تحریر : سید انور محمود لوگ کیسے اپنی نظریاتی سیاسی سوچ کو بدل لیتے ہیں، میرئے نزدیک یہ ایک مشکل کام ہے۔ لیکن حالات اور واقعات بتاتے ہیں کہ کسی کی سیاسی سوچ کا دائیں سے بائیں یا بائیں سے دائیں منتقل ہوجانا کوئی انہونی بات نہیں ہے، ایسا ممکن ہے اور ایسا دنیا بھر میں ہوتا ہے، پاکستان میں بھی اس طرح کی بے شمارمثالیں موجود ہیں جن میں دائیں اور بائیں بازو کے نظریات کے حامل افراد اپنے مخالف بازو کے مقاصد اور تنظیموں کے ترجمان بن گئے۔ لیکن اس کے باوجود اسی پاکستان میں ایسے بے شمار لوگ بغیر اس بحث کے کہ وہ دائیں بازو سے ہیں یا بائیں بازو سےاپنے نظریات میں اٹل ہوتے ہیں، وہ مرتے وقت بھی اپنی سوچ اور نظریات کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ ایسی ہی ایک اٹل سوچ کے مالک بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن (این ایس ایف) کے سابق صدر ڈاکڑ رشید حسن خان تھے۔
رشیدحسن خان حیدرآباد (بھارت) میں پیدا ہوئے اور پاکستان ہجرت کی۔انہوں نے ثانوی تعلیم کراچی میں حاصل کی اور ڈاو میڈیکل کالج سے گریجویشن کیا۔ جوانی کے دنوں ہی سے رشیدحسن خان ترقی پسند تحریکوں میں سرگرم رہے۔ بالخصوص این ایس ایف میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔بائیں بازو کی طلبہ تنظیم این ایس ایف کا قیام 1956ء میں ہوا۔ 1965ءمیں این ایس ایف میں پہلی دھڑے بندی اس وقت سامنے آئی جب بین الاقوامی مزدور تحر یک خروشچف کی ترمیم پسند لائن کی وجہ سے دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔
این ایس ایف کے ایک دھڑے کی قیادت امیر حیدر کاظمی کر رہے تھے جب کہ انقلابی لائن کی حمایت کر نیوالے دھڑے کی نمایندگی معراج محمد خان اور رشیدحسن خان نے کی۔ 1968ء میں رشید حسن خان این ایس ایف کے صدر ہو گئے۔ این ایس ایف کی مرکزی مجلس عاملہ کے فیصلے کے مطابق 1969ء میں رشید حسن خان نے ملک گیر دورہ کیا، اس دورہ کے نتیجے میں این ایس ایف راولپنڈی، لاہور، پشاور، نوشہرہ، سوات، مردان، کیمبل پور، گجرات اور دوسرے شہروں میں بھی قا ئم کی گئی۔
Ayub Khan
رشید حسن خان نے سابق صدر ایوب خان کے فوجی دور حکومت میں 1960ءسے 1970ء کے دوران بہت فعال کردار ادا کیا۔ جبکہ این ایس ایف کی سربراہی کے دوران وہ ایک اچھے مقرر بھی ثابت ہوئے۔انہوں نے ایوب خان کے دور حکومت میں ہی این ایس ایف کے لئے انتھک محنت کی اور اپنا ایک مقام بنایا۔ 1969ء میں یحییٰ خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد طلبہ یونین پر پابندی عاید کردی۔ اکتوبر اور نومبر میں طلبہ نے یونین انتخابات کے حق میں دھرنا دیا اور گرفتار کرلیے گئے۔ ان گرفتار طلبہ کی رہائی اور طلبہ یونین کے انتخابات کے انعقاد کے لیے این ایس ایف نے ملک گیر تحریک چلائی۔ رشید حسن خان اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کرلیا گیا اور اس جرم میں فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔ رشید حسن خان اور انکے ساتھیوں کو چھ ماہ سے ایک سال تک سزا ہوئی۔ جب ون یونٹ ٹوٹا تو انہیں رہائی ملی۔
1970ء کے انتخابات کے وقت رشید حسن خان حیدرآباد جیل میں تھے، ان کومارچ 1971ء میں رہا کیا گیا جب مشرقی پاکستان میں بھرپور فوجی کارروائی ہورہی تھی۔ ان کےساتھ جیل میں موجود میراحمدعلی تالپور، طارق عزیز اور مولانا عبدالحق بھی اس وقت حیدرآباد جیل میں تھے لیکن انہیں عام انتخابات سے پہلے رہا کردیا گیا۔ رہائی کے بعد طارق عزیز نے اخبار کو انٹرویو کے دوران قیدیوں کی حالت زار اور انہیں منشیات پہنچانے میں جیل کے عملے کے کردار کے بارے میں بتایا۔ جیل کے سپریٹنڈنٹ نے رشید حسن خان سے ان الزامات کو رد کرنے کے بیان دینے کو کہا اورانکار پر اس نے رشید حسن خان کو قید تنہائی میں ڈال دیا۔
یہ وہی سیل تھا جہاں پیر پگاڑا صبغت اللہ شاہ نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے تھے۔ رشید حسن خان نے احتجاجاً بھوک ہڑتال کردی۔ ایک ہفتے بعد رشید حسن خان کی صحت خراب ہونے لگی لیکن انہیں مناسب طبی امداد نہیں دی گئی بلکہ انہیں سکھر جیل بھیج دیا گیا۔رشید حسن خان نے اپنے ساتھی رہنما، معراج محمد خان کے بعد، این ایس ایف کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کو تشکیل دینے میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کندھے سے کندھا بھی ملایا۔ رشید حسن خان کا کہنا تھا کہ بھٹو کی دعوت پر ترقی پسند طلبہ اور کارکنوں نے اس خیال کے ساتھ ان کی حمایت کی کہ یوں تبدیلی آئے گی اور پرانے اور ناکارہ سیاسی نظام سے چھٹکارہ ملے گا۔
Rasheed Hassan and Bhutto
بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کا منشور بائیں بازو کے پروگرام اور نعروں کے مطابق بنایا۔ وہ بائیں بازو اور ترقی پسند قوتوں کے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوئے۔ چھ ماہ کے مختصر عرصہ میں بھٹو نے اپنا اصل رنگ ظاہر کردیا بھٹو بہت دیدہ ور اور ذہین تھے،لیکن مردم شناس ہرگزنہیں تھے، اگر ہوتے تو رشید حسن خان جیسے لوگ ان کے ساتھ ہوتے اور شاید آمرضیا الحق کو یہ جرأت نہ ہوتی کہ انھیں تختہ دار تک پہنچاتا اور نہ ہی پیپلز پارٹی اس حال کو پہنچتی، جس کا آج وہ شکار ہے ڈاکٹر رشید حسن خان نےبھٹو کے زمانے میں ہی طلبہ سیاست کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ جنرل ضیا کے دور میں طلبہ سیاست پر پابندیوں کی وجہ سے وہ ملکی سیاسی صورتحال کے بارے مایوسی کا شکار ہوچکے تھے، مایوسی یہاں تک بڑھی کہ وہ عملی سیاست سے کنارہ کش ہوگئے۔ رشیدحسن خان نے شادی نہیں کی تھی، پیشے کے اعتبار سے وہ ڈاکٹر تھے۔
سیاست سے کنارہ کشی کے بعد انہوں نے کراچی میں محنت کشوں کے علاقوں میں فلاحی کلینک کھولے اور خود کو غریب و نادار افراد کو مفت طبی سہولیات فراہم کرنے اور لکھنے لکھانے تک محدود کرلیا تھا۔ 2010ء میں رشید حسن خان نے میڈیکل پریکٹس ترک کردی اور پاکستانی عوام کے بنیادی مسائل کے متعلق لکھنے میں مشغول ہوگئے۔ ہوسکتا ہے جب آپ انکو پڑھیں تو آپ میں سے کچھ کوان کے نظریات اور تلخ نوائی اچھی نہ لگےمگر وہ ایک صاف گو، جرأت مند اور بااصول انسان تھے۔
ڈاکٹر رشید حسن خان کا 30 اپریل 2016ء کو کراچی میں انتقال ہوگیا۔ رشیدحسن خان وہ انسان تھے جنہوں نے کبھی اصولوں پر سودا نہیں کیا، اپنے نظریات اور افکار پر سختی کے ساتھ قائم رہے۔ خوش نصیبی سے ایک زمانے ہم بھی این ایس ایف کے رکن تھے اور این ایس ایف کے جلسوں میں جاتے تھے، لیکن ڈاکٹرصاحب اکثرجیل میں ہوتے تھے۔ایک دو مرتبہ ڈاومیڈیکل کالج میں ملاقات ہوئی، امید ہے کل جب تاریخ داں تاریخ لکھے گاتو شاید وہ اس ملک کے بڑئے بڑئے سیاست دانوں، چوہدریوں، وڈیروں، خانوں، سرداروں اوردوسروں کے نام نہ لکھے لیکن وہ اُن لوگوں کے نام جو عوام میں سے تھے اور عوام کی بات کرتے تھےضرور لکھے گااوریقیناً ان ناموں میں سے ایک نام ترقی پسند “ڈاکٹر رشید حسن خان” کا بھی ہوگا۔