تحریر : عماد ظفر دکھ اور یاس کی کیفیت میں رہنا بھی ایک نشےکی لت کی مانند ہے. نفسیات کے علم کے مطابق اکثر انسان اپنے آپ کو دکھ کرب یا اذیت میں مبتللا کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں. کچھ یہی حال معاشروں کا بھی ہوتا ہے جیسے کہ ہمارا معاشرہ.ا یک بے ہنگم سا شور ایک تماشہ سماج میں چار سو جاری ہے. نعرے نظام بدلنے کے دعوے انقلاب اور بڑے بڑے دعوے ہمہ وقت جلسوں جلوسوں میڈیا یا گلی محلوں اور چائے خانوں میں زیر بحث رہتے ہیں.نظام بدلے گا تو غریب کے گھر کا چولہا جلے گا یہ جملہ سنتے سنتے کئی نسلیں اگلے جہان سدھار گئیں.لیکن نظام جوں کا توں ویسے کا ویسا اپنی جگہ موجود ہے. دنیا کا ایک اصول ہے کہ تخت اس کا ہوتا ہے یا راج وہ کرتا ہے جو طاقتور ہوتا ہے اور کمزور محکوم رہ کر جیون کے دن بسر کرتا ہے زمانہ قدیم میں تلوار کے زور پر بادشاہت قائم کی جاتی تھی اور دور جدید میں تیسری دنیا میں ووٹوں اور جمہوریت کے نام پر اب اس کو قائم رکھا جاتا ہے۔
تیسری دنیا میں جمہوریت کے نام پر اشرافیہ اپنے آپ کو خود ہی عوام کا مسیحا یا لیڈر کہلوا کر جمہوریت کے نام پر راج کرتی ہے. عوام نعرے مارتی اور اشرافیہ کی غلامی کی محبت میں گرفتار ایک دوسرے کا گریبان پھاڑنے کیلئے تیار رہتی ہے. اب وطن عزیز کو ہی دیکھ لیجئے عوام کے نمائندے کہلانے والے تمام سیاستدان ہوں یا پھر دفاعی ایسٹیشمنٹ کے بڑے بڑے جرنیل.یہ تمام لوگ محلات نما بنگلوں میں زندگی کی تمام آسائشوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے غریبوں کے غم میں مرے جا رہے ہوتے ہیں ریاستی خزانے سے وسائل کا بے دریغ استعمال اور پروٹوکول استعمال کرتے ائیر کنڈینشنڈ کمروں سے جب عوام کے دکھ درد کو سمجھنے کے بیانات داغے جاتے ہیں تو سیاسی و دفاعی غلاموں میں سے کسی ایک کو بھی جرات نہیں ہوتی کہ ان سب حضرات سے پوچھ سکے کہ جناب عوام کی خدمت کرنے آئے ہیں یا اپنی اپنی زندگی کو مزید پرتعیش بنانے۔
پاکستان میں خط غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی بہتات ہے جو محض ایک یا دو وقت کی روٹی کھا کر سانس لینے کو زندگی سمجھتے ہیں.بنیادی سہولتوں سے محروم آبادی کے اس بے پناہ ہجوم کو سیاسی اشرافیہ اقتدار کی جنگ میں مصروف ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہے جبکہ دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ موقع کی تاک میں سیاستدانوں کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں مگن. ایسے میں ایبٹ آباد میں کسی بچی کو زندہ جلا دیا جائے یا کراچی جیسے شہر میں ایک بھائی بہن کو غیرت کے نام پر قتل کر دے، نہ تو سیاسی اشرافیہ کے کانوں پر جوں رینگتی ہے اور نہ ہی اس معاشرے میں رہنے والے ہم تمام لوگوں پر اس کا اثر ہوتا ہے۔
Water
پینے کا صاف پانی نہ ملنے کی وجہ سے ہزارہا بچے اور بوڑھے یہپاٹاءٹس اور دیگر بیماریوں کا شکار ہو کر مر جاتے ہیں لیکن بے حسی کی چادر تلے سوتا معاشرہ آنکھیں کھولنے کی زحمت بھی نہیں کرتا. اڑھائی کڑوڑ کے قریب بچے سکول جانے کی عمر میں سکولوں سے باہر ہیں لیکن سوائے بیان یازی کے ہمارے پاس انہیں دینے کو اورکچھ بھی نہیں.دوسری جانب سیاسی و دفاعی اشرافیہ کی ایک اپنی دنیا ہے.سیاسی اشرافیہ پروٹوکول کے ساتھ بڑی بڑی گاڑیوں اور قیمتی لباس میں ملبوس منرل واٹر اور مہنگے سے مہنگے کھانوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اپنے اپنے کاروباری یا سیاسی مقاصد کی تکمیل میں مصروف اور دفاعی اشرافیہ وطن کی حفاظت کے گن گاتے ہر کاروبار پر قابض اور سرکاری خزانے کا زیادہ تر حصہ اپنے نام.مزہبی اشرافیہ جنت کے وعدے پر عوام کی زندگی کو جہنم بناتے ہوئے خود اپنی زندگی میں مست. اسی طرح عام آدمی تاجر سے لیکر کلرک اور چھوٹے بزنسمین سے لیکر بیروکریٹ سب اپنی اپنی زندگی کو پر لطف بنانے کی کوششوں میں ہر اس جگہ بے ایمانی کرتے ہیں جہاں ان کا بس چلتا ہے.بیس کڑوڑ کی آبادی اور ٹیکس دینے والے محض 10 لاکھ. اور پھر دہائیاں کہ یم لوگ ترقی نہیں کرتے۔
اس نظام میں جو کہ ہرگز بھی جمہوری نہیں ہے بلکہ پلوٹوکریسی ہے اس میں غریب اور امیر کے درمیان جو خلیج ہے وہ دن بدن بڑھتی جاتی ہے یوں اس نظام کو چلانا بے حد آسان ہو جاتا ہے. مسئلہ ہمارے ساتھ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں غریب خود جان بوجھ کر غریب ہی رہنا چاہتا ہے. اس لیئے خاموشی سے اپنے اوپر مسلط اشرافیہ کے جبر سہتا ہے اور روز دن میں کئی کئی بار مرتا ہے.ایک سفید پوش آدمی یا اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر افراد خود اس نظام کو چلتے دیکھنے کے خواہش مند ہیں . غریب نعرے مار کر ایک پلیٹ کھانے کی کھا کر کسی کو بھی ووٹ دے دیتا ہے کیونکہ خالی پیٹ نہ تو کوئی مذہب مانتا ہے اور نہ ہی اچھے اور برے میں تفریق کرتا ہے. مڈل کلاس کیونکہ چند آسائشات زندگی سے مستفید ہو رہی ہوتی ہے اس لیئے وہ انہیں کھونا نہیں چاہتی۔
تبدیلی انقلاب یا سٹیٹس کو کے خاتمے کی پہلی شرط اپنی آسائشات کو قربان کر کے اس مقصد کیلئے تکالیف اٹھانا ہوتا ہے.چونکہ ہم کشٹ اٹھانے کے بجائے گفتار کے غازی بننے کو ترجیح دیتے ہیں اس لیئے چی گویرا کی تصویر کی شرٹس پہن کر یا ڈاکٹر مارٹن لوتھر اور نیلسن منڈیلا کنگ کے اقوال زریں ایک دوسرے سے شیئر کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ بس اب نظام تبدیل ہو جائے گا. انقلاب یا نظام کی تبدیلی اشرافیہ نہیں بلکہ عوام لایا کرتی ہے.رائیونڈ ہو یا نوڈیرو یا پھر بنی گالہ یا پھر ڈی ایچ اے، یہاں کے بسنے والے لوگ زندگی کی تکالیف سے نابلد بھی ہیں اور نا آشنا بھی. یہ سٹیٹس کو لے وہ علمبردار پیں جنہیں ہر قیمت پر یہ نظام فائدہ دیتا ہے۔
Politics
ایک عام آدمی کیونکہ اس نظام میں حصہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا.سیاسی جماعت بنانے اور اس کو چلانے کیلیئے کڑوڑوں اربوں روپے درکار ہوتے ہیں اور عام آدمی کی گنتی پیسوں کے معاملے میں بہت حد تک تجاوز کر جائے تو چند کڑوڑ تک جا کر ختم ہو جاتی ہے. اس نظام میں ایک کشش ہے جو ہر استحصالی نظام میں ہوتی ہے اور وہ ہے لالچ. لالچ انسانی فطرت میں شامل ہے اس لیئے اس کو قابو کرنے کیلئے مہذب معاشروں میں قوانین موجود ہوتے ہیں اور ان پر عملداری ہر طور ممکن بنائی جاتی ہے.ہمارے ہاں کیونکہ قوانین بھی نظام کی طرح کمزور ہیں اس لیئے ہر شخص جانتا ہے کہ پیسے کی طاقت سے انہیں توڑا اور موڑا جا سکتا ہے.سو معاشرے میں موجود اس نظام کا حامی ہر شخص کہیں نہ کہیں دل میں ارمان چھپائے بیٹھا ہوتا ہے کہ اس کو بھی کوئی نہ کوئی موقع ملے گا اور وہ بھی اس نظام سے کوئی نہ کوئی فائدہ یا مفاد حاصل کر کے نو دو گیارہ ہو جائے گا۔
افتخار عارف کی ایک شہرہ آفاق نظم ہے بارہوں کھلاڑی جس میں انہوں نے بارہویں کھلاڑی کے جزبات کی ترجمانی کرتے ہوئے اسے لازوال الفاظ کی کڑی میں سمویا ہے.بارہواں کھلاڑی کسی بھی ٹیم میں ہو دل میں دعا کرتا رہتا ہے کہ کوئی حادثہ ہو جائے کوئی کھلاڑی ٹیم میں ان فٹ ہو جائے تو اسے بھی کھیلنے کا موقع مل جائے . ہم سب جو اس سٹیٹس کو کے علمبردار نظام سے جڑے ہوئے ہیں کہیں نہ کہیں اسی بارہویں کھلاڑی کی مانند اپنے اپنے موقع کی تاک میں رہتے ہیں کہ جونہی موقع ملے تو دوسروں کو اخلاقیات ایمانداری جمہوریت کے بھاشن دیتے دیتے خود اپنا الو سیدھا کر کے اس نظام سے مستفید ہونے والی ٹیم میں شامل ہو سکیں. یہی اپنے اپنے مفاد کی وہ سوچ ہے جو اس نظام کو ہمارے اوپر مسلط کیئے ہی رکھتی ہے۔
Society
نظام یا معاشرے کاغذ کی دستاویزات سے نہ تو چلتے ہیں اور نہ باہم رہتے ہیں انہیں چلانے کیلئے معاشرہ خود اپنے کاندھے فراہم کرتا ہے.ترقی یافتہ ممالک میں افراد اپنے اپنے ذاتی فائدے کے بجائے معاشرے کے فائدے کا سوچتے ہیں چنانچہ بحیثیت مجموعی ان کے معاشرے اور نظام دن بدن مضبوط ہوتے جاتے ہیں اور نتیجتا ان معاشروں میں بسنے والے تمام افراد کو اس کے نتیجے میں نجی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں.ہم جب تک بارہویں کھلاڑی بن کر اپنے اپنے موقع کی تاک میں رہیں گے تب تک سٹیٹس کو کے علمبردار اور یہ ظالمانہ نظام ہم پر مسلط رہے گا. اپنے اپنے ذاتی فوائد حاصل کر کے اس نظام کے خراب ہونے میں ہم سیاسی دفاعی اور مذہبی اشرافیہ کے ساتھ شامل ہیں اور شریک جرم ہیں۔