تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری بالآخروہی ہوا جس کا پہلے سے ہی قوی امکان تھا مودی کے دورہ امریکہ کے بعد تو ایسا ہی ہو نالازمی تھا امریکنوں نےF16طیارے دینے سے ہی انکار نہیں کیا بلکہ ساتھ ہی فوجی امداد بھی بند کردی ہے۔ہم غلطی سے انھیں اپنا سب کچھ سمجھ بیٹھے تھے اور اس کی نو کری چاکری میں کوئی لمحہ ضائع نہیں کرتے تھے۔ہم بطور پاکستانی عرصہ دراز سے یہود و نصاریٰ کی غلامی میںدست بستہ کھڑے ہی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے آگے جھکنے اسی سے مانگنے کی بجائے عالمی سامراجیوں کے تمندار امریکہ کے آگے سجدہ ریزی کی کیفیت میں ہیں ۔خارجہ پالیسی میںناکامی کے بعد تو اب وزیراعظم کی مودی سے دوستی بھی ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے ضمن میں ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے اور امریکہ کے مو جودہ ایکشن پر چپ کا روزہ رکھ لینے سے یقیناً اسلامیان پاکستان کے دل شدید زخمی ہیں۔
ہر حکمران اور اقتدار کا طالب سیاستدان یہی سمجھتا ہے کہ جتنے خلوص سے ہم”ان کی”غلامی اور تابعداری کی کو رنش بجا لائیں گے اتنا ہی وہ مہربان ہو کر ُھما کا پرندہ ہمارے سروں پر بٹھا ڈالے گا۔خدا کے احکامات،قرآن و سنت اور سیرت طبیہ ۖ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ یہ یہود و نصاریٰ ہمارے کبھی دوست نہیں ہو سکتے۔کبھی ان پر بھروسا اور اعتبار تو قطعاً نہیں کیا جاسکتا ۔پہلے بھی کئی بار امریکہ نے ہماری امداد بند کی تھی مگر خاندانی منصوبہ بندی والی امداد کبھی بند نہیں کی کہ اس سے ان کا مفاد وابستہ ہے۔محمد عربیۖ کا فرمان کہ میری امت کو بڑھائو کے علی الرغم کفار تو یہ چاہتے ہیں کہ کلمہ گو مسلمانوں کی تعداد کم ہو تاکہ ہم انھیں آسانی سے دبوچ سکیں۔اور اس طرح ہمارے مسلم علاقوں پر قابض ہوکر تمام معدنی دولت پر تصرف حاصل کرلیں۔انڈیا میں سنجے گاندھی کی طرف سے مسلمان نوجوانوں کی نَس بندی کی سکیم کا بھی یہی مقصد تھا۔
امریکہ سمیت تمام بیرونی سامراجی ممالک کویہی خطرہ رہتا ہے کہ مسلمان زیادہ تعداد میں ویزے لے کر ان کے ممالک میں براجمان ہوتے چلے گئے تو بالآخر ووٹوں کی تعداد زیادہ ہو جانے پر وہی مقتدر ہو جائیں گے۔اور اسی خطرہ کو بھانپ کر ہی امریکی صدارت کا ایک امیدوار ببانگ دہل اعلان کرتا پھر رہا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے ملک سے نکال کر دم لیں گے خدائے عزو جل کے فضل و کرم سے ان کی یہ خواہش تو شاید پوری نہ ہو سکے مگر ایساانتخابی نعرہ اسے انتخابات میں کامیابی دلوا سکتا ہے ۔مشرقی پاکستان میں راء کے ایجنٹوں اور مکتی باہنی کے حملوں پر ہر روز یہی نوید سنائی دیتی تھی کہ امریکی بیڑاجنگی ساز و سامان لے کر بحیرہ بنگال میں چند روز کے اندر پہنچنے والا ہے اس طرح وہ بیڑابھارتی حملہ آوروں کو مشرقی پاکستان سے نکالنے میں ہمارا ممدو معاون ہو گا۔
America
ایں خیال است و محال است و جنوں کہ امریکہ کفر کے مقابلہ میں مسلمانوں کی امداد کرسکے۔ہم خام خیالی میں مبتلا رہے اور ہماری مسلم افواج کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں جنرل اروڑا سنگھ کے قدموں میں ہتھیار ڈالنا پڑے ۔ہمیں تاریخ کی ذلت آمیز شکست ہو گئی۔ہماری92ہزار سے زائد فوج ہندوستانی قید خانوں میں پہنچا دی گئی۔اور ہندو غنڈوں نے کئی ہفتوں تک لوٹ مار کا بازار گرم رکھا اور ہماری 28ہزار سے زائد بہن بیٹیوں کو بھی اپنا منہ کالاکرنے کے لیے اغوا کرکے لے گئے اور ہم امریکی بیڑے کی انتظا ر میں ہی رہے اور آج تک ممبئی اور ہندوستان کے بڑے شہروں کے مخصوص بازاروں میںا ن کی دوسری نسل بھی ہم مسلمانوں کی غیرت اوربے بسی کا مذاق اڑاتی ہے اور یہ خواتین خدا کے حضور گڑ گڑا کر دعائیں کرتی ہیں کہ کب کوئی محمد بن قاسم آئے اور انھیں ہندو بنیوں کی بر بریت سے نجات دلائے دوسری طرف ہم غیرت ایمانی کی نچلی ترین سطحوں سے بھی نیچے پہنچ چکے ہیں حتیٰ کہ ہم اپنی بہن بیٹیوں کو جلسوں میںڈانس کرواتے اور مخلوط محفلوں میںبا اثر مقتدر حضرات مجرا کروا کر ان کا مذاق اڑاتے اورہنستے ہیں۔
اب بھی تقریباً نصف رقوم جمع کروانے کے باوجود طیارے نہ ملنا ہمارے منہ پر طمانچہ مارنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ اور یہ ہمارے حکمرانوںکی بزدلیوں ،غلط خارجہ پالیسیوں کی صحیح عکاسی کرتا ہے۔ہمارے کمانڈو جنرل مشرف نے 9/11 کے بعد ہمارے ائیر پورٹس سے جنگی طیارے اڑا کر ہمسایہ مسلمان ملک افغانستان کو تہہ و بالاکرنے کی اجازت ایک فون کال پر ہی کسی سے مشورہ کئے بغیر دے ڈالی۔حالانکہ تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے کہ اس روزاس عمارت میں کام کرنے والے ہزاروں یہودی چھٹی لیے ہوئے تھے۔اب مسلمانوں پر اس کا الزام دھرنالغو بات ٹھہری اور یہودی کس طرح اس جرم سے چھٹکارا حاصل کرسکیں گے۔ ہمیں اور ہماری مسلح افواج کو بھی اس طالبان حکومت سے جنگ و جدل میں مصروف ہو نا پڑا جس حکومت کو ہم خود تسلیم کرچکے تھے۔اس اباؤٹ ٹرن پر ہمیں اربوں ڈالر کا نقصان اٹھاناپڑا ہمیں جنگی امداد بھی آٹے میں نمک کے برابر دیتے رہے اور ہمیشہ ڈو مور کا مطالبہ بھی برقرار رکھا اب مشرقی بارڈر ہمارے ازلی دشمن بھارت اور مغربی بارڈر ہماری ہی بیوقوفیوں کی وجہ سے غیر محفوظ ہو چکے ہیں۔
کیا ہی اچھا ہوتاکہ ہم سامراجی حکمرانوں سے برابری کے تعلقات تو رکھیں مگر ان کی ہر بات کو حکم سمجھ کر یس سر کہنا چھوڑ دیں ۔ہمارے پہاڑوں میں معدنیات کے لامحدود خزانے مدفون ہیں ہم ہنگامی ٹاسک فورس کے ذریعے انھیں نکال کربین الاقوامی مارکیٹ میں فروخت کرکے تمام قرضے بھی اتاریں اور اپنے دوست چین کی مدد سے اسلحہ سازی کی فیکٹریاں لگا کر جدید ترین اسلحہ اور جنگی طیارے تیار کریں۔ ہر پاکستانی نوجوان کو لازمی فوجی تربیت دیں اور پھر انھیں مسلح کرکے آٹھ کروڑ افراد پر مشتمل اسلامی فورس بنا کر پورے عالم اسلام کی حفاظت و قیادت کریں۔ہم ایٹمی قوت ہیں ناپاک عزائم رکھنے والے سامراجی ممالک کی غلامی و تابعداری کرنے کے جرم کی خداکے حضور معافی کے طلبگا ر ہوں۔ بتوں سے تجھ کو امیدیں اور خدا سے نو امیدی مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے