تحریر : سید توقیر حسین زیدی پانامہ پیپرز نے شروع ہونے والی بلم گیم کی سیاست نے اب حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے مابین باقاعدہ سیاسی محاذ آرائی کی شکل اختیار کر لی ہے اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پبلک جلسوں، ریلیوں اور دھرنوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے جسکے مقابلے میں وزیر اعظم میاں نواز شریف خود خم ٹھونک کر سیاسی میدان میں نکل آئے ہیں جنہوں نے اتوار 24 اپریل کے تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور پاک سر زمین پارٹی کے بالترتیب اسلام ا?باد، لاہور اور کراچی کے پبلک جلسوں کے جواب میں گزشتہ روز سیلاب سے متاثرہ علاقے کوٹلی ستیاں میں ہنگامی بنیادوں پر اپنے پبلک جلسے کا اہتمام کرایا اور وہاں سیلاب زدگان میں 21 کروڑ 63 لاکھ روپے کے چیک تقسیم کرنے کے علاوہ تحریک انصاف کے قائد عمران خان کے گزشتہ روز کے الزامات کا بھی جواب دیا۔ اسطرح سیاسی محاذ ا?رائی اور پوائنٹ سکورنگ کی اس سیاست نے پبلک جلسوں کی شکل میں انتہائی گرما گرمی والی فضا پیدا کر دی ہے جس میں ایک دوسرے کی کردار کشی کر کے سیاسی فضا کو مکدر بنانا انتخابی کلچر کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
اگر تو موجودہ اسمبلیوں کی آئینی میعاد پوری ہونے کے بعد آئین و قانون کے تقاضوں کیمطابق نئی اسمبلیوں کے انتخابات کیلئے نگران حکومت تشکیل پا گئی ہوتی تو ایک دوسرے کے مدمقابل انتخابی سیاسی جلسوں کا جواز بھی بنتا تھا جبکہ ایسے جلسے اور رابطہ عوام مہم ہی جمہوریت کا حسن ہوتی ہے تاہم اس وقت جبکہ موجودہ اسمبلیوں کی ابھی دو سال کی آئینی میعاد پڑی ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے انتخابی سیاست کی فضا بنانا کسی ایسی صورت حال کی عکاسی کرتانظر آتا ہے جو بالخصوص عمران خان اپنی دھرنا تحریک کے دوران ”ایمپائر” کی انگلی اٹھنے کا اشارہ دے کر قوم کو دکھاتے رہے ہیں۔
Imran khan
اگرچہ عمران خان کو اپنی پارٹی کے یوم تاسیس کے حوالے سے اسلام آباد میں 24 اپریل کو پبلک جلسے کی سہولت ملی جس کیلئے انکے اور وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے مابین مفاہمت ہوئی تھی جبکہ جماعت اسلامی نے کرپشن کے خلاف یکم اپریل سے شروع کی گئی اپنی مہم کی بنیاد پر 24 اپریل کو لاہور میں اسمبلی ہال کے سامنے دھرنے کا پروگرام بنایا جسے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے پبلک جلسے میں تبدیل کر دیا گیا جبکہ نوزائیدہ پاک سر زمین پارٹی کے لیڈر مصطفی کمال نے گزشتہ ماہ 23 مارچ کو اپنی پارٹی کی تشکیل کا اعلان کرتے ہوئے مزار قائد پر 24 اپریل کو جلسہ منعقد کرنیکا بھی اعلان کر دیا تھا اسطرح انکا گزشتہ روز کا جلسہ ایک طرح سے انکی پارٹی کی سیاسی قوت کا پہلا مظاہرہ تھا جس میں وہ کافی حد تک کامیاب ہوئے تاہم اس جلسے کے حوالے سے انکے اور تحریک انصاف کے قائد عمران خان کے مابین رابطوں اور تقریروں کے وقت کیلئے باہمی افہمام و تفہیم کی باتیں منظر عام پر آئیں تو ان دونوں جلسوں میں کسی اور کی حکمت کا کار فرما ہونا بھی قرین قیاس نظر آیا۔ جبکہ اب حکومت کیخلاف سیاسی محاذ آرائی بڑھانے کیلئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور عمران خان کے مابین سیاسی افہام و تفہیم کے معاملات منظر عام پر آنے سے یہ تاثر پختہ ہوتا نظر رہا ہے کہ چور دروازے سے اقتدار کے راستے تلاش کرنیوالے عناصر موجودہ اسمبلیوں کو ا?ئینی میعاد سے پہلے تحلیل کرانیکی کسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں جس کیلئے پانامہ لیکس کی بنیاد پر حکمرانوں کے احتساب کا نعرہ لگا کر حکومت پر دبائو بڑھانے اور وزیر اعظم نواز شریف کو دفاعی پوزیشن پر جانے پر مجبور کرنیکی فضاء گرمائی جا رہی ہے۔
اس کامقصد حقیقی اور بے لاگ احتساب کو یقینی بنانا نہیں بلکہ ماضی جیسے کسی ماورائے آئین اقدام کا راستہ ہموار کرنا ہی ہو سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں اپوزیشن جماعتوں اور بالخصوص عمران خان میں زیادہ فعالیت سب کے بے لاگ احتساب کے حوالے سے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے بیان کی بنیاد پر پیدا ہوئی جو وزیر اعظم نواز شریف کے ملک واپسی کے سفر کے دوران منظر عام پر آیا جبکہ اسکے اگلے روز اعلیٰ فوجی افسران کی کرپشن کے الزام میں جبری ریٹائرمنٹ کی بنیاد پر فوج میں احتساب کا عمل شروع ہونیکی ملک گیر تشہیر سے بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر دبائو بڑھانے کا ہی عندیہ ملا چنانچہ وزیر اعظم نواز شریف نے بظاہر جارحانہ سیاست کا عندیہ دیتے ہوئے قوم سے اپنے نئے خطاب میں جوڈیشل کمشن کی تشکیل کیلئے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو مراسلہ بھجوانے کا اعلان کر کے اپوزیشن کی جارحانہ سیاست کے جواب میں عملاً دفاعی پوزیشن اختیار کی۔
اگر تو عمران خان کی جارحانہ سیاست کا مقصد فی الواقع بے لاگ احتساب کی راہ ہموار کرنیکا ہوتا تو انکے اپنے مطالبہ کیمطابق جوڈیشل کمشن کی تشکیل کا معاملہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے پاس جانے کے بعد انکے پاس حکومت کیخلاف سیاسی محاذ ا?رائی برقرار رکھنے کا کوئی جواز نہیں رہنا تھا مگر انہوں نے پھر پینترا بدلا اور جوڈیشل کمشن کیلئے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو بھجوائے گئے مراسلہ کو بھی مسترد کر دیا اور وزیراعظم اور انکے خاندان کے ہر صورت احتساب کا تقاضہ کرتے ہوئے گزشتہ روز اسلام آباد کے جلسے میں یکم مئی کو لاہور میں جلسہ کرنے اور وزیر اعظم کی نجی اقامت گاہ رائیونڈ (جاتی عمرہ) کا گھیرائو کرنیکا اعلان کیا جسکے بعد حکومت مخالف احتجاجی تحریک کے حوالے سے تحریک انصاف کے نائب صدر شاہ محمود قریشی اور پیپلز پارٹی کے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے مابین ملاقات بھی ہو گئی تو اس سے بادی النظر میں اب یہی محسوس ہو رہا ہے کہ ایک بار پھر سسٹم کی بساط لپیٹنے کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے۔
Siraj ul Haq
چونکہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق بھی یکم مئی کو پورے ملک میں کرپشن کے خلاف ریلیاں نکالنے کا اعلان کر چکے ہیں اور اسی طرح مصطفی کمال کی عمران خان سے سیاسی ہم ا?ہنگی کرائے جانیکی اطلاعات بھی زیر گردش ہیں جس کے پیچھے سسٹم کی بساط لپٹوانے والی حکمت عملی ہی کار فرما نظر آتی ہے تو سسٹم کے استحکام کیلئے فکر مند حلقوں کو اب تشویش میں مبتلا ہونا چاہیے۔ اب تک حکمران مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے حوالے سے یہی تصور قائم تھا کہ وہ اے آر ڈی کے پلیٹ فارم پر محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے مابین طے پانے والے میثاق جمہوریت پر ابھی تک کار بند ہیں چنانچہ وہ سسٹم کو لپیٹنے والی ماضی جیسی سازشوں کو اب پنپنے نہیںدیں گی۔ انہوں نے عمران خان کی پارلیمنٹ ہائوس کے باہر دھرنا تحریک کے دوران پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سسٹم کو بچانے کیلئے اتحاد یکجہتی کا عملی مظاہرہ بھی کیا تاہم اب حکومت مخالف تحریک کیلئے پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کا باہم متحد ہونا پیپلز پارٹی کی جانب سے میثاق جمہوریت سے منحرف ہونیکی غمازی کر رہا ہے۔ اس سیاست میں ممکن ہے پیپلز پارٹی کی تیزی سے گرتی ہوئی ساکھ کو کچھ سہارا مل جائے۔
تاہم اس سیاست کے نتیجے میں جمہوریت سے وابستہ سیاستدانوں کی باہمی چھینا جھپٹی سے اقتدار کی بوٹی پھر ماورائے آئین اقدام والوں کے ہاتھ آ گئی تو اس بار جرنیلی آمریت کا دورانیہ پہلے سے بھی طویل ہو سکتا ہے۔ میاں نواز شریف تو جیسے تیسے اپنے اقتدار کی تین ٹرمیں لے چکے ہیں مگر اقتدار کی جلدی میں عمران خان نے پھر جرنیلی آمریت کا راستہ ہموار کر دیا تو انکی وزارت عظمی کا خواب شاید انکی زندگی میں پورا نہیں ہو سکے گا جبکہ پیپلز پارٹی کو جرنیلی آمریتوں کی سختیاں اور اس سے ہونیوالی سیاسی گھٹن کے علاوہ ملک کو پہنچنے والے ناقابل تلافی نقصان کا بھی خاصہ ادراک ہے اسلئے ماضی کے تلخ تجربات کی بنیاد پر اس پارٹی کی قیادت کو تو ماورائے آئین اقدام والی سازشوں کا کسی صورت حصہ نہیں بننا چاہیے۔
بے لاگ احتساب بلاشبہ ملک و قوم کی ضرورت ہے کیونکہ حقیقی احتساب نہ ہونے اور جمہوریتوں میں برسر اقتدار طبقات کی من مانیوں اور کرپشن کی داستانوں کے نتیجہ میں ہی جمہوریت خراب ہوتی رہی ہے۔ اسلئے کوشش کی جائے کہ جمہوریت کی عملداری میں حقیقی اور بے لاگ احتساب کو بھی آئین کے تحت اس سسٹم کا لازمی تقاضہ بنا دیا جائے۔ اگر احتساب کا نعرہ لگا کر جمہوریت کا مردہ خراب کرنا اور جرنیلی آمریتوں کا راستہ ہموار کرنا مقصود ہے تو پھر ایسی سازشوں کے محرک سیاستدانوں کو جمہوریت کا راگ الاپنا ترک کر دینا چاہیے۔ عوام ان کے سیاسی مستقبل کا خود ہی فیصلہ کر لیں گے۔