تحریر : اختر سردار چودھری مختصر اور منتخب افسانوں اورکہانیوں کا مجموعہ”قفس میں رقص” کا میں گزشتہ چنددن سے مطالعہ کر رہا ہوں ۔اس میں کل 26کہانیاں ہیں، اور26 ہی لکھاری ہیں ۔چند ایک کے سوا سب نئے لکھاری ہیں ۔مجموعی طور پر کتاب قابل مطالعہ ہے ۔زیادہ کہانیوں میں عشق و محبت کو ہی موضوع بنایا گیا ہے۔اور نوے فیصد کہانیوں کا انداز بیاں ”بیانیہ” ہی ہے ۔سب سے بہترین کہانی ”خاک ہوئے گلاب ” ہے ۔کتاب کے نام کی مناسبت سے کوئی کہانی نہیں لکھی گئی ۔اور یہ بہت بڑی خامی ہے ۔بلکہ مجھے تو کسی کہانی میں بھی یہ لفظ ”قفس میں رقص” نہیں ملا ۔ویسے کتاب کا نام دل کش ہے ۔اس کتاب پر بہترین تبصرہ کیا ہے مرزا شبیر بیگ ساجد (مدیر ماہنامہ سلام عرض لاہور) نے وہ لکھتے ہیں کہ ”اچھی اور معیاری کہانی کی پہچان یہ ہے کہ کہانی پڑھتے ہوئے کسی بھی مقام پر کہانی کا تسلسل یا ربط ٹوٹنے نہ پائے ۔اور قاری یہ محسوس کرے کہ جو کچھ لکھا گیا ہے وہ سو فیصد حقیقت پر مبنی ہے ۔اور قاری ایک ہی نشی،،میں کہانی ختم کرنے پر مجبور ہو جائے ۔قفس میں رقص ۔کی بیشتر کہانیاں تو مندرجہ بالا کلئے پر پورا اترتی ہیں لیکن دو تین کہانیوں کے درمیان میں تسلسل ٹوٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے ”بالکل سچا کھرا تبصرہ کیا ہے انہوں نے۔
اب آتے ہیں چند کہانیوں پر تبصرے کی طرف ۔سب سے پہلے اس کتاب کی سب سے خاص کہانی ”خاک ہوئے گلاب ”احمد سجاد بابر کی ہے ۔اس کہانی میں امریکہ اور اقوام متحدہ کا منافقانہ چہرہ دکھایا گیا ہے ۔یہ بتایا گیا ہے کہ کوئی دہشت گرد کیوں بنتا ہے سطر سطر سچ بیانی کا کرب لیے رقت انگیز ،کہانی جو جذئیات نگاری ، منفرد انداز بیاں لیے اپنے سحر میں جکڑتی چلی جاتی ہے جسے آپ مدتوں فراموش نہیں کر سکیں گے ۔میزائل حملے کے بعد خاوند (جو بعد میں خود کش حملہ آور بن جاتا ہے ) اپنی بیوی کو اپنا دکھ بتاتے ہوئے کہتا ہے ۔۔”سب کو مار دیا ۔۔کوئی نہیں بچا ۔۔ظالموں نے معصوم بچوں کے جسموں کے پر خچے اڑا دئیے ”اس فقرے کو جب میں نے پڑھا تو میری آنکھیں بھر آئیں ۔کیونکہ کو سیاق وسباق کے بغیر لکھا ہے شائد آپ پر اتنا اثر نہ کیا ہو۔دس اشعار اس مختصر کہانی میں ایسے سجائے گئے ہیں جیسے مالا میں موتی ۔ہر شعر موقع کی مناسبت سے ہے بلکہ کہانی کی ضرورت ہے ۔ایک شعر دیکھیں۔ تسلی بھی اسے دینا یہ ممکن ہے میں لوٹ آئوں مگر یہ بھی اسے کہنا غلط فہمی میں مت رہنا
ایک ایسی کہانی ہے جس پر ناول لکھا جا سکتا ہے ۔فلم بن سکتی ہے ۔ یہ اس کتاب کی سب سے خاص کہانی ہے ۔سمیع اللہ خان کی لکھی کہانی ”خدا کے دشمن ”عشق مجازی اور عشق حقیقی کو موضوع بنایا گیا ہے ۔کہانی میں ایک انگریزی کے پروفیسر جو کہ اللہ کے ولی بھی ہوتے ہیں کا ذکر ہے ۔جسے پڑھتے ہوئے ”واصف علی واصف ” کا خیال آتا ہے ۔شائد انہوں نے انہی سے متاثر ہو کر یہ کہانی لکھی ہو ۔لیکن کہانی میں کچا پن ہے ۔اچھا پلاٹ نہیں تھا ۔لیکن اسے لکھا خوب گیا ہے ۔کہانی میں مکاں و زماں کا خیال نہیں رکھا گیا ۔کچھ فقرے ناگوار بھی گزرے ہیں ۔خاص کر بہن ،ماں ،خالہ کا ہیروئن چندا کے ساتھ ہیرو کو سلانے پر اصرار پھر محبت کا اچانک بیدار ہو کر اتنا شدید ہو جانا ۔ایک بات کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی ان سب خامیوں کے باوجود کہانی کا انداز بیاں جاندار ہے ۔اور جیسا میں نے کہانی کے اختتام پر سوچا سب ہی سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ ”رب کے سوا بندہ مانگے تو کس سے مانگے ”اس لیے ”اللہ کی رضا میں راضی رہنا سیکھ گئے تو تمام عمر اداسی تمہارے چہرے کو چھو بھی نہیں پائے گی
Qufas Main Raqas
”محترمہ تسنیم کوثرکی لکھی زبردست کہانی ”چبھن ” بہت سے سوال چھوڑ گئی ۔یہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جسے روز اول سے اپنا شوہر اس لیے پسند نہیں تھا کہ وہ غریب تھا ۔غربت نے اسے کوہلو کا بیل بنا دیا تھا ۔جو اپنے بچوں کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے ۔بیوی اس سے جسمانی تعلق کو ایک فرض سمجھ کر نبھاتی رہتی ہے ۔(غریب ،دفترجاتا تھا سمجھ نہیں آئی) ۔خیرپھر ایک عزت کا لیٹر ا آتا ہے مہرو کی زندگی میںوہ اس سے ناجائز تعلق قائم کر کے آسودگی محسوس کرتی ہے ۔ عورت کے ایک انوکھے روپ کی عکاس ایک خاص کہانی ہے ۔سب سے اہم کہانی کا ٹیمپو ہے جو کافی تیز ہے۔”نائٹ کلب سے جنت تک کا سفر ”میرے بہت ہی اچھے دوست رضوان اللہ خان کی ایک زندگی بدل دینے والی کہانی ہے۔یہ کہانی ایک حقیقی کردار سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے ۔درجنوں نائٹ کلبوں کے مالک بلال کی اچانک کایا پلٹ جاتی ہے ۔وہ زندگی کے راز کو پا لیتا ہے ۔سب نائٹ کلب بیچ کر اللہ کے راہ میں جہاد پر نکل جاتا ہے ۔پہلے افغانستان میں روس کے خلاف اور پھر کشمیر میں جا کر جہاد کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر جاتا ہے ۔”ایٹوموسو”ایک ورق یعنی دو صفحات کی لاجواب کہانی لکھی ہے جناب محمد جمیل اختر نے ۔اور لکھنے کا حق ادا کر دیا ۔مختصر لکھنا مشکل ہوتا ہے ۔اور بامعنی،بامقصد لکھنا اس سے بھی مشکل۔انہوں نے ہمارے ملک کے آئے روز ہونے والے سانحات کے تناظر میں کہانی لکھی ہے، ان حادثات نے کیسے حساس دلوں کو پاگل کیا ہے، یہ مشکل موضوع چنا ہے ۔ اللہ کرے وہ مزید ایسی بامقصد سچ بیانیاں لکھتے رہیں۔
صائمہ نور نے ”انتقام ”کے ساتھ ایک بہترین کہانی لکھی ۔کہانی میں ایک مرد جس کا نام نہیں بتایا گیا، اس کی سہیلی گل رخ کو پیار کے جال میں پھانس لیتا ہے اور عزت لوٹ لیتا ہے ۔شادی کے اصرار پر دھتکار دیتا ہے ۔جس سے صائمہ کی سہیلی خودکشی کر لیتی ہے ۔صائمہ میدان میں آتی ہے اور اس مرد کو زہر دے کر مار دیتی ہے ۔انداز بیاں متاثر کن ہے ۔لیکن اس میں صرف مرد کوہی ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے ۔عورت کو بھی اپنی عزت جیسی متاع چند پیار بھرے بولوں پر قربان نہیں کرنی چاہئے ۔ایسا قدم اٹھانے والی عورت کا انجام رسوائی ہی ہوتا ہے ۔صرف مرد ہی ذمہ دار نہیں ہوتا عورت بھی اپنی بربادی کی اتنی ہی ذمہ دار ہوتی ہے۔دوست محمد مری کی آب بیتی ”عشق ہے دیوانہ”ایک تلخ کہانی تھی ۔بے شک اس کے چند واقعات ہضم کرنے مشکل ہیں ۔لیکن کم ہی ایسا ہوتا ہے ۔ہوتا ضرور ہے کہا جا سکتا ہے ۔سعدیہ اصل مجرم تھی، اس کی بجائے آج بھی مصنف نے اسے برا نہیں کہا ۔بلکہ اس کے بھائیوں کو کہتا رہا ۔واقع عشق دیوانہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر خادم حسین کھیڑا کی منفرد کہانی ”قدرت کے بھید”نے ابتدا میں بے پناہ تجسس پیدا کیا ۔اٹھان بڑی زبردست تھی ۔انجام بھی اچھا تھا ۔ لیکن کالے سانپ کا مسئلہ حل نہ ہوا ۔جاندار پلاٹ پر عام سا انداز بیاں تھا ۔یہ بھی کہا جا سکتا ہے جناب خادم حسین نے اتنی محنت نہیں کی جتنی اس کہانی کا تقاضہ تھا ۔یا انہوں نے کہانی جلدی میں لکھ دی ہے ۔”آئیڈیل ”افسانہ نما کہانی ہے ریاض ندیم نیازی کی یہ کہانی ہے ایک شاعر کی جو خیالوں میں کھویا رہتاہے ۔اسے اپنے آئیڈیل کی تلاش ہوتی ہے ۔لیکن آئیڈیل کا وجود کہاں ہوتا ہے ۔کسے کہتے ہیں ”آئیڈیل شاعروں کے دماغ کا فتور ،ادیبوں کا سپناہے ۔وقت بدلا ،قدریں بدلیں اور ساتھ ہی آئیڈیل کا تصور بھی ۔اب آئیڈیل عمرانی علوم میں ایک الجھا ہوا خشک اور تھکا دینے والا مضمون ہے ””ذہنی پسماندگی ” ہمارے معاشرے کے ناسور جہیز ،مہنگائی ،خود غرضی جیسے عفریت پر لکھی گئی ہمارے اپنے معاشرے کی تلخ بیانی ہے۔جسے لکھا ہے زوارا حکیم محمد ابصار حیدر نے ۔ایسے کردار ہمارے ارد گرد سسک رہے ہیں ۔لیکن ہم خود غرضی کا لبادہ اوڑھے جی رہے ہیں ۔ساجدہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والی خوبصورت دوشیزہ کو رشتے سے جواب ہونے پر اس کا باپ اس غم کو برداشت نہ کر سکا ۔جان کی بازی ہار گیا۔
Abdul Majeed Jai
سید مبارک علی شمسی نے ”سپنوں کا خون ” کے عنوان سے نوسربازوں کی کہانی لکھی ہے ۔جو ایک سادہ دل نوجوان فخر کو رشتے کا جھانسہ دے کر لوٹ لیتے ہیں ۔”میرے درد کو جو زباں ملے ”سید ناصر احمد شاہ کی منفرد کہانی ہے ۔جو ہمارے ہاں آئے روز فرقہ بندی کی وجہ سے ایک دوسرے کو قتل کر رہے یا شہید۔ اس میں ایک چھ ماہ کی کائنات کو شہید کر دیا جاتا ہے ۔ ”ناگن یا دھنوان ” شاہد سلیم شاہد کی ماورائی کہانی ہے ۔رادھا کا کردار سوالیہ نشان چھوڑ جاتا ہے ۔اس کتاب کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہانی تھی جو تجسس برقرار رکھتے ہوئے ۔قاری کو ساتھ ساتھ بہا کر لے جاتی ہے ۔جس میں منظر کشی کمال کی ہے ۔محترم جناب عبد العزیز جی آ، صاحب نے”عشق نہ پوچھے ذات ”جیسی شاہکار کہانی لکھ کر ”قفس میں رقص” کی لاج رکھ لی ۔یہ ایک خوبصورت کہانی ہے جس میں ڈائیلاگ خوب سے خوب تر ہیں ۔رانی اور مراد کی کہانی جس نے ہیر رانجھا اور سسی پنوں کی یاد تازہ کر دی ۔”مکافات عمل ”ملک عاشق حسین ساجد نے ایک ضمیر کو جھنجھوڑ دینے والی کہانی لکھی ہے ۔دلاورہوس میں اندھا ہو کر ایک مجبوری لڑکی کو بلیک میلنگ کر کے اس کی عزت سے کھیلتا رہا۔
مجبورشاہدہ اس کے کہنے پر اپنے بچے اور گھر والوں کو نشہ کی گولیاں کھلا کر اس سے ملنے آتی ہے، اس رات اس کا نیند کی گولیاں کی وجہ سے ابدی نیند سو جاتا ہے ۔مکافات عمل کے نتیجے میں ایک اور قتل جو دلاور نے نہیں کیا ہوتا کی وجہ سے اسے سزائے موت ہو جاتی ہے۔”منزل کی تلاش ”اللہ دتہ مخلص کا جب میں نے تعارف پڑھا جو کہ مجید امجد جائی نے لکھا تو خوشی خوشی کہانی پڑھنی شروع کی کہ ایک کہنہ مشق لکھاری کی کہانی پڑھنے کو ملے گی ۔لیکن یہ کیا ۔تین صفحات صرف لفظ ”محبت ”خرچ کر دیئے جیسے کالم لکھ رہے ہوں ۔اس کے بعد ذیشان کی کہانی ہم کلامی کے انداز میں شروع ہوتی ہے پھر اچانک تھرڈ پرسن میں پلٹا کھاتی ہے ‘ اور آخر میں ذیشان محبت میں مسلسل ناکامیوں کے صدمے سے جان کی بازی ہار جاتا ہے۔
پوری کہانی میں تشبیہات اور استعاروں کا خوف استعمال ہے ۔کہانی کے انجام نے تھوڑا چونکایالیکن مجموعی طور پر کہانی بھر پور تاثر نہ چھوڑ سکی ۔حالانکہ اس میں مہنگائی ،رشوت جیسا حساس موضوع تھا ۔جیسے موزوں لکھا نہیں جا سکا ۔کہانی کا اختتام جلدی میں کر دیا گیا۔”میرے فوجی جواں ”مقصود احمد بلوچ۔”سلگتے ارمان ”منشی عمر عزیز مئے ۔”مبتلائے کرب”ممتاز احمد۔”حسب آرزو”شہزادہ سلطان کیف ۔یہ سب کہانیاں اپنی مثال آپ ہیں ۔ان پر تبصرہ صرف تحریر کی طوالت کی وجہ سے نہ کیا جا سکا ۔”عورت اک پہیلی” مجید احمد جائی کی کہانی کی ابتدا خوب ہوئی ،انداز بیاں بھی غضب کی روانی لیے ہوئے ہے۔ قفس میں رقص کے آخری صفحات پر ”ذات کا دکھ ”مسکان گل کی کہانی بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ” ندیم احمد ندیم کی کہانی ”ریشم’ ‘ بھی کمال کی کہانی ہے۔
قفس میں رقص
Posted on May 4, 2016 By Mohammad Waseem کالم
Shortlink:
Qufas Main Raqas
تحریر : اختر سردار چودھری
مختصر اور منتخب افسانوں اورکہانیوں کا مجموعہ”قفس میں رقص” کا میں گزشتہ چنددن سے مطالعہ کر رہا ہوں ۔اس میں کل 26کہانیاں ہیں، اور26 ہی لکھاری ہیں ۔چند ایک کے سوا سب نئے لکھاری ہیں ۔مجموعی طور پر کتاب قابل مطالعہ ہے ۔زیادہ کہانیوں میں عشق و محبت کو ہی موضوع بنایا گیا ہے۔اور نوے فیصد کہانیوں کا انداز بیاں ”بیانیہ” ہی ہے ۔سب سے بہترین کہانی ”خاک ہوئے گلاب ” ہے ۔کتاب کے نام کی مناسبت سے کوئی کہانی نہیں لکھی گئی ۔اور یہ بہت بڑی خامی ہے ۔بلکہ مجھے تو کسی کہانی میں بھی یہ لفظ ”قفس میں رقص” نہیں ملا ۔ویسے کتاب کا نام دل کش ہے ۔اس کتاب پر بہترین تبصرہ کیا ہے مرزا شبیر بیگ ساجد (مدیر ماہنامہ سلام عرض لاہور) نے وہ لکھتے ہیں کہ ”اچھی اور معیاری کہانی کی پہچان یہ ہے کہ کہانی پڑھتے ہوئے کسی بھی مقام پر کہانی کا تسلسل یا ربط ٹوٹنے نہ پائے ۔اور قاری یہ محسوس کرے کہ جو کچھ لکھا گیا ہے وہ سو فیصد حقیقت پر مبنی ہے ۔اور قاری ایک ہی نشی،،میں کہانی ختم کرنے پر مجبور ہو جائے ۔قفس میں رقص ۔کی بیشتر کہانیاں تو مندرجہ بالا کلئے پر پورا اترتی ہیں لیکن دو تین کہانیوں کے درمیان میں تسلسل ٹوٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے ”بالکل سچا کھرا تبصرہ کیا ہے انہوں نے۔
اب آتے ہیں چند کہانیوں پر تبصرے کی طرف ۔سب سے پہلے اس کتاب کی سب سے خاص کہانی ”خاک ہوئے گلاب ”احمد سجاد بابر کی ہے ۔اس کہانی میں امریکہ اور اقوام متحدہ کا منافقانہ چہرہ دکھایا گیا ہے ۔یہ بتایا گیا ہے کہ کوئی دہشت گرد کیوں بنتا ہے سطر سطر سچ بیانی کا کرب لیے رقت انگیز ،کہانی جو جذئیات نگاری ، منفرد انداز بیاں لیے اپنے سحر میں جکڑتی چلی جاتی ہے جسے آپ مدتوں فراموش نہیں کر سکیں گے ۔میزائل حملے کے بعد خاوند (جو بعد میں خود کش حملہ آور بن جاتا ہے ) اپنی بیوی کو اپنا دکھ بتاتے ہوئے کہتا ہے ۔۔”سب کو مار دیا ۔۔کوئی نہیں بچا ۔۔ظالموں نے معصوم بچوں کے جسموں کے پر خچے اڑا دئیے ”اس فقرے کو جب میں نے پڑھا تو میری آنکھیں بھر آئیں ۔کیونکہ کو سیاق وسباق کے بغیر لکھا ہے شائد آپ پر اتنا اثر نہ کیا ہو۔دس اشعار اس مختصر کہانی میں ایسے سجائے گئے ہیں جیسے مالا میں موتی ۔ہر شعر موقع کی مناسبت سے ہے بلکہ کہانی کی ضرورت ہے ۔ایک شعر دیکھیں۔
تسلی بھی اسے دینا یہ ممکن ہے میں لوٹ آئوں
مگر یہ بھی اسے کہنا غلط فہمی میں مت رہنا
ایک ایسی کہانی ہے جس پر ناول لکھا جا سکتا ہے ۔فلم بن سکتی ہے ۔ یہ اس کتاب کی سب سے خاص کہانی ہے ۔سمیع اللہ خان کی لکھی کہانی ”خدا کے دشمن ”عشق مجازی اور عشق حقیقی کو موضوع بنایا گیا ہے ۔کہانی میں ایک انگریزی کے پروفیسر جو کہ اللہ کے ولی بھی ہوتے ہیں کا ذکر ہے ۔جسے پڑھتے ہوئے ”واصف علی واصف ” کا خیال آتا ہے ۔شائد انہوں نے انہی سے متاثر ہو کر یہ کہانی لکھی ہو ۔لیکن کہانی میں کچا پن ہے ۔اچھا پلاٹ نہیں تھا ۔لیکن اسے لکھا خوب گیا ہے ۔کہانی میں مکاں و زماں کا خیال نہیں رکھا گیا ۔کچھ فقرے ناگوار بھی گزرے ہیں ۔خاص کر بہن ،ماں ،خالہ کا ہیروئن چندا کے ساتھ ہیرو کو سلانے پر اصرار پھر محبت کا اچانک بیدار ہو کر اتنا شدید ہو جانا ۔ایک بات کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی ان سب خامیوں کے باوجود کہانی کا انداز بیاں جاندار ہے ۔اور جیسا میں نے کہانی کے اختتام پر سوچا سب ہی سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ ”رب کے سوا بندہ مانگے تو کس سے مانگے ”اس لیے ”اللہ کی رضا میں راضی رہنا سیکھ گئے تو تمام عمر اداسی تمہارے چہرے کو چھو بھی نہیں پائے گی
Qufas Main Raqas
”محترمہ تسنیم کوثرکی لکھی زبردست کہانی ”چبھن ” بہت سے سوال چھوڑ گئی ۔یہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جسے روز اول سے اپنا شوہر اس لیے پسند نہیں تھا کہ وہ غریب تھا ۔غربت نے اسے کوہلو کا بیل بنا دیا تھا ۔جو اپنے بچوں کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے ۔بیوی اس سے جسمانی تعلق کو ایک فرض سمجھ کر نبھاتی رہتی ہے ۔(غریب ،دفترجاتا تھا سمجھ نہیں آئی) ۔خیرپھر ایک عزت کا لیٹر ا آتا ہے مہرو کی زندگی میںوہ اس سے ناجائز تعلق قائم کر کے آسودگی محسوس کرتی ہے ۔ عورت کے ایک انوکھے روپ کی عکاس ایک خاص کہانی ہے ۔سب سے اہم کہانی کا ٹیمپو ہے جو کافی تیز ہے۔”نائٹ کلب سے جنت تک کا سفر ”میرے بہت ہی اچھے دوست رضوان اللہ خان کی ایک زندگی بدل دینے والی کہانی ہے۔یہ کہانی ایک حقیقی کردار سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے ۔درجنوں نائٹ کلبوں کے مالک بلال کی اچانک کایا پلٹ جاتی ہے ۔وہ زندگی کے راز کو پا لیتا ہے ۔سب نائٹ کلب بیچ کر اللہ کے راہ میں جہاد پر نکل جاتا ہے ۔پہلے افغانستان میں روس کے خلاف اور پھر کشمیر میں جا کر جہاد کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر جاتا ہے ۔”ایٹوموسو”ایک ورق یعنی دو صفحات کی لاجواب کہانی لکھی ہے جناب محمد جمیل اختر نے ۔اور لکھنے کا حق ادا کر دیا ۔مختصر لکھنا مشکل ہوتا ہے ۔اور بامعنی،بامقصد لکھنا اس سے بھی مشکل۔انہوں نے ہمارے ملک کے آئے روز ہونے والے سانحات کے تناظر میں کہانی لکھی ہے، ان حادثات نے کیسے حساس دلوں کو پاگل کیا ہے، یہ مشکل موضوع چنا ہے ۔ اللہ کرے وہ مزید ایسی بامقصد سچ بیانیاں لکھتے رہیں۔
صائمہ نور نے ”انتقام ”کے ساتھ ایک بہترین کہانی لکھی ۔کہانی میں ایک مرد جس کا نام نہیں بتایا گیا، اس کی سہیلی گل رخ کو پیار کے جال میں پھانس لیتا ہے اور عزت لوٹ لیتا ہے ۔شادی کے اصرار پر دھتکار دیتا ہے ۔جس سے صائمہ کی سہیلی خودکشی کر لیتی ہے ۔صائمہ میدان میں آتی ہے اور اس مرد کو زہر دے کر مار دیتی ہے ۔انداز بیاں متاثر کن ہے ۔لیکن اس میں صرف مرد کوہی ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے ۔عورت کو بھی اپنی عزت جیسی متاع چند پیار بھرے بولوں پر قربان نہیں کرنی چاہئے ۔ایسا قدم اٹھانے والی عورت کا انجام رسوائی ہی ہوتا ہے ۔صرف مرد ہی ذمہ دار نہیں ہوتا عورت بھی اپنی بربادی کی اتنی ہی ذمہ دار ہوتی ہے۔دوست محمد مری کی آب بیتی ”عشق ہے دیوانہ”ایک تلخ کہانی تھی ۔بے شک اس کے چند واقعات ہضم کرنے مشکل ہیں ۔لیکن کم ہی ایسا ہوتا ہے ۔ہوتا ضرور ہے کہا جا سکتا ہے ۔سعدیہ اصل مجرم تھی، اس کی بجائے آج بھی مصنف نے اسے برا نہیں کہا ۔بلکہ اس کے بھائیوں کو کہتا رہا ۔واقع عشق دیوانہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر خادم حسین کھیڑا کی منفرد کہانی ”قدرت کے بھید”نے ابتدا میں بے پناہ تجسس پیدا کیا ۔اٹھان بڑی زبردست تھی ۔انجام بھی اچھا تھا ۔ لیکن کالے سانپ کا مسئلہ حل نہ ہوا ۔جاندار پلاٹ پر عام سا انداز بیاں تھا ۔یہ بھی کہا جا سکتا ہے جناب خادم حسین نے اتنی محنت نہیں کی جتنی اس کہانی کا تقاضہ تھا ۔یا انہوں نے کہانی جلدی میں لکھ دی ہے ۔”آئیڈیل ”افسانہ نما کہانی ہے ریاض ندیم نیازی کی یہ کہانی ہے ایک شاعر کی جو خیالوں میں کھویا رہتاہے ۔اسے اپنے آئیڈیل کی تلاش ہوتی ہے ۔لیکن آئیڈیل کا وجود کہاں ہوتا ہے ۔کسے کہتے ہیں ”آئیڈیل شاعروں کے دماغ کا فتور ،ادیبوں کا سپناہے ۔وقت بدلا ،قدریں بدلیں اور ساتھ ہی آئیڈیل کا تصور بھی ۔اب آئیڈیل عمرانی علوم میں ایک الجھا ہوا خشک اور تھکا دینے والا مضمون ہے ””ذہنی پسماندگی ” ہمارے معاشرے کے ناسور جہیز ،مہنگائی ،خود غرضی جیسے عفریت پر لکھی گئی ہمارے اپنے معاشرے کی تلخ بیانی ہے۔جسے لکھا ہے زوارا حکیم محمد ابصار حیدر نے ۔ایسے کردار ہمارے ارد گرد سسک رہے ہیں ۔لیکن ہم خود غرضی کا لبادہ اوڑھے جی رہے ہیں ۔ساجدہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والی خوبصورت دوشیزہ کو رشتے سے جواب ہونے پر اس کا باپ اس غم کو برداشت نہ کر سکا ۔جان کی بازی ہار گیا۔
Abdul Majeed Jai
سید مبارک علی شمسی نے ”سپنوں کا خون ” کے عنوان سے نوسربازوں کی کہانی لکھی ہے ۔جو ایک سادہ دل نوجوان فخر کو رشتے کا جھانسہ دے کر لوٹ لیتے ہیں ۔”میرے درد کو جو زباں ملے ”سید ناصر احمد شاہ کی منفرد کہانی ہے ۔جو ہمارے ہاں آئے روز فرقہ بندی کی وجہ سے ایک دوسرے کو قتل کر رہے یا شہید۔ اس میں ایک چھ ماہ کی کائنات کو شہید کر دیا جاتا ہے ۔ ”ناگن یا دھنوان ” شاہد سلیم شاہد کی ماورائی کہانی ہے ۔رادھا کا کردار سوالیہ نشان چھوڑ جاتا ہے ۔اس کتاب کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہانی تھی جو تجسس برقرار رکھتے ہوئے ۔قاری کو ساتھ ساتھ بہا کر لے جاتی ہے ۔جس میں منظر کشی کمال کی ہے ۔محترم جناب عبد العزیز جی آ، صاحب نے”عشق نہ پوچھے ذات ”جیسی شاہکار کہانی لکھ کر ”قفس میں رقص” کی لاج رکھ لی ۔یہ ایک خوبصورت کہانی ہے جس میں ڈائیلاگ خوب سے خوب تر ہیں ۔رانی اور مراد کی کہانی جس نے ہیر رانجھا اور سسی پنوں کی یاد تازہ کر دی ۔”مکافات عمل ”ملک عاشق حسین ساجد نے ایک ضمیر کو جھنجھوڑ دینے والی کہانی لکھی ہے ۔دلاورہوس میں اندھا ہو کر ایک مجبوری لڑکی کو بلیک میلنگ کر کے اس کی عزت سے کھیلتا رہا۔
مجبورشاہدہ اس کے کہنے پر اپنے بچے اور گھر والوں کو نشہ کی گولیاں کھلا کر اس سے ملنے آتی ہے، اس رات اس کا نیند کی گولیاں کی وجہ سے ابدی نیند سو جاتا ہے ۔مکافات عمل کے نتیجے میں ایک اور قتل جو دلاور نے نہیں کیا ہوتا کی وجہ سے اسے سزائے موت ہو جاتی ہے۔”منزل کی تلاش ”اللہ دتہ مخلص کا جب میں نے تعارف پڑھا جو کہ مجید امجد جائی نے لکھا تو خوشی خوشی کہانی پڑھنی شروع کی کہ ایک کہنہ مشق لکھاری کی کہانی پڑھنے کو ملے گی ۔لیکن یہ کیا ۔تین صفحات صرف لفظ ”محبت ”خرچ کر دیئے جیسے کالم لکھ رہے ہوں ۔اس کے بعد ذیشان کی کہانی ہم کلامی کے انداز میں شروع ہوتی ہے پھر اچانک تھرڈ پرسن میں پلٹا کھاتی ہے ‘ اور آخر میں ذیشان محبت میں مسلسل ناکامیوں کے صدمے سے جان کی بازی ہار جاتا ہے۔
پوری کہانی میں تشبیہات اور استعاروں کا خوف استعمال ہے ۔کہانی کے انجام نے تھوڑا چونکایالیکن مجموعی طور پر کہانی بھر پور تاثر نہ چھوڑ سکی ۔حالانکہ اس میں مہنگائی ،رشوت جیسا حساس موضوع تھا ۔جیسے موزوں لکھا نہیں جا سکا ۔کہانی کا اختتام جلدی میں کر دیا گیا۔”میرے فوجی جواں ”مقصود احمد بلوچ۔”سلگتے ارمان ”منشی عمر عزیز مئے ۔”مبتلائے کرب”ممتاز احمد۔”حسب آرزو”شہزادہ سلطان کیف ۔یہ سب کہانیاں اپنی مثال آپ ہیں ۔ان پر تبصرہ صرف تحریر کی طوالت کی وجہ سے نہ کیا جا سکا ۔”عورت اک پہیلی” مجید احمد جائی کی کہانی کی ابتدا خوب ہوئی ،انداز بیاں بھی غضب کی روانی لیے ہوئے ہے۔ قفس میں رقص کے آخری صفحات پر ”ذات کا دکھ ”مسکان گل کی کہانی بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ” ندیم احمد ندیم کی کہانی ”ریشم’ ‘ بھی کمال کی کہانی ہے۔
Akhtar Sardar Chaudhry
تحریر : اختر سردار چودھری
by Mohammad Waseem
Mohammad Waseem - Editor at GeoURDU.com Pakistan