تحریر: محمد شہزاد اسلم راجہ کیا عجب اتفاق ہے کہ 12 سال قبل لکھی گئی ایک کہانی جو کہ کچھ دنوں پہلے فلم کی شکل پاکستان کے سینمائوں میں نمائش کے لئے پیش کی گئی۔ اس فلم کا میڈیا پارٹنر بھی سرکاری ٹی وی تھا اور اس فلم کا ایک منظر سرکاری ٹی وی پر نشر ہوتا رہا جس میں حلف لیا جاتا ہے کہ ”میں پاکستان کا شہری پاکستان کا مالک ہوں۔ اس فلم کی کہانی کی خاص بات یہ ہے کہ یہ کہانی ہمارے ملک میں موجودہ سیاسی حالات کے موافقت رکھتی ہے او ر پھر سونے پر سہاگہ یہ فلم عین اُس وقت سینمائوں میں نمائش کے لئے پیش کی گئی جب ہر طر پاناما کا شور شرابا ہے۔
کپتان کے علاوہ باقی اپوزیشن والے بھی پاناما پیپر میں وزیراعظم کے بیٹوں یا ان کے خاندان ان کے گھر کے افراد کا نام آنے پر کرپشن اور احتساب کا رولا پا رہے ہیں۔ چونکہ فلم میں کرپشن کی نشاندہی کی گئی۔
ظلم و ستم اور نااہلی کو اجاگر کیا گیا اور جو سب سے اہم بات کہ اس میں واضح کیا گیا کی ہم ”نادان عوام” ہی کی ووٹوں سے یہ سیاستدان ، وڈیرے اور جاگیر دار اقتدار میں آتے ہیں تو پھر یہ ملک ان سیاستدانوں ، وڈیروں اور جاگیر داروں کی ملکیت کیسے ہوا ۔ اس کے اصل مالک تو اس کے عوام ہیں۔
Corruption
حال ہی میں پاک فوج کے سربراہ نے بھی کرپشن کی روک تھا م اور کڑا احتساب کرنے کی عمدہ مثال اپنے ہی ادارے سے شروع کی میرا خیال ہے کہ پاک فوج کے سربراہ نے بھی فلم ”مالک ” دیکھی ہے یا پھر اس فلم کے کہانی کار اور ڈائریکٹر عاشر عظیم سے اس فلم کی کہانی سنی جو انہوں نے اپنی ہی ادارے میں کرپشن فری کا قدم اٹھایا۔
اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک بات بھی اس واقع کا مُڈھ نہیں ہے تو پھر حکمران یا درباری حضرات کیوں عاشر عظیم کی اس فلم ”مالک” کے پیچھے پڑ گئے ہیں اور فنڈنگ کے ساتھ ساتھ لسانیت کو فروغ اور جمہوریت کے خلاف کا الزام لگا کر اس فلم کو بین کر دیا گیا۔
حکمران ، درباری ، وڈیرے ، جاگیر دار اس قدر”مالک” سے خوف زدہ ہوئے کہ اس فلم کو ضبط کر کے نمائش پر پابندی لگا دی گئی ۔مذکورہ بالا فلم چونکہ کمرشل فلم نہیں ہے اس لئے اس پر فنڈنگ کا الزام تو نہیں لگ سکتا کیوں کہ جس قسم کی یہ فلم ہے اس کو بنانے والے کو فنڈنگ کوئی کرتا ہی نہیں اور رہا دوسرا الزام لسانیت کو فروغ اور جمہوریت کے خلاف ہے تو اس فلم کی کہانی جسے میں نے نمائش کے پہلے ہی دن پہلے ہی شو میں دیکھا اس میں لسانیت کو فروغ دیا گیا نہ ہی جمہوریت کے خلاف کوئی بات کی گئی۔
Democracy
میری ناقص سوچ کے مطابق اس فلم کی کہانی پر وہ لوگ اعتراض کر رہے ہیں جنہوں نے شاید اس فلم کو دیکھا ہی نہیں ابھی تک۔ صاحبو! اب یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ اس فلم کی نمائش کو پہلے بھی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے آغاز کی وجہ سے ملتوی کیا گیا ۔اب جب سنسر بورڈ نے یہ فلم پاس کر دی اور فلم سینمائوں میں چل رہی تھی تو ناجانے کس خوف کے نتیجے میں اس پر پابندی لگائی گئی ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ فلموں کو سنسر بورڈ پاس نہیں کرتا سنسر بورڈ والے تو صرف دستخط کرنے والے ربوٹ ہوتے ہیں جبکہ فلموں کی منظوری کا فیصلہ کہیں اور ہوتا ہے، جہاں یہ فیصلہ ہوتا ہے اب وہاں کے لوگ ہی ڈر گئے ہیں۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس فلم کو اس وقت موجودہ ملکی حالات میں ریلیز کرنا درست نہیں جبکہ صاحبو میرا اپنا ذاتی خیال ہے کہ اس سے بہتر وقت اور کوئی نہیں ہو سکتا جب ہماری عوام حقائق اور سچائی اس فلم کی کہانی سے جان سکیں ۔ہم سب نے عاشر عظیم کو حقائق اور سچائی پر مبنی ایک اچھی فلم بنانے پر ان کو مبارک باد دینی چاہیئے تھی مگر اقتدار کی مسند پر بیٹھے لوگ عاشر عظیم کو ایک مجرم کی طرح پیش کر رہے ہیں ۔ جن لوگوں نے اس فلم کو دیکھا اور وہ جذبہ حب الوطنی رکھتے ہیں تو وہ میرے ساتھ عاشر عظیم کو اس کام پر مبارکباد دیں۔