تحریر: سید انور محمود متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے 23 اپریل 2016ء کو اپنے 167 لاپتہ کارکنوں کی بازیابی کےلیے کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجی دھرنا شروع کیا، اگلے روز اتوار 24 اپریل کو ایم کیو ایم نےاپنے لاپتہ کارکنوں کی بازیابی کے لیے وزیراعلیٰ ہاؤس کے باہر دھرنا دیا، جہاں ایم کیو ایم کے چھ رکنی وفد نے صوبائی وزیر تعلیم نثار کھوڑو سے ملاقات کی جس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے نثار کھوڑو کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے مطالبات سے وزیراعلیٰ سندھ کو آگاہ کریں گے، جبکہ ایم کیو ایم کے رہنما محمد حسین نے نثار کھوڑو کی یقین دہانی پردھرنا ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارئے لاپتہ کارکنوں کے بارے میں سندھ حکومت اور وزیراعلیٰ کو آگاہ کیا جائے۔
انہوں نے یہ بھی کہاتھا کہ کارکنوں سے متعلق یادداشت حکومت سندھ کو پیش کی ہے۔ابھی ایم کیو ایم کے احتجاج اور دھرنے کو ختم ہوئے صرف آٹھ دن ہوئے تھے کہ یکم مئی کو متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستارکے کوآرڈی نیٹر آفتاب احمد کو رینجرز نے گرفتارکرلیا اور انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 90روزہ ریمانڈ پر ان کو رینجرز کی تحویل میں دے دیا۔ 3 مئی کی صبح آفتاب احمد کو تشویشناک حالت میں جناح اسپتال لایا گیا، جہاں وہ ہنگامی امداد ملنے کے باوجود دم توڑ گئے۔
آفتاب احمد کی اچانک موت پر ترجمان رینجرز کا کہنا ہے آفتاب احمد کو سینے میں تکلیف کی شکایت پر اسپتال منتقل کیا گیا جہاں حرکت قلب بند ہونے سے وہ انتقال کر گئے۔ایم کیو ایم کےرہنما ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا ہے یقین دلایا جائے کہ آفتاب احمد کی موت طبعی طور پر ہوئی ہے، جبکہ آفتاب احمد کی والدہ کا کہنا ہے ان کا بیٹا صحت مند تھا انصاف چاہتے ہیں۔ ابتدائی میڈیکو لیگل رپورٹ کے مطابق آفتاب احمد کو جب جناح اسپتال لایا گیا تو دل کی دھڑکن اور نبض کام نہیں کررہی تھی۔ مصنوعی تنفس کے ذریعے سانس بحال کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔سینئر ایم ایل او ڈاکٹر کلیم کہتے ہیں موت کی وجہ کوعدالتی احکامات پر پوشیدہ رکھا گیا۔ جبکہ رینجرز کے لاء افسر نے آفتاب احمد کی موت سے متعلق ابتدائی رپورٹ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے منتظم جج کے روبرو پیش کردی جس میں کہا گیا ہے کہ 3 مئی کی صبح سات بجے آفتاب احمد کی طبیعت اچانک خراب ہوئی جنہیں سینے میں تکلیف کی شکایت پر جناح اسپتال منتقل کیا گیا جہاں دوران علاج وہ دم توڑ گئے۔
Aftab Ahmed
چار مئی کوایم کیوایم نے آفتاب احمد کی رینجرز کی حراست میں ماورائے عدالت ہلاکت کیخلاف کراچی، حیدرآباد، سکھر، نوابشاہ، میرپور خاص، ٹنڈو الہ یار سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظا ہرے ہوئے اور یوم سوگ منایا گیا۔ احتجاجی مظا ہروں سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنمائوں نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف، صدر پاکستان، وزیر اعظم اور چیف جسٹس سے آفتاب احمد کے قاتلوں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ مقر ر ین نے کارکنوں کی ماورائے عدالت قتل بند اور اسیر و لاپتا کارکنوں کی بازیابی کا مطالبہ بھی کیا۔ رینجرز کی طرف سے تو یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اشفاق احمد کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ہے لیکن سوشل میڈیا پر دیکھی جانے والی تصاویر سے یہ صاف ظاہر ہورہا ہے کہ اشفاق احمد کی موت ان پر ہونے والے بدترین تشدد سے ہوئی ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے اس واقعہ کی مکمل تحقیقات کرنے کا حکم دیا ہے۔ انہوں نے واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ حقائق جاننے کیلئے آفتاب احمد کی موت کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئے اور ہرحال میں انصاف ہونا چاہئے۔ ڈائریکٹر جنرل سندھ رینجرز نے واقعہ کی چھان بین کیلئے تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی ہے اور ممکنہ طور پر ملوث اہلکاروں کو معطل کر دیا ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ اب تحقیقات زیادہ شفاف انداز میں ہوں گی اور اصل مجرموں کا تعین کیا جا سکے گا اور مرحوم کے لواحقین کو اصل حقیقت سے آگاہی ہوگی کہ آفتاب احمد کی موت طبعی ہے یا ماورائے عدالت قتل۔اس بھی زیادہ بہتر یہ ہوتا کہ تحقیقاتی کمیشن رینجرز کی بجائے عدلیہ کے ماتحت بنتا تو زیادہ شفافیت پیدا ہوتی۔
سوشل میڈیا پر مضمون نگارفاخرہ گل کہتی ہیں کہ ‘‘ایم کیو ایم کے پرتشدد کاروایئوں میں ملوث ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر مہاجر دہشت گرد اور را کا ایجنٹ ہے۔ جسطرح کے بدترین تشدد سے کل فاروق ستار کے کو آرڈینیٹر کومارا گیا اس قانون میں اور ایک سو ستانوے قتل کرنے کے اعتراف کرنے والے عزیر بلوچ والے قانون میں فرق کیوں ہے؟ مانا کہ ہرملک کی پولیس سچ اگلوانےکیلیئے مختلف طریقے استعمال کرتی ہے لیکن اسطرح کے بد ترین تشدد کی مذمت ہونی چاہیئے خواہ وہ کہیں بھی ہو ….وہ لوگ جو پہلے ہی خود کومظلوم سمجھتے ہیں اسطرح کے اقدامات سے ان میں مزید نفرت بڑھے گی جو کہ ہمارا وطن برداشت نہیں کرسکتا، ہم سب پاکستانی یکساں سلوک کے حقدار ہیں ۔ہمیں مل کر رہنا ہے اور اس ملک کو آگے اور بہت آگے لے کر جانا ہے۔ اس لیےاگر ہماری اعلٰی عدلیہ کی نیند میں خلل نہ پڑے تو انہیں چاہیئے کہ آفتاب احمد کے زیر حراست ہلاک ہونے پر ازخود نوٹس لے اور ذمہ دار رینجرز اہلکاروں کا تعین کرکےانہیں بھی کڑی سزا دی جائے۔
Karachi Operation Rangers
ڈاکٹر جمیل اصغر جامی فیس بک پر اپنی پوسٹ میں لکھتے ہیں کہ‘‘کراچی میں فاروق ستار کے کوآرڈینیٹر آفتاب احمد کی رینجرز کی تحویل میں ہلاکت ایک انتہائی افسوسناک اور شرمناک عمل ہے۔ رینجرز کی تحویل میں کسی کی ہلاکت کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ چند سال پہلے سرفراز نامی ایک نہتے نوجوان کو سرعام سٹرک پر گولیاں مارکر رینجرز اہلکاروں نے موت کی نیند سلا دیا تھا۔جس کی کربناک ویڈیو، پوری قوم نے دیکھی۔ یہ سمجھ نہیں آتی ہمارۓ قانون نافذ کرنے والے ادارۓ، قانون کی دھجیاں کیوں بکھیرتے ہیں۔
سید مجاہد علی اپنے مضمون ‘‘زیر حراست تشدد کی افسوسناک مثال’’ میں لکھتے ہیں کہ ‘‘پاک فوج ملک میں تشدد اور دہشت کے خاتمہ کے لئے سرگرم ہے۔ اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے صرف چند افراد یا گروہوں کا خاتمہ ہی کافی نہیں ہے بلکہ شدت پسندی کے مزاج کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ رینجرز یا دیگر سیکورٹی اداروں کی جانب سے زیر حراست لوگوں کے ساتھ غیر انسانی اور جسمانی تشدد بھی اسی مزاج کا آئینہ دار ہے جو معاشرے میں عام طور سے انتہا پسندی کے فروغ کا سبب بن رہا ہے۔ اس لئے اگر سماج سے انتہا پسندی کو ختم کرنا مطلوب ہے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی اپنا رویہ اور طریقہ کار تبدیل کرنا ہو گا۔
کراچی آپریشن ایک بحران کی شکل اختیار کرچکا ہے،رینجرز اور سندھ حکومت کے آپس کے تضادات کے تحت کراچی آپریشن چل بھی رہا ہے اور مفلوج بھی ہے۔ ایسے میں رینجرز اور ایم کیو ایم کا ایک دوسرئے کے خلاف آمنے سامنے آجانا کسی بھی طرح ملک اورخاصکر کراچی کے مفاد میں نہیں ہے۔ امید ہے جنرل راحیل شریف کے حکم پر تحقیقاتی کمیٹی قطعی غیر جانبدار اور شفاف تحقیقات کرئے گی تاکہ آئندہ اس قسم کے افسوسناک واقعات پیش نہ آیں۔