھرتے ہوئے سرمایہ کار بھی شریک ہونے لگے جس طرح سوئیٹرز لینڈ کے بینکاری نظام نے سوئیٹرز لینڈ کی معیشت میں اہم کردار ادا کیاا ور آف شور بینک اکائونٹ کے ذریعے دنیا بھر سے زرمبادلہ کے ذخائر اپنے ہاں جمع کر کے صنعتی و تجارتی ترقی کی تھی آف شور کمپنیوں کے قیام کی اجازت دینے والے ممالک و جزیروں نے بھی اسی نقش قدم پر چلتے ہوے مختلف منازل طے کیں۔
بنیادی طور پر سرمایہ غیر محب وطن جمع شدہ قوت کا نام ہے جو بے تحاشہ منافع (بڑھوتری ) اور تحفظ کیلئے مراعات یافتہ علاقوں کا رخ کرتا ہے لہذا سرمایہ داری و سرمایہ کاروں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ حب الوطنی کے تقاضے پورے کریں گے عبث و فضول بات ہے چنانچہ سرمائے کی تمام تر حرکیات جس کا اجمالاً ذکر ہوا قانونی دائرے کے اندر رہتے ہوئے زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کی کوششوں کا نام ہے جو سرمایہ داری کی داخلی فطرت ہے مگر اس کے داخلی تضادات ‘ حرکت ‘ انخلاء ‘ تحفظ اور بڑھوتری کی وجوہ پر مختلف طریقے اختیار کرتے رہے ہیں آف شور کمپنیاں اس کی محض ایک مثال ہیں۔
Taxes
یہ سوال کہ جو سرمایہ آف شور کمپنیوں میں لگایاگیا تھا (پاکستانی ) وہ جائز ذرائع آمدن سے حاصل شدہ تھا یا نہیں؟ سرمایہ داری کے داخلی تضادات سے ناواقفیت پہ دلالت کرتا ہے اصل سوال یہ ہے کہ جائز ذرائع سے کیا مراد ہے ؟ ہر وہ دولت جس پر تمام ٹیکسز ادا کر دیئے جائیں جائز شمار ہوگی ؟ تو پھر ٹیکسوں سے استثنیٰ کے ذریعے سرمایہ کاری کیلئے رغبت پیدا کرنے کا کیا اخلاقی مفہوم رہ جائے گا ؟ نیز پاکستان میں جہاں زراعت کی آمدنی پر انکم ٹیکس نافذ نہیں اس کی دولت و ثروت کی اخلاقی پوزیشن کیا ٹھہرے گی ؟ اس تناظر میں بڑی بڑی جاگیرداریوں اور زمینداریوں کی ملکیت کے بارے بھی اب سوال اٹھانا لازم ہے کیا ایسی زرعی اراضیوں کو آف شور کمپنیاں جیسا تسلیم کرنا لازم نہیں جو انگریز نو آبادیاتی حکام کی خوشنودی یا سابقہ بادشاہوں کی خدمت کے عوض الاٹ ہوئی ہیں ؟۔
ان کی ملکیت کا کیا اخلاقی و قانونی جواز پیش کیا جا سکتا ہے ؟ کوئی جاگیردار ‘ پیر ‘ یا زمیندار جسے انگریز دور میں جاگیر ملی تھی ثابت کر سکتا ہے کہ اس کی جاگیر اخلاقی اور قانونی طور پر جائز ہے ؟ اگر انگریز حکمران کی دی ہوئی زمینیں اور جاگیریں قانونی جواز کی حامل مانی جائیں تو پھر لازمی طور پر انگریزوں کی نو آبادیاتی حاکمیت کو بھی جائز تسلیم کرنا پڑے گا ۔ ایسی تمام جاگیریں اور زمینداریاں بھی آف شور کمپنیاں ہیں نیزاخلاقی کے علاوہ قانونی جواز سے بھی عاری ہیں، تو ہمارے نعرے باز انقلابی اور احتساب کے مدعی اس بارے بھی ویسا ہی شور اٹھانا پسند کریں گے جس کا مظاہر ہ وہ اسلام آباد سے لندن تک کر رہے ہیں؟ آف شور کمپنیاں اپنی اصل میں آزاد منڈی کی معیشت کا لازمی عنصر ہیں اور جب برآمد شدہ وزیراعظم شوکت عزیز قاف لیگ والی اسمبلی میں بیانگ دھل آزاد منڈی کی معیشت اپنانے کا اعلان کر رہے تھے تو تب قاف لیگ و ہمنوائوں نے ڈیسک بجا کر اس کی پر مسرت تائید کی تھی ایسا کرتے ہوئے وہ تمام ارکان اسمبلی درحقیقت آف شور کمپنیوں کے قیام کی اخلاقی حمایت بھی کر رہے تھے تو اب پانامہ پیپرز پر اعتراض کرتے ہوئے کیا انہوں نے اپنے معاشی تصورات سے وابستگی اور مفادات سے رجوع کر لیا ہے ؟
میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ آف شور کمپنیاں ٹیکس ہالی ڈے، مراعات اور ٹیکس چوری کے قانونی طریقے یہ سب کچھ اس معاشی سانچے و نظام کا ناگزیر حصہ ہیں جسے ہماری ریاست نے اختیار کر رکھا ہے اور اب اگر پانامہ پیپرز کے انکشاف کے بعد ہمیں اچانک اخلاقی آدرش یاد آ گئے ہیں ، ہم (پورا معاشرہ ) گندے انڈوں ( آف شور کمپنیوں ) پر برا فروختہ ہونے کی بجائے اس مرغی کے خلاف کیوں بات نہیں کر رہے ؟ جو اس طرح کے انڈے (تسلسل ) سے دیتی ہے انڈوں کی تطہیر کی بجائے مرغی کو ذبح کرنے پرہم کیوں آمادہ نہیں ہو رہے ؟ کیا یہ طرز عمل ہمارے سیاسی کردار کی عدم بلوغت اور ہمارے معاشی نظام کا اندرونی تضاد نہیں ؟ جسے ختم کرنا اب لازم ٹھہر گیا ہے۔
پانامہ پیپرز کے متعلق حقائق جاننے کیلئے تحقیقات کا مطالبہ ایک جانب اور دوسرے ہی لمحے قبل از حقائق جانے وزیراعظم سے مستعفی ہوجانے کا مطالبہ انتہائی مضحکہ خیز باتیں ہیں عمران خان چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن قائم کرانا چاہتے ہیں (جس کے لیے حکو مت نے سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا ہے) بالفرض ایسا کمیشن قائم ہو جائے اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اس عمل میں کچھ گھپلے ہوئے ہیں جن کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہونی چاہئے تب مقدمات جن عدالتوں میں قائم ہوں گے کیا وہ چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم کمیشن کی رائے سے آزادانہ اختلاف کر پائیں گی ؟ اس کے معنی یہ ہوے کہ مطالبے کا اصل مقصد قانونی چارہ جوئی اور انصاف کے تقاضوں کی تکمیل نہیں بلکہ صرف سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی آرزومندانہ کوشش ہے جس کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
Suman Shah
ثانوی طور پر اگر میاں محمد نواز شریف اخلاقی دبائو کے تحت یا الاو مدہم رکھنے کیلئے مستعفی ہو جائیںتو سیاسی و آئینی طور پر اس کے کیا فوائد ہوںگے ؟ میاں نواز شریف شفاف تحقیقات کی خاطر مستعفی ہوں تو آئینی اعتبار سے حکومت تحلیل ہو جائیگی قومی اسمبلی نہیں، چنانچہ قومی اسمبلی میں موجود اکثریتی جماعت (ن لیگ) فوری طور پر اپنے ارکان میں سے کسی کو بھی وزیراعظم منتخب کرلے گی جسے مسلم لیگ کے سربراہ اپنی جگہ قائد ایوان مقرر کریں گے اس صورت میں بھی تحقیقات پر میاں صاحب کے ویسے ہی اثرات مرتب ہونگے جو موجودہ پوزیشن برقرار رکھنے کی وجہ سے مبینہ طور پر ہو سکتے ہیں نئی صورتحال میں حزب اختلاف اور غیر ضروری غوغا کرنے والوں کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا نہ اقتدار نہ مجوزہ خلفشار تو کیا میاں صاحب کیلئے یہ ایک صائب مشورہ ہو سکتا ہے کہ بس مسلم لیگ کو ایک راجہ پرویز اشرف کی ضرورت ہوگی ، یوں خلفشار کے ذریعہ ماورائے آئین تبدیلی سے مسند اقتدار تک پہنچنے کے خواب بھی چکنار چور ہو سکتے ہیں ہاں مگر وہ گندی مرغی (سرمایہ داری ) زندہ رہے گی جو گندے انڈے دیتی ہے اور جسے ہماری سیاسی اشرافیہ بھی اسی پر اکتفا کرنا پسند کرے گی۔