تحریر : سید انور محمود آجکل سوشل میڈیا پر ایک وڈیو بہت نظر آرہی ہےجسکا تعلق جمعیت علمائے اسلام (ف )کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے ہے۔ اس وڈیو کے سوشل میڈیا پر آنے کے بعد مولانا نے اس کی شکایت کی ،جس کے بعد پمز اسپتال کے ایک سینیر ڈاکٹر کو معطل کردیا گیا۔ یہ ویڈیو اس وقت بنائی گئی جب مولانا پمز اسپتال میں معدے میں تکلیف کی وجہ سے داخل ہوئے تھے، وہاں چیک اپ کے دوران کسی نے چھپ کرمولانا کی ویڈیو بنالی۔ اس ویڈیو میں ایک خاتون جو یا توڈاکٹر ہیں یا پھر نرس وہ مولانا کا علاج کررہی ہیں، جبکہ اسی وڈیو میں مولانا کا پورا پیٹ ننگا نظر آرہا ہے۔ اس ویڈیو میں ایسی کوئی بات نہیں جو قابل اعتراض ہو، لیکن ہاں شاید یہ بات مولانا کےلیے باعث ندامت ہو کہ تھوڑے عرصے پہلے وہ حقوق نسواں بل پر بہت زیادہ برہم تھے اور پنجاب کے شوہروں کی مظلومیت پر رو رہے تھے،انہیں پنجاب کے مظلوم شوہروں کا مستقبل خوفناک نظر آرہا تھا۔
جبکہ مولانا خیبر پختونخواہ کی خواتین پر ہونے والے ظلم کا ذکر کرنا بھی پسند نہیں کرتے۔ خیبر پختونخواہ میں خواتین کو انکے بنیادی حقوق سے محرو م رکھا ہوا ہے اور یہ کوئی اور نہیں مولانا فضل الرحمن جیسے ہی لوگ وہاں کی خواتین پر ظلم ڈھارہے ہیں۔جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا کہ ویڈیو میں مولانا فضل الرحمن کا پورا پیٹ ننگا نظر آرہا ہے، یہ بھی کوئی خاص بات نہیں لیکن مسلئہ یہ ہے کہ مولانا کو اس پیٹ کے خاطر ہی پمز اسپتال میں داخل ہونا پڑا۔
پمز اسپتال کے ڈاکٹروسیم خواجہ نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمان دل کے عارضے اور شوگر کے مریض ہیں، انہیں خوراک میں بے احتیاطی کی وجہ سے معدے میں تکلیف ہوئی ہے۔ ڈاکٹر وسیم خواجہ نے مولانا فضل الرحمن کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنی خوراک میں احتیاط کریں ۔ جبکہ ہمارا مولانا کو مفت مشورہ ہے کہ اپنی خوراک میں احتیاط کے ساتھ ساتھ اپنے طمع اور خود غرضی کو کم کریں۔ خواتین اور مولانا کے موضوع پر تفصیل سے بات کسی اگلے مضمون میں ہوگی۔ اس مضمون کا جو موضوع ہے وہ ہے پاناما لیکس اور مولانا فضل الرحمن۔
Nawaz Sharif
اگر ہم وزیراعظم نواز شریف کی کابینہ یا انکے ساتھ جو لوگ کام کررہے ہیں ان پرنظر ڈالیں توان میں پہلے وہ ہیں جو نواز شریف کے رشتہ دار ہیں پھر وہ ہیں جو نواز شریف کے دوستوں میں سے ہیں، اور آخر میں وہ ہیں جو انکے بدترین مخالف پرویز مشرف کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں، جمیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ان میں سے ایک ہیں، جن کے ایک ساتھی اکرم خان درانی جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں صوبہ سرحد( موجودہ صوبہ خیبر پختونخوا) کے وزیر اعلی تھے اور اب نواز شریف کی کابینہ کا حصہ ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کو اپنی حکمرانی کو جائز بنانا تھا، مولانا فضل الرحمن دل و جان سے حاضر، 28دسمبر 2003ءمولانا فضل الرحمن و دیگر قائدین کی موجودگی میں متحدہ مجلس عمل نے آئین میں 17ویں آئینی ترمیم کا بل یعنی لیگل فریم ورک آرڈر منظور کرکے پرویز مشرف کی حکمرانی کو آئینی و قانونی جواز فراہم کردیا۔
مولانا فضل الرحمن 2008ء میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی حکومت کے اتحادی بن گے، کشمیر سے متعلق خصوصی کمیٹی کی چیئرمین شِپ حاصل کی، مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے تو وہ کچھ نہ کرسکے لیکن اس چیئرمین شپ کے زریعے اپنے معاشی معاملات بہتر کرتے رہے۔ 2010ء میں اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمین شپ کے حصول کیلئے مولانا نے متحدہ مجلس عمل کی بحالی کا ڈرامہ رچاکر کامیابی سے مولانا شیرانی کیلئے اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمین شپ حاصل کرلی۔نواز شریف کے موجودہ دور میں مولانا کو ذرا صبر سے کام لینا پڑا، اپنی وفاداری کے ثبوت بغیر کسی شرط کے دیے تو سات ماہ کے طویل انتظار کے بعد نواز شریف نے بالآخر وفاقی کابینہ میں توسیع کی اور جے یو آئی (ف) کو کابینہ میں نمائندگی دی۔
اکرم خان درانی اور سینیٹر عبدالغفور حیدری وفاقی کابینہ میں شامل ہوئے، جبکہ مولانا فضل الرحمن ایک مرتبہ پھرکشمیر کمیٹی کے چیرمین بن گے، جو ایک وفاقی وزیر کے برابر کا عہدہ ہے۔ بعد میں بہت ہی چالاکی سےمولانا عبدالغفور حیدری کو ڈپٹی چیئرمین سینٹ منتخب کروایا جبکہ آخر وقت کسی کو بھی یقین نہیں تھا کہ مولانا عبدالغفورحیدری ڈپٹی چیرمین منتخب ہوجائیں گے۔ابھی مولانا کی خواہشات باقی تھیں کہ پاناما لیکس نے پورئے ملک میں سیاسی طوفان کھڑا کردیا۔
Panama Leaks
پاناما لیکس نے بہت ساروں کو متاثر کیا ہے، ان متاثرین میں وزیر اعظم نواز شریف اور انکے گھر والے ہیں، تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین اور علیم خان بھی شامل ہیں، کل دو سو افراد ہیں جن کو پانامالیکس کی وجہ سے نقصان پہنچا ہے یا پہنچے گا، لیکن مولانا فضل الرحمان جن کا نام تو پاناما لیکس میں شامل نہیں ہے لیکن پاناما لیکس سے انہوں نے فاہدہ اٹھانے میں دیر نہیں کی۔ 6 اپریل کو مولانا فضل الرحمان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ وکی لیکس ہو یا پاناما لیکس،لیکس آتے رہتےہیں، اسے نارمل لینا چاہیے،مال جائز بھی ہو تو ملک میں ہونا چاہیے تاکہ خوش حالی آئے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے کمیشن بنادیا ہے اس کی تحقیقات کا انتظار کرنا چاہیے۔ لیکن شاید نواز شریف ان کے 6 اپریل کے بیان سے مطمئن نہیں ہوئے لہذاانہوں نے قومی اسمبلی کے باہر کھٹرئے ہوکر 8 اپریل کو ایک اوربیان میں کہا کہ پاناما لیکس ایک عالمی سازش ہے اور جے یو آئی پوری طرح وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ کھڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں تنقید کرنے والوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ وزیر اعظم نوازشریف کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔
اس بیان کے فوراً بعدمولانا فضل الرحمٰن کے بھائی مولانا ضیاء الرحمٰن کو گریڈ 18سے گریڈ 20 میں ترقی دے کر کمشنر افغان مہاجرین تعینات کر دیا گیا۔ مولانا ضیاء الرحمن اس سے پہلے بطور ڈی سی او خوشاب پنجاب حکومت کے لئے خدمات انجام دے تھے۔ کمشنر افغان مہاجرین کی آمدن گریڈ بیس کے سو افسروں کی جائز اور ناجائز آمدن سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ پاناما لیکس نے مولانا کے بھائی کی قسمت چمکا دی۔ مولانا فضل الرحمان اب بھی مزید دو خواہشات کی تکمیل چاہتے ہیں، ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ نواز شریف ان کے صابزادئے کو کوئی سرکاری عہدہ دیدیں، دوسرئے خیبر پختونخواہ میں قائم تحریک انصاف کی حکومت کو ختم کرکے وہاں جمیت علمائے اسلام (ف) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اتحادی حکومت قائم کی جائے
اس کےلیے ان کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے بڑھتے ہوئے اختلافات کو مزید بڑھانے کی کوشش کررہی ہے، جیساکہ نواز شریف کے بنوں کے جلسے میں جمیت علمائے اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر ہائوسنگ اکرم خان درانی نے کہا ہے کہ اگروزیراعظم حکم دیں توخیبرپختونخوا کی حکومت کو گرادیں گے۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد سے ہی خیبر پختونخوا میں اتحادی حکومت بنانے کےلیے مولانا فضل الرحمان نے مسلم لیگ (ن) سمیت امریکی سفیر کے دروازے تک بھی دستک دی مگر شنوائی نہیں ہوئی۔ نواز شریف جن پر پہلے ہی کرپشن کے الزامات ہیں ، پاناما لیکس کی وجہ سے جس میں ان کے بچے شامل ہیں ان سے استعفی کا مطالبہ کیا جارہا ہے اور وہ مولانا فضل الرحمان کے بھائی مولانا ضیاء الرحمٰن کو گریڈ 18سے گریڈ 20 میں ترقی دے کر مزید کرپشن کرچکے ہیں، جبکہ مولانا فضل الرحمان کے طمع اور خود غرضی کےکم ہونے کے کوئی آثارنظر نہیں آرہے ہیں۔