تحریر : بنت سلیم ہال میں موجود تمام لوگوں کی آنکھوں میں نمی تھی اور کچھ تو باقاعدہ رو بھی رہے تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ دونوں کنبوں میں ایک طمانیت کا احساس بھی دل میں موجود تھا۔ لڑکی کے ماں باپ آنکھوں میں آنسو ہونے کے باوجود دل سے پروردگار کے شگر گزار تھے کہ اپنی بیٹی کے فرض سے سبکدوش ہو گئے ہیں لیکن دوسری طرف اخراجات جو قرض لے کر پورے کیے تھے وہ بھی دل بٹھائے جا رہے تھے لیکن لڑکی کے سسرال والوں کے چہرے بے حد کھلے ہوئے نظر آ رہے تھے کیونکہ ان کو من چاہا جہیز جو مل گیا تھا اور دولھا کے تو وارے نیارے ہو گئے تھے۔
دلہن آنکھوں میں آنسو اور دل میں بے بسی کا انبار لیے رخصت ہو گئی تو والدین فورا دوسری فکروں میں گھرگئے کہ فرض تو بخوبی ادا ہو گیا لیکن اس فرض کے بدلے جو قرض کا بوجھ سر پر آن پڑا ہے اسے کیسے جلد سے جلد ہٹا یا جائے ۔ غریب اور بوڑھے باپ کی آنکھوں میں گہری تشویش تھی اور اس کے ماتھے پر فکر کی گہری شکنیں نمایاں ہو رہی تھیں ۔ دل شکر گزار ہونے کے باوجود کچھ افسر دہ سا تھا اور یہ شکوہ بھی کر رہا تھا کہ یہ کیا عجب ریت ہے کہ ایک فرض ادا کرنے کی خاطر قرض لیا جائے ۔ ایک طرف تو خدا کو راضی کیا جارہا ہے اور ساتھ ہی اگر قرض کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی ہو گئی تو اس کی ناراضگی بھی مقدر بن سکتی ہے۔ اس بوڑھے ، غریب اور ان پڑھ باپ کی آنکھوں میں یہ شکوہ نمایاں تھا۔ وہ ان پڑھ ہونے کے سبب صرف سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے والا تھا۔
پانچ وقت کی نماز تو ادا کر لیتا لیکن قرآن نہیں پڑھ سکتا تھا اسلئیے کبھی یہ پڑھ ہی نہ سکا کہ جہیز کی قرآن میں بات ہی نہیں کی گئی قرآن پاک میں کسی بھی جگہ اللہ تعالی نے جہیز دینے کا ذکر نہیں کیا اسلئیے بوڑھے باپ نے صرف دنیا داروں سے یہ سن لیا اور جہیز جمع کرتے کرتے ساری توانائی ضائع ہو گئی۔
Dowry Harassment
سچ تو یہ ہے کہ ایسے ہزاروں بے بس اور لاچار باپ ہیں جن کی بیٹیاں صرف جہیز جیسے ناسور کی وجہ سے باپ کی دہلیز پر اپنی آدھی زندگی گزار دیتی ہیں ۔جہیز آج کل ہمارے معاشرے میں ایک ایسی رسم یا پھر رواج بن چکا ہے جس سے چھٹکارا حاصل کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی لگتا ہے ۔2008 میں پاکستان میں جہیز سے متعلق ایک قانون بنایا گیا جس میں جہیز کے لیے 30,000کی رقم مختص کی گئی کہ اس سے زیادہ پیسوں کا جہیز نہیں دیا جائے گا اور ماں باپ لڑکی کو بطور تحفہ کچھ دینا چاہتے ہیں تو اس کی قیمت بھی 50,000سے زیادہ نہیں ہو گی لیکن اس قانون کا لاگو ہونا صرف باتوں تک ہی محدود رہ گیا کیونکہ ایسا دیکھنے میں نہیں آیا کہ کوئی باپ اپنی بیٹی کو اتنے پیسوں میں رخصت کر سکے بلکہ دیکھنے میں تو یہ آیا ہے کہ لڑکیوں کی ایک بہت بڑی تعداد جہیز کی وجہ سے اپنی عمر کا زیادہ حصہ اپنے باپ کے گھر گزار نے پر مجبور ہیں۔
جہیز کو معاشرے میں ایک اہم رواج کا درجہ حاصل ہو چکا ہے جس کے بغیر بیٹی کا رخصت ہونا ناممکن ہے ۔ دوسری جانب شادی بھی ایک اہم فریضہ ہے اور نکاح کو تو آدھا ایمان مکمل کرنے والا عمل کہا گیا ہے لیکن آج کل اس ایمان کو مکمل کرنے کے لیے بے تحا شاپیسے درکار ہیں ۔ کیا اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ آپ اس قسم کے رواج کو اپنا کر نکاح جیسا اہم فریضہ ہی ادا نہ کریں کیا ہمارا علم صرف کتابوں تک محدود رہ گیا ہے ؟ کیا ایسے علم کا کوئی فائدہ ہے جو ہماری سوچ میں مثبت تبدیلی نہ لا سکے۔
جب آنحضور ؐ کی بیٹی فاطمہؓ کی شادی ہوئی تو آپ ؐ نے انھیں صرف بنیادی ضروری سامان کے ساتھ رخصت کیا جیسے مٹی کے دو پیالے ، چکی، جائے نماز وغیرہ ۔ کوئی بھی ایسا سامان نہ تھا جو غیر ضروری ہو ۔ اور دعاوں کے ساتھ بیٹی کو رخصت کر دیا جبکہ ہم نے نہ جانے کیوں اپنی بیٹیوں کو لدھے پھندے جہیز کے ساتھ ہی رخصت کرنا ضروری قرار دے دیا۔ ہم بیٹی کی نیک تربیت اور سگھڑپن کی اہمیت کو پس پشت ڈال کر جہیز کے لالچ میں پڑگئے حالانکہ یہ نہ صرف غیر ضروری ہے بلکہ غیر اسلامی بھی ہے۔
Dowry System
یہ رسم بنیادی طور پر پاکستان میں ہندوستان کی وجہ سے آئی جب مسلمان متحدہ ہندوستان میں تھے تو تب یہ رسم مسلمانوں میں آہستہ آہستہ پروان چڑھتی چلی گئی اور آج معاشرے کے لیے ایک ناسور کی حیثیت اختیار کر چکی ہے آج بھی ہندوستان میں یہ رسم اتنی ہی مضبوطی سے قائم ہے حالانکہ انڈیا میں بھی 1961 میں جہیز کی ممانعت کے لیے ایک قانون بنایا گیا تھا لیکن یہ قانون زیادہ عرصہ نہ چل سکا اور اس کو منسوخ کر دیا گیا۔
ہندوستان مین چاہے کوئی فرد مسلمان ہو ، عیسائی یا سکھ ہو یا پھر کسی دوسر ے مذہب کا پیرو کار ہو اس رسم کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے ۔ پہلے پہل جب بیٹی کو رخصت کیا جاتا تو ماں باپ کی طرف سے چند تحائف دئیے جاتے تھے وقت کے ساتھ ساتھ ان تحائف کی نوعیت بدلتی گئی اور ان کا تحائف کا استعمال غیر معمولی حد تک بڑھ گیا اور آج یہ جہیز کی شکل میں موجود ہے ۔ جہیز کا مسئلہ صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے بلکہ مڈل ایسٹ کے کچھ ممالک اور انڈیا بھی اس کی لپیٹ میں ہے۔
2010 میں انڈیا میں ایک سروے ہوا جس کے مطابق 8000 سے زائد خواتین کو سالانہ صرف جہیز کی بنا پر قتل کر دیا جاتا ہے اور بعض جگہوں پر صرف جہیز کو مسئلہ بنا کر عورتوں پر تشدد بھی کیا جاتا ہے ۔ یہ مسئلہ پاکستان میں بھی پوری شدت سے موجود ہے اور وقت کے ساتھ اس میں کمی ہونے کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے ۔ بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ جہاں لڑکے والوں کی طرف سے جہیز نہ لیا جائے یا پھر جہیز نہ ملنے پر کوئی منفی ردعمل سامنے نہ آیا ہو۔
حکومت پاکستان کو چاہیے کہ جہیز کو معاشرے میں برائی کی جڑ بننے سے روکنے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات کرے اور اس کے لیے باقاعدہ قانون سازی کرے اور لوگوں کا بھی فرض ہے کہ وہ پڑھے لکھے اور با شعور شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اس لعنت سے پرہیز کریں صرف جہیز کو مسئلہ بنا کر لڑکیوں کی زندگی بر باد کرنا عقلمندی نہیں جبکہ نکاح اہم فریضہ ہے جس کی ادائیگی کے لیے جہیز کی شرط مناسب نہیں۔