وجھ شھرت :: قطب الدین ایبک ہندوستان میں ایک مستقل سلطنت قائم کرنے میں کامیاب ہوا
قطب الدین ایبک ہندوستان میں ایک مستقل سلطنت قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ برصغیر پاک و ہند کا یہ پہلا فرمانروا ترکی الاصل تھا
قطب الدین ایبک بچپن میں حاکم نیش پور قاضی فخر الدین عبدالعزیز کوفی نے اسے خریدا اور اسکے زیر سایہ قطب الدین نے تعلیم و تربیت کے علاوہ شہسواری اور تیر اندازی کی تربیت حاصل کی ۔ قاضی فخر الدین کی وفات کے بعد اسکے بیٹوں نے قطب الدین کو فروخت کر دیا۔ چنانچہ وہ غزنی میں سلطان شہاب الدین محمود غوری کے ہاتھ فروخت ہوا۔ محمد غوری کی ترینہ اولاد نہ تھی۔ وہ اپنے ترکی غلاموں کو اولاد کی طرح پالتا اور انہیں تعلیم و تربیت سے بہرہ ور کرتا اور جو صاحب کمال نظر آتے اسے اہم منصب پر فائز کرتا۔ قطب الدین ایبک نے کئی مہموں میں اپنی بہادری اور دلیری کے جوہر دکھائے۔ چنانچہ ترائن کی دوسری جنگ(1192ئ)میں پرتھوی راج چوہان کی شکست کے بعد سلطان نے قطب الدین ایبک کو اپنا نائب سلطنت مقرر کر کے بر صغیر میں مزید فتوحات پر مامور کر کے خود غزنی واپس چلا گیا۔
1192ءاور 1194ءکے درمیان قطب الدین نے ہانسی ، میرٹھ ، بلند شہر، دہلی، کوئل(علی گڑھ) قنوج اور بنارس فتح کیے اور متعدد سرکش راجاﺅں پر قابو پایا 1196ءاور 1197ءمیں گجرات، انہلواڑہ اور رنتھمبور کے اہم قلعوں قبضہ کر کے 1202ءتک شمالی ہندوستان کے فاتح کی حیثیت اختیار کی۔ 1206ءمیں سلطان محمد غوری کی وفات کے بعد قطب الدین لاہور پہنچا۔ جہاں اس کی تاجپوشی کا جشن منایا گیا۔سلاطین دہلی کے لیے وسط ایشیا کیطرف سے ہر وقت خطرہ رہا کرتا تھا ۔چنانچہ تاج الدین یلدوز قطب الدین سے شکست کھانے کے باوجود خطرہ بنا رہا۔ اس سے تعلقات استوار کرنے کی خاطر قطب الدین نے تاج الدین یلدوز کی بیٹی سے شادی کر لی۔ نیز اپنی ایک بیٹی کی شادی ناصر الدین قباچہ حاکم ملتان و سندھ سے کردی۔ اور دوسری بیٹی شمس الدین سے بیاہ دی۔ اس رشتوں کیوجہ سے قطب الدین ایبک کی سلطنت بہت مستحکم ہوگئی۔ لیکن قدرت نے اسے نظام حکومت کے میدان میں تنظیمی قابلیت اور فہم و فراست کے جوہر دکھانے کے موقع نہ دیا۔ اسکا نظام حکومت فوجی نوعیت کا تھا ۔ اہم صوبوں اور شہروں میں فوج متعین تھی۔ انتظام و انصرام کے لیے عموماًفوجی افسر مقرر ہوئے تھے۔ عدل و انصاف کے لیے ہر صوبہ میں قاضی مقرر تھے۔ جرائم کی سزائیں سخت تھیں۔ اس لیے اسکے عہد میں مکمل امن و امان رہا۔ احکام شریعت کے پابند ہونے کیوجہ سے لگان اراضی جو پہلے پیداوار کا پانچواں حصہ تھی قطب الدین کے عہد میں دسواں حصہ مقرر کی گئی جس سے رعایا خوش حال اور فارغ البال ہو گئی۔
اس زمانے میں امراءمیں چوگان کا کھیل بڑا مقبول تھا اور قطب الدین کو بھی چوگان کا بڑا شوق تھا۔ یہی شوق اسکی موت کا باعث ہوا۔ چنانچہ1210ءمیں لاہور میں چوگان کھیلتے ہوئے گرا اور اپنے گھوڑے کے نیچے دب گیا۔ گھوڑے کی زین کا پیش کوہہ سلطان کے سینے میں پیوست ہو گیا۔ اور روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ اس کے جانشین سلطان شمس الدین التمش نے 1217ءمیں ایک عالیشان مقبرہ تعمیر کرایا۔ تا ہم رنجیت سنگھ کے عہد میں اسے مسمار کرا دیا گیا۔ برٹش دور میں لاہور میں آبادی کا اضافہ ہوا تو مقبرہ آبادی میں گھر گیا۔ پاکستان بننے کے بعد محکمہ آثار قدیمہ نے قبر سے متصلہ تمام مکانات کو خرید کر قبر کے احاطہ کو واگذار کرایا اور 1927ءمیں مقبرہ کی تعمیر شروع ہوئی۔ انار کلی بازار سے میو ہسپتال کی طرف جانے والی گلی میں یہ مقبرہ مرجع خلائق ہے۔ سلطان قطب الدین کو علوم و فنون کے علاوہ فن تعمیر سے بھی خاص لگائر تھا۔ 1193ءمیں دہلی کی فتح کی یادگار میں مسجف قبتہ الاسلام یا مسجد قوة الاسلام تعمیر کرائی۔ قطب الدین مینار کی بنیاد رکھی جو بعد میں سلطان التمش نے مکمل کروایا۔