وسط مدتی انتخابات مسلم لیگ (ن) کیوں چاہے گی

Nawaz Sharif Speech

Nawaz Sharif Speech

تحریر : محمد اشفاق راجا
وزیراعظم محمد نوازشریف کی طرف سے جلسوں کے انعقاد کے حق اور مخالفت میں بات ہو سکتی اور ہو رہی ہے۔ سوال صرف حکمت عملی کا ہے کہ کیا یہ بہتر ہے؟ وزیراعظم نے حزب اختلاف خصوصاً تحریک انصاف کے جواب میں عوامی حمایت کے مظاہرے کا فیصلہ کیا تو یہ بھی سیاسی عمل ہے اگر تحریک انصاف مظاہرے اور جلسے کر رہی ہے تو مسلم لیگ (ن) ایک سیاسی جماعت ہے اسے بھی اپنی بقائ اور عوامی حمایت کے مظاہرے کی غرض سے پورا پورا حق ہے کہ جلسے کرے، اعتراض صرف یہ تھا کہ اس سے تصادم کی راہ نہ کھلے تو اس حوالے سے وزیراعظم خبردار ہیں، چنانچہ یکم مئی کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) نے لاہور مال روڈ پر جس ریلی کا اعلان کیا وزیراعظم نے اسے منسوخ کرنے کی ہدایت کر دی ہے کہ اسی روز تحریک انصاف مال روڈ پر جلسہ اور ریلی منعقد کرنا چاہتی اور انتظامیہ کی طرف سے جلسے کے لئے تین مقامات کی نشاندہی بھی قبول نہیں کی اصرار ہے کہ مال روڈ پر ہی سیاسی قوت کا مظاہرہ ہوگا۔ اب کہا جاتا ہے کہ یہ جلسہ نہیں ریلی ہو گی۔ مطلب یہ کہ نہ ناصر باغ نہ فیصل چوک اور چوک مسجد شہدائ پورے مال روڈ پر قبضہ ہوگا، ایسے میں اگر مسلم لیگ(ن) کی ریلی بھی نکلتی تو تصادم یقینی تھا، جو نہیں ہونا چاہیے۔

مسلم لیگ (ن) کی طرف سے وزیراعظم نے یہ فیصلہ کر دیا لیکن روائت یہ بھی ہے کہ یکم مئی کو دوسری سیاسی جماعتیں اور مزدور تنظیمیں بھی ریلیاں نکالتی ہیں، ان کا رخ بھی مال روڈ کی طرف ہوتا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے لیبربیورو نے بھی ایک بڑی مشترکہ ریلی کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس لئے انتظامیہ اور خود تحریک انصاف کو بھی غور اور طے کرنا ہوگا کہ وہ اپنی ریلی کے راستے میں رکاوٹ نہیں پسند کرتے تو دوسروں کے لئے بھی رکاوٹ پیدا نہ کریں۔ اب تو صرف ایک دن مزید رہ گیا۔ یکم مئی کل ہے۔ آج ہی سیاسی جماعتوں اور مزدور تنظیموں کو ضابطہ اخلاق طے کرکے آپس میں فیصلہ کر لینا چاہیے کہ کوئی کسی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔ اس سلسلے میں انتظامیہ بھی مدد گار ہو سکتی ہے، بلکہ بہتر حکمت عملی ہو گی کہ ڈی سی او ان تمام تنظیموں اور نمائندوں کی میٹنگ بلا کر باقاعدہ ایک روڈمیپ طے کرا دیں کہ یوم مزدور پر سیاست کے نام پر کوئیبدمزگی نہ ہو۔

وزیراعظم کی طرف سے جلسوں کے انعقاد، دھواں دھار تقریروں، ترقیاتی کاموں کے اعلان اور فنڈز مختص کرنے سے بعض دانشور حضرات نے یہ تصور کر لیا کہ وزیراعظم وسط مدتی انتخابات بھی کر سکتے ہیں۔ شرط یہ عائد کی کہ اگر ان پر دباؤ پڑا، ان حضرات کے نزدیک پاناما لیکس کے باعث وہ دباؤ میں ہیں، ان سب کو جو یہ سوچ رکھتے ہیں کچھ حقائق کا ادراک کرنا چاہیے۔ پہلی بات تو یہ کہ وسط مدتی انتخابات کے لئے اسمبلیوں کی تحلیل لازم ہے اور اسمبلیوں کی تحلیل کے لئے آئینی صورت حال یہ ہے کہ وزیراعظم صرف قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش کر سکتے ہیں جس پر صدر مملکت کو عمل کرنا ہے اور اگر مقررہ مدت میں وہ نہ بھی کریں تو تین دن میں اسمبلی ازخود تحلیل ہو جائے گی اور نگران وزیراعظم اور کابینہ کی نگرانی میں انتخابات ہوں گے۔

PTI

PTI

تاہم یاد رکھا جائے کہ صوبوں کے لئے بھی یہی شرط ہے، وہاں وزیراعلیٰ چیف ایگزیکٹو ہیں اور انہی کی ہدایت پر اسمبلی تحلیل ہو سکتی ہے۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف اور سندھ میں پیپلزپارٹی برسراقتدار ہے۔ سوال یہ ہو گا کہ کیا یہ دونوں صوبائی وزراء اعلیٰ ایسا قدم اٹھائیں گے۔ ہمارے خیال میں یہ نہیں ہوگا صرف خیبرپختونخوا کے حوالے سے یہ امکان ہے کہ عمران خان وسط مدتی انتخابات کا خیر مقدم کریں گے کہا جا سکتا ہے کہ خٹک صاحب اپنے صاحب کی ہدایت پر ایسا اقدام کر سکتے ہیں لیکن پیپلزپارٹی کیوں کرے؟ پیپلزپارٹی کے لئے تو فی الحال عام انتخابات والی فضا سازگار نہیں، یوں یہ مشکل مسئلہ ہے، اس کے علاوہ غور کریں تو مسلم لیگ (ن) بھی تو 2018ء ہی کا نام لیتی اور تمام بڑے اور اہم کاموں کو 2018ء تک مکمل کرنے کی تگ ودوکر رہی ہے۔ خصوصاً لوڈشیڈنگ کے حوالے سے تو ہدف ہی 2018ئء ہے اس لئے یہ ممکن نہیں کہ مسلم لیگ (ن) وسط مدتی انتخابات کرائے۔
جہاں تک وزیراعظم کی طرف سے جلسوں کی حکمت عملی کا تعلق ہے تو اسے دباؤ سے نکلنے کی کوشش قرار دیا جا سکتاہے اور یہ بھی ان کا حق ہے۔ اس لئے وسط مدتی انتخابات کا امکان نظر نہیں آتا۔ بہتر ہو گا کہ سیاسی جماعتیں بھی مستقبل کا اہتمام کریں۔

اب ذرا ایک وضاحت ہو جائے وہ یہ کہ ہم نے فلم ”مالک” کا ذکر کیا تو خالصتاً سنسر کوڈ کی بات کی تھی جس کے مطابق رشوت لیتے دکھانا بھی غلط ہے۔ ذرا اور آگے بڑھیں تو اسی سنسر کوڈ کے تحت فلم میں زیادہ “Violance” بھی نہیں دکھائی جا سکتی کہ معاشرے پر اثر پڑے۔ چہ جائیکہ کسی فلم میں بقول ایک دوست “Crime of Reason” کی بات کی جائے۔ ہم نے اس فلم کے جو حصے دیکھے ان میں تو فوجی جوانوں کو دہشت گردی کا قلع قمع کرتے دکھایا گیا۔ جس حصے پر اعتراض ہوا وہ ہم نے نہیں دیکھا تھا وہ کچھ یوں ہے کہ ایک وزیر کا سرکاری ملازم اپنے خیالات کی یلغار کے سامنے بے بس ہو کر سرکاری اسلحہ سے اس وزیر کو قتل کر دیتا ہے ، قارئین جان سکتے ہیں کہ یہ کس واقع کی تشبیہ ہے اس میں عدالت عظمیٰ تک کے ریمارکس موجود ہیں اور اس باب کو بند ہونا چاہیے۔ یہ درحقیقت فلم سنسر بورڈ کے اس بورڈ کی کوتاہی ہے جس نے یہ فلم ابتدا میں پاس کر دی۔

اس فلم میں جو قابل اعتراض حصے ہیں وہ پہلی ہی رونمائی میں حذف کر دینا چاہیے تھے کہ سنسر کوڈ راہنمائی کے لئے موجود ہے، یہ حصے اس کوڈ سے مطابقت نہیں رکھتے یوں بھی آئی ایس پی آر سمیت جو ادارے اس فلم کی تیاری میں معاون تھے ان کو پہلے سکرپٹ دیکھنا چاہیے تھا اور اگر ابتدا میں ایسا نہیں ہوا تو فلم مکمل ہو جانے کے بعد سنسر کے لئے جانے سے پہلے ان حضرات کو دیکھ لینا چاہیے تھی، یہ تو خود فلم کے اندر ایک عمل کی دوسرے عمل سے نفی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف کارروائی اور غیر قانونی عمل کی حمایت متضاد عمل ہیں۔ اس لحاط سے اب اگر خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ نے فلم دکھانے کا اعلان کر دیا تو وہ پہلیخود دیکھ لیں کہ مسئلہ صرف کرپشن کا نہیں رہا۔ بات دور تک چلی گئی ہے اس پر تنازعہ نہ پیدا کیا جائے، اسے باہمی اتفاق سے طے کیا جائے۔

Muhammad Ashfaq Raja

Muhammad Ashfaq Raja

تحریر : محمد اشفاق راجا