تحریر : سید توقیر حسین اس بھولے بسرے شعر کی یاد آج یوں آئی کہ جہانگیر ترین کو بے ساختہ داد دینے کو جی چاہا، جنہوں نے تسلیم کیا کہ ان کے بچوں کے نام پر آف شور کمپنی ہے لیکن وہ بالغ اور خود مختار ہیں تو کیا حسین نواز اور حسن نواز شیر خوار ہیں؟ وہ بھی چالیس کے لگ بھگ بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ اگر جہانگیر ترین کے بچوں کو اس بنیاد پر آف شور کمپنی بنانے کا حق ہے اور ان کے والد نہ صرف اس مقصد کیلئے روپیہ بیرون ملک بھجواتے ہیں بلکہ کمپنی بنانے کے حق میں دلائل بھی رکھتے ہیں۔ تو یہ حق دوسروں کو کیوں نہیں، ابھی تو یہ بات پوری طرح سامنے نہیں آئی کہ وہ دو ڈھائی سو خوش نصیب کون ہیں جن کے نام پانامہ لیکس میں موجود ہیں، صرف دیگ سے چند دانے ہی سامنے آئے ہیں اور یار لوگوں نے سب کو بھول بھلا کر صرف وزیراعظم کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔
وزیراعظم کا نام بھی تو کسی آف شور کمپنی کے ساتھ نہیں آیا اور یہ بات پانامہ لیکس سے استفادہ کرنے والے تحقیقی صحافیوں نے خود مانی ہے۔ پانامہ لیکس کی جو اگلی قسط متوقع ہے اور جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس میں 400 پاکستانیوں کے نام سامنے آنے والے ہیں، وہ تو جب آئیں گے تب آئیں گے جو نام آچکے ہیں ان سے نظریں کیوں چرائی جا رہی ہیں؟ انسانی طبیعتیں ایک جیسی ہوتی ہیں وہ دوسروں کی آنکھوں کے تنکے تو تلاش کرلیتی ہیں، لیکن اپنی آنکھ کے شہتیر سے غافل رہتی ہیں۔ شروع شروع میں جب یہ بات سامنے آئی کہ جہانگیر ترین کی بھی آف شور کمپنی ہے تو انہوں نے بھی حسب دستور تردید کر دی۔ اب کمپنی تو مان رہے ہیں لیکن اپنے بیٹوں کے حوالے سے۔ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ جس سرمائے سے یہ کمپنیاں بنیں، وہ پاکستان سے گیا۔ اس سلسلے میں سٹیٹ بنک کا یہ موقف سامنے آچکا ہے کہ جن لوگوں کے غیر ملکی کرنسی میں اکاؤنٹس ہیں وہ سٹیٹ بینک کی اجازت کے بغیر اپنا پیسہ باہر منتقل کرسکتے ہیں اور جتنا چاہے کرسکتے ہیں۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جہانگیر ترین کے بیٹوں نے بھی فارن کرنسی اکاؤنٹ کھولے ہوں گے اور قانون کے مطابق اپنا سرمایہ باہر لے گئے ہوں گے۔
Jahangir Tareen
ایک قانونی سرگرمی کو ہد ف تنقید و ملامت اگر بنایا جائے تو کس اصول اور ضابطے کے تحت؟ لیکن اصولوں اور ضابطوں کا اطلاق جہانگیر ترین کے بیٹوں اور وزیراعظم کے بیٹوں پر یکساں ہونا چاہئے۔ کسی کو قانون کا سامنا کرنا ہے تو اس کا اطلاق بھی مساوی بنیادوں پر ہونا چاہئے۔ جو رعایت جہانگیر ترین کے بیٹوں کے لئے مباح ہے وہ وزیراعظم کے بیٹوں کے لئے ناجائز کیوں ٹھہری؟ صرف اس لئے کہ جہانگیر ترین جس پارٹی میں ہیں وہ مجسم انصاف ہے اور وزیراعظم کا تعلق جس جماعت سے ہے اس کا نام انصاف نہیں ہے۔جہانگیر ترین نے نہ صرف یہ تسلیم کیا ہے کہ ان کے چار بچوں کے نام آف شور کمپنی رجسٹر ہے بلکہ انہوں نے پوری وضاحت کے ساتھ یہ بھی بتا دیا ہے کہ آف شور کمپنی رجسٹر کرانا کیوں ضروری تھا، ان کے اپنے الفاظ ہیں۔”میرے نام پر کوئی کمپنی نہیں، میرے تمام بچے بالغ ہیں اور خودمختار ہیں،
چنانچہ ان کے نام پر جو غیر ملکی جائیداد اور آف شور کمپنی ہے اسے میری کمپنی نہیں کہا جاسکتا۔” اس سوال کے جواب میں کہ ان کے خاندان کی آف شور کمپنی کیوں ہے، ان کا کہنا تھا۔”برطانیہ میں اپنے اثاثوں کی مینجمنٹ کے لئے ایسا کرنا ضروری ہے، کیونکہ کسی ناپسندیدہ صورت حال میں املاک کی وراثت کے حوالے سے برطانیہ میں سنگین مسائل ابھر سکتے ہیں، اگر آف شور کمپنیاں ٹرسٹ کے ذریعے نہ چلائی جائیں تو ٹیکسوں کی مد میں برطانوی حکومت کو بہت بڑی رقم دینا پڑتی ہے اور املاک برطانوی حکومت کے حوالے کرنا پڑتی ہیں، کیونکہ وہاں وراثتی قوانین مختلف ہیں، ان کے چار بچوں کی برطانیہ میں املاک ہیں اور انہوں نے اپنے بچوں کو پاکستان میں قانونی بینکنگ ذرائع سے رقوم بھجوائیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے گزشتہ 5 برس میں 27 کروڑ روپے ٹیکس دیا۔ نواز شریف بتائیں انہوں نے کتنا ٹیکس دیا”۔
Nawaz Sharif
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پریس کانفرنس میں جہانگیر ترین کے متعلق کہا۔جہانگیر ترین نے اپنے اثاثے ڈکلیئر کئے ہوئے ہیں اور ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں، جہانگیر ترین کا نام پانامہ لیکس میں نہیں آیا، میاں نواز شریف کا آیا ہے لیکن وزیراعظم وضاحت کرنے کی بجائے الزام تراشی کر رہے ہیں اور عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے تشہیر کر رہے ہیں۔ اشتہارات اور پروپیگنڈے کے معاملے کو عدالت لے کر جائیں گے۔ اس موقع پر جہانگیر ترین نے جو عمران خان کے ساتھ بیٹھے تھے، کہا ”میرے بچوں کے بھی لندن میں فلیٹس ہیں لیکن یہ فلیٹس ہم نے ٹیکس ادا کرنے کے بعد خریدے ہیں۔ میں نے کوئی منی لانڈرنگ نہیں کی۔ حلال کی کمائی باہر بھیجی جس کے ثبوت موجود ہیں۔
نوازشریف کو چیلنج کرتا ہوں کہ بتائیں انہوں نے رقم کیسے باہر بھیجی۔تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ احتساب ایک خاص شخص، خاص طبقے کا نہیں بلکہ سب کا ہونا چاہیے۔ انہوں نے اپنی پارٹی کے رہنما جہانگیر ترین کی جانب ان الفاظ میں اشارہ کیا۔ ”میں نہیں کہوں گا، میری صف میں ہے تو حاجی دوسرے کی صف میں ہے تو گنہگار، مجھے نہیں معلوم کہ ہماری صف میں بھی کرپٹ لوگ شامل ہیں۔ اگر میں کسی اور کے احتساب کرنے کی بات کرتا ہوں تو خود کو بھی احتساب کیلئے پیش کرنا ہوگا۔ اگر ایسا نہیں کریں گے تو بات آگے نہیں بڑھ سکے گی۔ لوگ بھی پسند نہیں کرتے اور قبول بھی نہیں کرینگے۔ وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے سوشل میڈیا پر ایک تبصرہ کیا جو مقبول ہو رہا ہے۔ ”تیرا کیا بنے گا کالیا، تیری تو دواے ٹی ایم، آف شور نکلیں۔