معیشت ترقی کی جانب سفر

Economic development

Economic development

تحریر : سید توقیر حسین
عالمی بینک نے کہا ہے کہ پاکستان میں معاشی ترقی کا تسلسل آئندہ سال بھی برقرار رہے گا، مالی سال2017ء میں پاکستان میں ترقی4.8فیصد رہے گی۔ پاکستان کی معیشت کو تیل کی کم قیمتوں اور ترسیلات زر سے استحکام ملا، اور یہ 2019ء تک اِسی رفتار سے چلتی رہے گی، پاکستان میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری کا تناسب ابھی کم ہے، پاکستان نے معاشی ترقی کے اہداف حاصل کرنے میں بہت عجلت کی، تاہم اِس سلسلے میں اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے، حکومتی اخراجات میں کمی، عوامی فلاحی پروگرام پر خرچ کرنا بہت اچھا اقدام ہے۔ وفاق اور صوبوں نے ٹیکس وصولی میں اہم کردار ادا کیا۔ دوسری جانب عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) کے ڈائریکٹر مسعود احمد نے کہا ہے کہ پاکستان کو اب برآمدات بڑھانے اور شرح نمو میں پائیدار اضافہ کرنا ہے،280ارب ڈالر کی مجموعی معیشت والے پاکستان کی برآمدات50ارب ڈالر تک ہونی چاہئیں۔

عالمی بینک اور آئی ایم ایف دونوں اداروں نے پاکستانی معیشت کی کارکردگی کو سراہا، آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اب قرضوں کی ضرورت نہیں رہی اس کی معیشت اِن کے بغیر بھی مضبوط ہو سکتی ہے، عالمی بینک نے پاکستانی معیشت کی ترقی کا راز دو باتوں میں تلاش کیا ہے: ایک عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی اور دوسرے ترسیلاتِ زر، جہاں تک تیل کی قیمتوں میں کمی کا تعلق ہے یہ سلسلہ اب رْک گیا ہے اور عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں ایک مقام پر نہ صرف ٹھہر گئیں، بلکہ ان میں تھوڑا بہت اضافہ بھی ہوا اور مزید معمولی اضافے کا امکان ہے تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ ابھی مزید سال ڈیڑھ سال تک قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کا امکان نہیں ہے، تیل کے ان صارف ملکوں کی معیشت کو، جن کا انحصار درآمدی تیل پر ہے، اس کمی کا بہت فائدہ ہوا ہے اور اس کے مثبت اثرات دوسری اشیائے صرف کی قیمتوں پر بھی مرتب ہوئے ہیں، پاکستان جیسے ملکوں میں جہاں بجلی کا ایک حصہ فرنس آئل سے بھی بنتا ہے، وہاں بجلی نسبتاً سستی تیار ہو کر سستے داموں صارفین تک پہنچ رہی ہے اور غربت کے مارے عوام کو اس سے اک گونہ ریلیف محسوس ہوا ہے تاہم خیال رہے کہ ”تیل کی یہ بہار” ہمیشہ نہیں رہے گی، اِس لئے معیشت کی مضبوطی کی خاطر ابھی سے ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے درآمدی تیل پر انحصار کم ہو سکے، ایک طریقہ تو یہ ہے کہ پاکستان کے اندر تیل کی تلاش کا کام تیز کیا جائے اور اس شعبے میں سرمایہ کاری بڑھائی جائے، دوسرے تیل کے ساتھ ساتھ دوسری معدنیات کی تلاش میں بھی زیادہ سرگرمی دکھانے کی ضرورت ہے جن کی برآمد سے زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔

pakistan

pakistan

تیل کی مقامی پیداوار میں اضافے کے ساتھ ساتھ انرجی کے دیگر ذرائع کو بھی ترقی دینے کی ضرورت ہے، جن میں ونڈ اور سولر انرجی بھی شامل ہیں، انرجی کے یہ دونوں ذرائع ایسے ہیں جو پاکستان کو ہمیشہ سے دستیاب ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے تاہم اِن دونوں ذرائع سے انرجی کے حصول کی خاطر چونکہ کافی سرمایہ کاری کرنا پڑتی ہے اس لئے پاکستان اِن شعبوں کی جانب قدرے تاخیر سے متوجہ ہوا ہے۔ ونڈ پاور سے پاکستان صرف50میگاواٹ بجلی حاصل کر رہا ہے اگر نئے سرمایہ کار اس شعبے میں سرمایہ کاری کریں تو مزید بجلی حاصل ہو سکتی ہے، سولر پاور سے بھی بجلی حاصل کرنے کے منصوبوں کا آغاز تو ہوا ہے تاہم اس جانب بھی زیادہ توجہ کی ضرورت ہے، گھروں میں بھی لوگوں کو اپنی بجلی خود بنانے کی طرف مائل کرنے کے لئے لوگوں کو سولر پینل کی خریداری میں سہولتیں دی جائیں تو تدریجاً لوگ اِس جانب متوجہ ہوں گے، جو لوگ گھریلو مقاصد کے لئے سولر بجلی حاصل کریں اْن سے فالتو بجلی خرید کر دوسرے صارفین کو سپلائی کی جا سکتی ہے۔ تاہم اس کام کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی اور نیٹ ورک بنانے کی ضرورت ہو گی۔

ترسیلاتِ زر پاکستان کے لئے اس لحاظ سے ایک نعمت ہے کہ یہ زر مبادلہ کی آمدنی کا مستقل ذریعہ ہے اور کم برآمدات کا نعم البدل بھی ہے،امید تو یہی ہے کہ اگر کوئی غیر معمولی حالات دْنیا میں وقوع پذیر نہیں ہوتے تو آمدنی کا یہ ذریعہ مستقبل میں اسی طرح برقرار رہے گا۔ بنیادی طور پر یہ ترسیلات بیرون مْلک ملازمین یا کاروبار کرنے والے لوگ پاکستان میں اپنے رشتے داروں کو بھیجتے ہیں تاہم آئی ایم ایف نے برآمدات میں جس اضافے کی جانب توجہ دلائی ہے وہ بہت اہم ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کی برآمدات50ارب ڈالر ہونی چاہئیں اس وقت یہ ہدف اگرچہ پہاڑ کی مشکل چڑھائی کی طرح نظر آتا ہے تاہم اگر پاکستان اپنے وسائل کو مہمیز لگائے تو یہ ہدف اتنا بھی ناقابلِ حصول نہیں، بہت سے شعبے ایسے ہیں جہاں ہم ویلیو ایڈڈ مصنوعات بنا کر زیادہ منافع کما سکتے ہیں اور برآمدات بڑھا سکتے ہیں۔

F16 Aircraft

F16 Aircraft

سافٹ ویئر ایک ایسا شعبہ ہے جس کی برآمدات کو ہم نے ابھی ایکسپلور ہی نہیں کیا، دْنیا کے کئی ملکوں کی محض سافٹ ویئر برآمدات پاکستان کی مجموعی برآمدات سے زیادہ ہیں۔ امریکہ کے بہت سے ادارے اپنا سافٹ ویئر بھارت سے بنواتے ہیں۔ بھارت نے بہت پہلے اس شعبے میں قدم رکھ دیا تھا، لیکن اب بھی اگر پاکستان اِس جانب توجہ دے تو چند برس کے اندر اندر سافٹ ویئر کی برآمدات میں اچھی کارکردگی دکھائی جا سکتی ہے، اِسی طرح ہائی ٹیک مصنوعات کا شعبہ ایسا ہے جہاں سرمایہ کاری اور محنت کے ذریعے کرشمے دکھائے جا سکتے ہیں، حال ہی میں پاکستان نے سری لنکا کو جے ایف 17 تھنڈر طیارے فروخت کرنے کا معاہدہ کیا ہے، اس سے پہلے عراق کو سْپر مشّاق طیارے فروخت کرنے کا معاہدہ ہو چکا ہے۔ ترکی کو بھی ان طیاروں کی خرید میں دلچسپی ہے۔

پاکستان اگر ان دونوں شعبوں میں پوری توجہ دے تو ایک عشرے کے اندر اندر برآمدی اہداف بآسانی حاصل کئے جا سکتے ہیں، لیکن ضرورت یہ ہو گی کہ روایتی برآمدات کو بھول کر ویلیو ایڈڈ اور ہائی ٹیک مصنوعات بنائی جائیں۔عالمی بینک اور آئی ایم ایف نے معاشی شرح نمو آئندہ برس4.8فیصد رہنے کی پیشگوئی کی ہے یہ شرح چند برس میں8.00فیصد تک لے جانے کی ضرورت ہے اسی صورت میں بیروزگاری کم ہو سکے گی جس کی شرح اس وقت بہت زیادہ ہے۔ اگر اگلے چند برس میں شرح کو5اور6فیصد تک لے جانے میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ بھی معمولی کامیابی نہیں ہو گی، کیونکہ2013ء سے پہلے کئی سال تک یہ شرح ڈھائی تین فیصد سے آگے نہیں بڑھ سکی تھی، مجموعی طور پر عالمی بنک اور آئی ایم ایف نے پاکستان کی معیشت کی مثبت تصویر پیش کی ہے۔

Syed Tauqeer Hussain Zaidi

Syed Tauqeer Hussain Zaidi

تحریر : سید توقیر حسین