تحریر : محمد اشفاق راجا بہت سے تجزیہ نگار پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کو 1977ء میں بھٹو حکومت مخالف تحریک سے مماثل قرار دے رہے ہیں جو واقعاتی اور تجزیاتی طور پر بھی درست نہیں کہ تب یہاں دائیں بائیں کی صورتحال بھی تھی اور پھر بھٹو کی مخالفت میں بھاری بھرکم سیاسی شخصیات بھی آچکی تھیں۔ اس کے علاوہ نو ستاروں کے ملاپ کو کچھ اس طرح پوشیدہ رکھا گیا کہ اس وقت کے باخبر صحافی بھی مات کھاگئے تھے۔ پاکستان قومی اتحاد کا اعلان رفیق باجوہ (مرحوم) کی رہائش گاہ پر ہوا تو وہاں اس ناچیز سمیت صرف دو تین صحافی ہی تھے، لیکن آج نہ تو اتنی بڑی شخصیات ہیں اور نہ ہی اپوزیشن تمام تر کوششوں کے باوجود یکسو ہے۔ ان جماعتوں کے درمیان کئی امور پر عدم اتفاق ہے البتہ سید خورشید شاہ باخبر لگتے ہیں یا پھر ان کے دوستوں نے ان کو خبر پہنچائی ہے کہ حالات کسی اور طرف جا رہے ہیں اور پوشیدہ قوت دھکیل رہی ہے۔
اس لیے بہتر عمل ان کے ساتھ مل کر جمہوریت اور پارلیمنٹ کو بچانے کا ہے۔ فی الحال تو پارٹیوں کو برائی سے صاف کرکے نہلانے دھلانے کا عمل جاری ہے اور پیپلز پارٹی کی باری بھی آنے والی ہے۔ اس غسل سے مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف والے بعض حضرات بھی بچ نہ پائیں گے اس لیے بہتری اسی میں ہے کہ سیاسی قائدین سیاسی سوچ اپنائیں۔ غیر جانبدار، شفاف اور منصفانہ احتساب پر اتفاق کریں اور اسے مسلسل عمل بنائیں تاکہ مستقبل میں بھی یہ سلسلہ جاری رہے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا برسر اقتدار جماعت مسلم لیگ (ن) کا عمل بھی درست ہے؟ تو اس پر بھی بہت بات ہوسکتی ہے۔
جلسے کرنا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے لیکن موجودہ صورت میں وزیراعظم سے جو سلسلہ شروع کرایا گیا ہے، وہ مناسب ہے یا نہیں اس پر بات ہوسکتی ہے کہ ایک پہلو محاذ آرائی میں اضافے کا بھی ہے جس کا اندازہ ٹاک شوز میں غیر اخلاقی گفتگو سے بھی ہوتا ہے اور یہ بات چیت مہذب حضرات سے منسوب ہے۔ دوسرا پہلو وہ ہے جو دلیل کے طور پر بیان کیا گیا اور اسی کے مطابق وزیراعظم کے جلسوں کا پروگرام بناکر دفاعی پالیسی کی جگہ جوابی حملے کئے جائیں، جلسوں کا جواب جلسوں سے دیا جائے۔ یہ امر فضا کو سازگار بنانے کی بجائے زیادہ شدید کردے گا، اس لیے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ کوئی سیاسی شخصیت درمیان میں آئے اور اس کی دخل اندازی سے یہ محاذ آرائی ختم ہو۔
Khursheed Shah
سید خورشید شاہ اور محمود خان اچکزئی بہتر کردار ادا کرسکتے ہیں، ان کے ساتھ سید مشاہد حسین کو شامل کردیا جائے تو یہ حضرات دلیل سے بھی بات کرسکتے ہیں۔ ملک اس وقت محاذ آرائی کا متحمل نہیں، بیرونی اور اندرونی مسائل ہیں، بھارتی مداخلت تو ثابت ہوچکی سپر پاور کے مفادات اپنے ہیں جبکہ چینی سرمایہ کاری کا تحفظ بھی لازمی ہے۔ اس لیے احتساب سے غیر جانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات سب کو اپنی اپنی جگہ اتفاق ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ اتفاق رائے حتمی شکل اختیار کرے۔ اس سلسلے میں بہت سے متفقہ نکات پہلے سے موجود ہیں صرف فراخ دلی کا ثبوت دینے اور انتخابات کے ذریعے باری کا انتظار کرنے کی ضرورت ہے۔
بہتر ہوگا کہ سب حضرات معروضی حالات کا ادراک کریں اور اس امر پر تو بہرحال سمجھوتہ کرنا ہوگا کہ کرپٹ سیاستدان جس جماعت کی صف میں ہیں ان کو وہاں سے بھی پکڑ لیا جائے، ان کا تحفظ نہ ہو اور قانون کے مطابق وہ مقدمات کا سامنا کریں۔ احتساب بہرحال غیر جانبدارانہ ہی نہیں منصفانہ بھی ہونا چاہئے۔ پہلے آپ ان سے بھی نجات پائیں اور منصفوں کو فیصلہ کرنے دیں کہ کہاں اور کس سے شروع کیا جائے۔ قوم پریشان ہے۔
اصل مسائل مہنگائی، بیروزگاری، صحت اور امن عامہ کے ہیں، سیاسی محاذ آرائی سے یہ حل نہ ہوں گے۔ اس کیلئے برسر اقتدار حضرات کو ذہنی کشادگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور حزب اختلاف کو ضد سے گریز کرنا ہوگا۔ یہ باتیں دیوانے کا خواب نہیں ہیں، سیاسی رہنمائی کس چڑیا کا نام ہے، اگر معروضیت کو سامنے رکھ کر مستقبل کا لائحہ عمل نہ بنایا جائے، ورنہ کسی کی چونچ اور کسی کی دم غائب ہو جائے گی۔