وی آئی پی کلچر اور عوامی ذمہ داری

Nayyar Bukhari

Nayyar Bukhari

تحریر : عبدالرزاق
چند دن قبل ایک عزیز دوست نے فیس بک پر ایک پوسٹ کی جس میں سابق چیرمین سینٹ نیر بخاری کی جانب سے ایک سیکیورٹی اہلکار کو تھپڑ رسید کرنے کا ذکر تھا۔ مذکورہ خبر میرے لیے اتنی حیرت انگیز تھی کہ قلم کی جنبش اس واقعہ کا احاطہ کرنے کو بے تاب ہو گئی۔ آپ کو یاد ہو گا کچھ عرصہ قبل چیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی شاہی سواری پروٹوکول کے سائبان تلے اک ہسپتال کی جانب رواں دواں تھی جہاں انہوں نے ٹراما سینٹر کا افتتاح کرنا تھا تو راستوں کی بندش کے سبب ایک معصوم پری بسمہ مجبور و بے کس باپ کے ہاتھوں میں ہی دم توڑ گئی تھی۔ یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی اور ہر طبقہ فکر کی جانب سے مذمتی بیانات کا سلسلہ بام عروج کو پہنچ گیا اور میڈیا بھی وی آئی پی کلچر کی قباحتوں کو اجاگر کرنے میں پیش پیش تھاجبکہ خاکسار نے بھی اس واقعہ کے تناظر میں ایک کالم جڑ دیا۔

تب یوں دکھائی دینے لگا جیسے عوام وی آئی پی کلچر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کا حتمی فیصلہ کر چکی ہے لیکن جونہی اس ننھی کلی کی تدفین کا مرحلہ طے پایاتو میڈیا کے ساتھ ساتھ قوم بھی گونا گوں مسائل کی بازگشت میں اس واقعہ کو بھول گئی ۔اب جبکہ سابق چیرمین سینٹ کے تھپڑ کی بازگشت ملک کے طول و عرض میں سنی جا رہی ہے تو میں یہ بات کہنے میں معمولی سی عار بھی نہیں سمجھتا کہ نیر بخاری کی جانب سے یا اس کے کسی حواری کی طرف سے فرض شناس سکیورٹی اہلکار کو رسید کیا جانے والا تھپڑ درحقیقت پورے نظام کے منہ پر اک طمانچہ ہے۔اگرچہ نیر بخاری اس قبیح فعل کی انجام دہی سے انکاری ہیں لیکن اگر ان کی شہہ پر یہ سیاہ کارنامہ ان کے کسی خیرخواہ نے بھی انجام دیا ہے تو بات ایک ہی ہے۔

وہ اہلکار جو اپنے فرائض منصبی نہایت ایمانداری اور خوش اسلوبی سے ادا کر رہا تھا اس کو محض اس پاداش میں ذلیل و رسوا کیا گیاکہ اس نے اشرافیہ کو چیک کرنے کی جرات کی۔ اپنے فرض کو ایمانداری سے نبھایا۔ نیر بخاری صاحب آپ سے جو جرم سرزد ہوا ہے وہ معمولی نوعیت کا نہیں ہے ۔ زندہ قومیں اخلاقی پستی کی پاتال کو چھونے والے ایسے جرائم کو معاف نہیں کیا کرتیں اور نہ ہی فراموش کرتی ہیں ۔ اس محب وطن سکیورٹی اہلکار کو جس طرح بے عزت کیا گیا ۔ اس کے وقار کی جس بیہودہ انداز میں دھجیاں بکھیری گئیں نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ پوری قوم کے لیے لمحہ فکریہ بھی ہے۔

Security Official

Security Official

اب یہ بات کھلی حقیقت کی طرح واٖضح ہو چکی ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں متمکن یہ نام نہاد خدمت گار اشرافیہ یا ان کے بے لگام کارندے جب چاہیں جہاں چاہیں کسی سفید پوش کے وقار کو پامال کر سکتے ہیں۔ یہ ملکی قانون سے خوف زدہ ہیں اور نہ ہی انہیں قانون کے رکھوالوں کا ڈر ہے اور ڈر ہو بھی کیسے ؟یہ تو وہ ماہر اور شاطر افراد ہیں جو اس ہنر میں ید طولیٰ رکھتے ہیں کہ قانون سے کیسے کھیلا جاتا ہے اور قانون کے فرض شناس رکھوالوں کو کیسے راستے سے ہٹایا جاتا ہے۔

تاریخ گواہ ہے جب بھی کوئی فرض شناس آفیسر ان نام نہاد خدمت گاروں کے کرتوتوں کی راہ میں حائل ہوا ہے تو اسے راستے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہٹانا ان مکروہ چہروں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔اس ضمن میں ماڈل ایان علی کو گرفتار کرنے والے ایماندار ،فرض شناس ،نڈر اور باضمیر آفیسر کی تمثیل ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اور اس سے ملتی جلتی ہزراروں دیگر مثالیں وطن عزیز کی فضاوں میں معلق ہیں۔بد قسمتی سے ہمارے ملک میں دولت کا ارتکاز چند خاندانوں تک محدود ہونے کے سبب پورا معاشرتی و سماجی ڈھانچہ تباہی کا منظر پیش کر رہا ہے۔

وطن عزیز میں چند سو خاندانوں کی دولت پوری قوم کی دولت کے مساوی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ اشرافیہ اپنے آپ کو ہر قسم کے ملکی قوانین سے ماورا سمجھتی ہے اور ان کی نظر میں غریبوں کی اہمیت تو کیڑے مکوڑوں سے بھی کمتر ہے۔ان انسان نما بھیڑیوں کے دل و دماغ میں یہ بات راسخ ہو چکی ہے کہ وہ غریب عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے رہیں ۔ان کو کیڑے مکوڑوں کی طرح مسلتے رہیں۔ان کی ترقی کی جانب جانے والے ہر راستے کو بند کرتے رہیں اور ان کی مجبوریوں،محتاجیوں اور ضرورتوں کا فائدہ اٹھا کر ہمیشہ مسند اقتدار کا جھولا جھولتے رہیں۔گذشتہ کچھ سالوں کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیجیے چوہدریوں،وڈیروں اور جاگیر داروں کی اولاد کے ایسے سیاہ کارنامے آپ کو واضح دکھائی دیں گے کہ انہوں نے اپنی انا کو سیراب کرنے کے لیے اور محض معمولی توں تکار کے واقعات کے جنم لینے پر غریب خاندانوں کے چراغ نہایت بے دردی اور سفاکی سے ہمیشہ کے لیے گل کر دیے۔ اس دلیل کو اگر مذید حقیقت کے روپ میں دیکھنے کی کوخواہش ہو تو سندھ میں شاہ رخ جتوئی اور پنجاب میں کانجو خاندان کے اک بگڑے شہزادے کی جانب سے لاہور میں روا رکھی گئی ظلم کی داستان کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

Nayyar Bukhari

Nayyar Bukhari

سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا ان ڈاکووں اور لٹیروں کی زندگی اک عام محب وطن انسان سے زیادہ قیمتی ہے ۔ ایک مزدور جو اپنا خون پسینہ بہا کر ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالتا ہے ان سے کمتر ہے جو ملک کی بنیاد کو ہر حوالے سے کھوکھلا کرنے میں مگن ہیں اور جن کا کام صرف اور صرف ملکی دولت کو لوٹنا ہے اور ان کی ایک ایک جنبش سے ملکی خزانے پر نقب لگتی ہے اور ان کے بیرونی دوروں کے دوران ملک کا کثیر سرمایہ باہر منتقل ہو جاتا ہے یہ وہی افراد ہیں جو غریب کے ووٹ کو پل بنا کر اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں اور پھر مسند اقتدار پر بیٹھ کر ملک کے وسائل کو لوٹ پاٹ کر عرب ممالک سے لے کر یورپ تک اپنے بزنس ائمپائر کھڑے کر لیتے ہیں ۔ بہت ہو چکا۔

عوام ان کے ظلم اور زیادتی کو بہت برداشت کر چکی ہے ۔ اب عوام کو حتمی فیصلہ کرنا ہو گا کہ محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوں گے۔اگر حالات کی سنگینی کو مد نظر رکھتے ہوے غریب کی جامہ تلاشی ضروری ہے تو اشرافیہ کو بھی اس مشق سے استثنیٰ حاصل نہیں ہے ۔ یاد رہے یہ وہی اشرافیہ ہے جب یہ یورپ و امریکہ جاتے ہیں تو ان ممالک کے ائیر پورٹس پر ان کی تلاشی کے مناظر بیان سے باہر ہیں۔

بعض اوقات تو اس عمل کے دوران ان کا بدن کپڑوں سے بھی محروم ہو جاتا ہے لیکن پاکستان میں یہ لوگ انا کے بے لگام گھوڑے پر سوار رہتے ہیں اور بلا خوف فرض شناس سکیورٹی اہلکار پر یوں حملہ آور ہوتے ہیں جیسے ملک خدادا دپاکستان ان کے باپ کی جاگیر ہے ۔ ان ظالموں کے ہاتھ جب تک قوم نے سختی سے نہ روکے ان کی بے حسی کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جائے گا اور ایسے کئی دوسرے اہلکار ان کی انانیت کا شکار ہوں گے جو یقینی طور پر کسی بھی زندہ قوم کے لیے باعث شرمندگی ہے۔

Abdul Razzaq

Abdul Razzaq

تحریر : عبدالرزاق
03346262111