تحریر: شہزاد عمران رانا ایڈووکیٹ چند روز قبل میری نظرایک قومی اخبار میں شائع ہونے والی خبر پر پڑی جس میں چند ایسے افراد کا ذکر ہے جنہوں نے مل کر ایک جعلی مختار نامہ عام کی مدد سے اصل مالک کو اس کی جائیداد سے محروم کیا۔ میں نے اِس بارے میں اپنے طور پر اِس مقدمہ کی فائل کو عدالت سے نکلوا کر پڑھا جس سے میری معلومات میں مزید اضافہ ہوا۔
یہ معاملہ کسی اور جگہ کا نہیں بلکہ ہمارے شہر لاہور کے ایک پوش علاقہ جوہرٹائون کا ہے جو شروع دن سے ہی اِس طرح کے معاملات میں کافی بد نام رہا ہے اِس علاقہ میں اب بہت کم پلاٹ خالی نظرآتے ہیںجس کی وجہ سے میں یہ سمجھتا تھا کہ ماضی میں یہاں پر سرگرم مافیا اب ٹھنڈہ ہوچکا ہوگا مگر ایسا نہیں ہے وہ مافیا اب بھی سرگرم ہے۔
اِس معاملے میںجس شخص نے چھ کنال اراضی پر مشتمل جعلی مختار نامہ عام تیار کیا ہے اُس کی ایک بڑی غلطی یہ ہے کہ اُس نے اِس اراضی میںمقامی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی طرف سے پلاٹوں کی ایلو کیشن سے گیارہ ماہ قبل ہی اپنے بنائے گئے جعلی مختار نامہ عام پر پلاٹوں کے نمبرز تحریر کیے ہیں اِس کے بعد مقامی ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے بھی اِس مختار نامہ عام کے جعلی یا اصلی ہونے کی تصدیق نہیں کی جبکہ اب صورتحال یہ ہے کہ اِس جعلی مختار نامہ عام کامتعلقہ سب رجسٹرارکا ریکارڈ 1996-97 میں ضلع کچہری میںلگائی جانے والی آگ میں ضائع ہوچکا ہے اِس جل جانے والے ریکارڈ کو متعلقہ محکمہ کی مدد سے ایک طریقہ کار کے ذریعے سے دوبارہ ترتیب دیا جاسکتا ہے مگر وہ لوگ یہ کام کیوں کرے گے جنہوں نے جعلسازیاں کیں ہوں حالانکہ دستاویز جعلی ہو یا اصلی۔ اُس کی اصل کاپی اُس شخص کی ملکیت ہی ہوتی ہے جس نے یہ دستاویز تیا ر کی ہو یا اُس کے بحق تیار ہوئی ہو۔
Inheritance right
مندرجہ بالا معاملہ کے علاوہ میرے پاس بھی اِس سے ملتا جلتاایک مقدمہ ہے اِس میں بھی لاہور شہر کے ایک مشہور و معروف علاقہ گلبرگ میں وراثتی جائیداد کی بابت ایک جعلی مختار نامہ عام تیار کیا گیا ہے اِ س معاملہ میںایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم کو اِن کے سوتیلے بھائیوں نے وراثتی حق سے محروم کیا ہے ۔اِس معاملے میں جعلی مختار نامہ عام بنانے والوں نے اپنی ملکیت اصل کاپی خودچھپائی یا ضائع کردی ہے اور متعلقہ سب رجسٹرارکا ریکارڈ بھی مافیا کی مدد سے غائب کروادیا گیا ہے اور اِن حالات کے باوجود بھی مقامی ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے اِس جائیدادکی بابت جعلی مختار نامہ عام بنانے والوںکو مالک بنا رکھا ہے۔
اِس جعلی مختار نامہ عام کی اصلیت یہ ہے کہ اِس کی تمام تر کاروائی بذریعہ لوکل کمیشن کروائی گئی مگر اِس معاملہ میں لوکل کمیشن نے بذاتِ ِخودعدالتِ عالیہ سے رجوع کیا اور بیان دیا کہ میں کبھی بھی اِس کاروائی میں لوکل کمیشن نہیں رہا ہوں۔اِس معاملہ میں جعلی مختار نامہ عام بنانے والوں کے خلاف فوجداری مقدمہ بھی درج ہوا مگر جعلی مختار نامہ عام بنانے والے آج بھی اِس متنازعہ جائیدار سے بذریعہ کاروبارمستفید ہورہے ہیںاور خود ہی ”مالک و قابض”ہیں۔
Case Court
اِس کاروائی کے دوران بھی جعلی مختار نامہ عام بنانے والوں نے ایک بہت بڑی غلطی کی جس میں اُن کی طرف سے ایک ایسا بیان سامنے آیا جس میں تحریر کیا گیا ہے کہ اصل کاپی جعلی مختار نامہ عام رجسٹری کروانے سے تقریباً سات سال قبل اُن کے دفتر میں بارشوں کا پانی آنے پر ضائع ہو گئی تھی اور یہی بیان فوجداری مقدمہ کے اندراج کا باعث بنا۔جہاں تک ایسا معاملہ ہو جس میں جعلسازی سے مستفید ہونے والے جعلی دستاویزکو ضائع کردیںیا چھُپالیں تویہ اقدام بھی قابل ِ سزا جرم ہے اِس پر دفعہ 204 تعزیرات پاکستان کا اطلاق ہوتا ہے۔
اتفاق کی بات ہے کہ اِن دونوں جعلسازیوں میں ایک اور مماثلت بھی ہے کہ جن لوگوں کے بحق یہ جعلی دستاویزات بنے ہیں اُن دونوں کا نام ”اعجاز ”ہے۔ جعلسازیاں کرنے والے اور اُن کے سہولت کار جوکہ مل کر ایک مافیا کی شکل اختیار کرتے ہیں دراصل اِن افراد میںشامل صرف عام قبضہ مافیانہیںہوتے بلکہ اِن کومقامی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی بھی مکمل پشت پناہی حاصل ہوتی ہے جو جائیدادوں کی دستاویزات میں جعلسازیاں کرنے میں اِ ن بااثر افراد کی مدد کرتے ہیں اِس کے علاوہ اِن افراد کو ا علیٰ عہدوں پر فائز ”اعلیٰ افسران” کی پشت پناہی بھی حاصل ہوتی ہے جس سے یہ مافیا بلا خوف و جبر اپنا ”کالادھندہ ” کرتا ہے شایداب تک اِن کے لئے پاکستان میں کوئی قانون بن ہی نہیں سکا۔