کٹھمنڈو (جیوڈیسک) نیپالی حکومت نے ماؤنواز اپوزیشن کی حمایت کرنے پر بھارت میں تعینات اپنا سفیرواپس بلالیاہے جبکہ ملکی معاملات میں ہمسایہ ملک بھارت کی ’دخل اندازی‘ کی وجہ سے نیپالی صدر نے اپنا نئی دہلی کا دورہ بھی منسوخ کردیا ہے۔
اس اقدام کے بعددونوں ملکوں کے مابین کشیدگی میںمزیداضافہ ہوسکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق نئی دہلی میں تعینات نیپالی سفیر دیپ کماراپادھیائے کوجمعہ کی رات واپس ملک بلالیاگیاتھا اوراس کی وجہ مبینہ طورپران کی طرف سے نیپالی اپوزیشن کا ساتھ دیناہے جسے بھارتی حکومت کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اے ایف پی نے اپنے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ دیپ کمار نیپال کی ماؤ نواز اپوزیشن جماعت کی حمایت جاری رکھے ہوئے تھے اور یہ پارٹی وزیراعظم کے پی شرما اولی کی حکومت گراناچاہتی ہے۔
گزشتہ ہفتے نیپالی پارلیمان میںاس وقت افراتفری پھیل گئی تھی جب حکومتی اتحاد میںشامل ماؤنواز گروپ نے دھمکی دی تھی کہ وہ اتحاد سے الگ ہو جائیںگے تا کہ وزیراعظم کو ان کے عہدے سے ہٹایاجا سکے۔ بتایا گیا ہے کہ اس اقدام کے پیچھے مبینہ طور پر بھارت کا ہاتھ تھا۔ تاہم اس اعلان کے بعد ماؤ نواز اپوزیشن نے حکومت کی حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا تاکہ جمہوری نظام چلتا رہے۔
ایک حکومتی عہدے دار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھاکہ دیپ کمار اپادھیائے کا نیپالی کانگریس میں کافی اثرورسوخ ہے اور خیال کیا جارہاہے کہ حکومت کی تبدیلی کی تحریک میںان کا اہم کردار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں واپس بلا لیا گیا ہے۔ اپادھیائے کو اپریل 2015 میں کانگریس جماعت کی قیادت والی حکومت کی طرف سے بھارت میں سفیر مقرر کیا گیا تھا۔
دوسری جانب نیپالی وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور گوپال کھنال نے یہ بتانے سے گریز کیا ہے کہ بھارت میں تعینات سفیر کو کیوں واپس بلایا گیا ہے، انھوں نے کہاکہ ایک حکومت کو حق حاصل ہے کہ ملک کی صحیح نمائندگی نہ کرنے کی وجہ سے وہ کسی بھی سفیر کو واپس بلا لے۔ بھارت اور نیپال کے مابین گزشتہ کئی ماہ سے تعلقات کشیدہ چلے آ رہے ہیں اور اس تازہ پیش رفت کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ خاتون صدر بدھیہ دیوی بھنڈاری کا آئندہ پیرکے روز سے شروع ہونے والا بھارت کادورہ بھی منسوخ کردیاگیاہے۔ ان پڑوسی ممالک کے مابین پانی کی تقسیم کا تنازع ہمیشہ سے عدم اعتماد اور دوستانہ ماحول کے فقدان کا سبب بنارہاہے۔