تحریر: اختر بخاری جنوری 2016 میں لکھے گئے اپنے کالم میں مسجد نبوی کی لائبریری میں نامعلوم فرشتوں کی گفتگو کے پس پردہ منصوبوں کی طرف اشارہ کیا تھا . بادشاہوں کے بادشاہ کے قدموں میں بیٹھ کر جس کے قدموں کی خاک کے ذروں کے صدقے بہت سی بادشاہتیں قائم ہیں ایسی مبہم گفتگو سننے کو ملی جس کا براہ راست تعلق پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ کی ذات سے تھا ستمبر 2015 کے حج کے ایام میں بھی فرشتوں یا فرستادوں کی کاوشیں پاکستان کی تاریخ میں بے پناہ عزت کمانے و الے جنرل راحیل شریف کو اس بات پر مجبور کرنے کے لئے تھیں کہ وہ تسلیم کر لیں کہ اگر خدائے بزرگ و برتر کے محبوب نبی کے نامزد سپہ سالار کو تبدیل کیا جا سکتا ہے تو دور حاضر کے خلیفہ وقت کے نامزد سپہ سالار کو تبدیل کرنے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہو سکتی۔
حیرت ہے آج کی اپوزیشن خلیفہ وقت کو کند ذہن کم فہم اور نہ جانے کیسے کیسے القابات سے نوازتی ہے حالانکہ جمہوریت کی بقا اور تسلسل کے علمبرداروں کو خلیفہ وقت کی دوراندیشی اور معاملات پر مضبوط گرفت کی دااد دینی چاہئیے جو جمہوریت کی بقا کو یقینی بنانے کے لئے سال بھر پہلے ہی سے سوچ و بچار میں مصر وف ہوگئے تھے۔ خلیفہ وقت کے فرشتے یا فرستادے بادشاہوں کے بادشاہ محبوب خدائے بزرگ کے قدموں میں بیٹھ کر اپنے ملک کی جمہوریت کو بچانے کے لئے کس قدر محنت کر رہے تھے یہ بات پاکستانی قوم کے لئے بھی قابل فخر ہے کہ موجودہ حکمران اپنے اہم ترین فیصلوں میں رہنمائی کے لئے آج بھی اس در کی طرف دیکھتے ہیں جہاں سے خلافتیں، بادشاہتیں عطا ہوتی ہیں. گفتگو کا محور پاکستان آرمی کے سپہ سالار کی بے پناہ مقبولیت کی وجہ سے جمہوریت کو درپیش خطرات تھے جس کے تدارک کے لئے نومبر 2016 کا انتظار کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا۔
Raheel Sharif Poster
فرشتے یا فرستادے ایک دوسرے کو مختلف آپشنز کی راہ دکھا رہے تھے جس سے اس بات کو تو یقین کی حد تک تقویت ملی کہ مسجد نبوی کی لائبریری میں سرگوشیاں کرنے والے فرستادے کوئی عام پاکستانی نہیں تھے اور نہ ہی وہ سعادت حج مشن کا حصہ تھے ہاں ان کی وہاں موجودگی بہت سارے سیٹلائٹس کی نگاہوں سے اوجھل ضرور تھی جس کے ثبوت وطن واپسی پر دیکھنے کو ملے اور یقین سا ہو گیا کہ خلیفہ وقت حضرت خالد بن ولید اور حضرت ابو عبیدہ کی تعیناتی و تقرری کے اس آفاقی فیصلے کی پیروی کرنے کا مصمم ارداہ کئے بیٹھے ہیں جو اسلام کے خلیفہ دوم حضرت عمر ابن خطاب نے کیا تھا . ایک طرف پاک فوج کے سپہ سالار کی مدت ملازت کے بارے میں ہر روز کسی نہ کسی ٹی وی چینل پر دھواں دھار گفتگو ہو رہی تھی تو دوسری طرف شہر شہر گلی گلی ٹرکوں، بسوں ، رکشوں حتی کہ دیواروں پر قدم بڑھائو راحیل شریف قوم تمہارے ساتھ ہے کے نعرے سامنے آ رہے تھے جبکہ قوم کو حیران کر دینے کے لئے تیسری طرف ہر دوسرے تیسرے دن خلیفہ وقت اور سپہ سالار کو ایک ساتھ دکھائے جانے کے خصوصی انتظامات بھی حیران کن تھے. ایک طبقہ بضد تھا کہ سپہ سالا ر کسی بھی وقت کسی بھی دن میرے عزیز ہموطنوں کا نعرہ مستانہ بلند کرنے والے ہیں وہیں ایک طبقہ فکر ماضی میں میرے عزیز ہموطنوں کا نعرہ لگانے والوں پر کھل کر تنقید بھی کر رہاتھا۔
جب کہ دیواروں، ٹرکوں، بسوں اور رکشوں پر خوش آمدید کے نعرے لکھوانے والا غریب غربا کا طبقہ خلیفہ وقت کے حضور درخواست گذار تھا کہ سپہ سالار کو سادہ لوح پاکستانیوں کے دلوں کی فتوحات سے نہ روکا جائے اور انہیں ملک و قوم کی خدمت کا لامحدود وقت دیا جائے لیکن شائد اقتدار کے اپنے اصول اور ضابطے ہوتے ہیں جہاں نہ غریب غربا کی آواز اثر انداز ہوتی ہے نہ صلاحیت و قابلیت جانچنے کا کوئی مخصوص پیمانہ ہے او ر جہاں وفاداری کرنے والوں کو نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے. حالات و واقعات نے میرے خدشات کی تصدیق یوں کی کہ ایک دن ملک بھر کے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی یا پھیلائی گئی کہ سپہ سالار نے ووٹوک الفاظ میں واضح کیا ہے کہ وہ مقررہ وقت پر ریٹائر ہو جائیں گے اس لئے مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں بیانات و تبصرے لایعنی ہیں. سپہ سالار کے دست راست کے ایک ٹویٹ نے جیسے خلیفہ وقت کے جنگجو ئوں کے خیموں میں بھڑکتی آگ پر بر ف رکھ دی ، میرے عزیز ہموطنوں کا نعرہ مستانہ سننے کے منتظر جمہوریت پسندوں نے بھی پینترے بدل لئے ، میرے عزیز ہموطنوں کے نعرے سے خائف طبقہ بھی کن اکھیوں میں ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگا۔
Zia Ul Haq
سپہ سالار نے دل اور دماغ فتح کرنے کا سلسلہ جاری رکھا کہیں سرخ قالین، کہیں گارڈ آف آنر کہیں بڑے بڑے اعزازات سب کچھ ویسے ہی چل رہا تھا جب کہ درون خانہ مدینہ میں فرشتوں یا فرستادوں کی سرگوشیاں حقیقت کی طرف بڑھ رہی تھیں تلاش جاری ہوئی کہ ابو عبیدہ کا مرتبہ کس کے حصے میں آئے گا؟ نیا سپہ سالار ضیا الحق جیسا ہوگا؟ ضیا الدین جیسا ہوگا یا جاوید ضیا جیسا اس کی ذمہ داری خلیفہ وقت کے جانشین کو سونپی گئی لیکن اس بار حیرت انگیز طور پر خلیفہ وقت کے جانشین کی معاونت راولپنڈی کی بجائے لاہو ر کو دی گئی . ابو عبیدہ کی تلاش بھی جاری تھی سپہ سالار کی فتوحات کا سلسلہ بھی جاری تھا کہ اچانک سپہ سالار نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کرپشن کے خاتمے کا نیامضمون بھی شامل کر دیا جو اقتدار کی سانپ سیڑھی کے کھیل میں ایک بھونچال کا باعث بن گیا. جمہوریت بچائو کلب میں موجود سیاسی حریف اور حلیف چوکنے ہوگئے قریب تھا کہ اسلام آباد کے سرد نومبر کو کسی طرح کھینچ تان کر جون جولائی کی گرم دوپہروں میں لاکھڑا کیا جائے۔
مگر برا ہو پاناما والوں کا نامعلوم فرشتوں اور معلوم فرستادوں کو اپنے پینترے انتہائی تیزی اور چابکدستی کے ساتھ بدلنے پر مجبور ہونا پڑا جس کی تصدیق ملک کے ایک بڑے اخبار میں چھپنے والی اس خبر سے ہوتی دکھائی دے رہی ہے” وزیر اعظم کا نئے آرمی چیف کے لئے غور عدلیہ کی سابق شخصیت کے رشتے دار کا نام فائنل”۔ نیا آرمی چیف کون ہوگا ؟ کیسا ہوگا؟ کس جیسا ہوگا؟ آنے والا ہر ہر لمحہ اٹھارہ کروڑ سے کچھ اوپر کی تعداد میں پاکستانی قوم کے مستقبل کے لئے سوالیہ نشان بن کر سامنے آئے گا. پاناما لیکس کے بعد تادم تحریر خلیفہ وقت اور سپہ سالار کی ایک ساتھ کسی تصویر کا سرکار ٹی وی پر دکھائی نہ دینا بھی ایک جواب ہے. دھرنے کا د ھڑن تختہ کرنے میں پیش پیش جمہوریت بچائو کلب کے کچھ اراکین کی خلیفہ وقت کے ساتھ فردا فردا ملاقاتیں اور راولپنڈی کی بجائے لاہور کو قائمقام حکمرانی سونپے جانے کے واقعات بھی ان سرگوشیوں کی تصدیق ہیں جو انجانے میں سماعتوں سے ٹکرائیں اور تاحال سماعت کی دیواروں سے ایسے ٹکرا رہی ہیں جس طرح ملک میں شہد اور دودھ کی نہریں بہنے کے حکومتی اعلانات جو ناقابل یقین ہوتے ہوئے بھی یقین کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔