اظہار رائے کی آزادی اور آج کی صحافت

Journalism

Journalism

تحریر : میاں وقاص ظہیر
صحافت کے عالمی دن13مئی کے موقع پر سوچا کچھ نظر ثانی کی جائے موجودہ صحافتی خدوخال پر اور اس بات کا بھی جائزہ لیا جائے کی اظہار رائے کی آزادی کی پاداش میں ہم اپنے ملک میں صحافتی معیار کو کہاں تک لے گئے ہیں ، اس میں کوئی شک نہیں کہ پوری دنیا میں اظہار رائے آزادی کیلئے جو قوانین رائج ہیں ان میں واضع طور پر یہ درج کیا گیا ہے کہ جن جن ممالک میں جمہوریت ہے وہاں ہر شہری اظہار رائے کی آزادی رکھتا ہے اسے تنقید اور تردید کا مکمل حق حاصل ہے۔

اب اظہار آزادی کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ آپ اس کی رائے جس کی چاہیں پگڑی اچھالیں ، جس مذہب کو چاہئے نشانہ بنائیں اور اس حقوق کو اپنے مقصد کیلئے استعمال کریں ،اس کیلئے موجودہ دور کا سب زیادہ میڈیم پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کو سمجھا جارہاہے ، جنہیں نے گزشتہ 12سالوں سے اظہار رائے کی آزادی کے قانون کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے بے شمار افراد کی کردار کشی کے ساتھ گستاخانہ مواد اور خاکے شائع کرکے مسلمانوں کے جذبات کو بھی بری طرح ٹھیس پہنچائی گئی۔

موجود ہ دور میں پاکستان کے اندر جو پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے مالکان ہیں ان میں سے بیشتر کا تعلق دور دور تک صحافت سے نہیں، جتنے بھی بڑے گروپ اس وقت پاکستانی میڈیا انڈسٹری میں چھائے ہوئے ہیں ، یہ پیشہ ور صحافی نہیں ہیں ، یہاں ایک بات واضع کرتا ہوں کہ ہم ان میڈیا مالکان کے خلاف نہیں ہیں ، ان کے آنے سے یقیناََ روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوئے ، لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ یہ مالکان آخر میڈیا انڈسٹری میں آنے پر ہی کیوں مجبور ہوئے ،وہ اس کیلئے کہ ان میں بیشتر مالکان کے بڑے بڑے کاروبار اور متعدد کے تعلیمی ادارے ہیں ، جن کو شیلٹر دینے کیلئے انہوں نے میڈیا انڈسٹری کا انتخاب کیا۔

Social Media

Social Media

اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ میڈیا انڈسٹری میں بھی نا پروفیشنل لوگوں نے پنچے گاڑھ لئے جنہیں میڈیا سے ”کوڈ آف ایتھکس ” کے بارے میں قطعی معمول نہیں تھا، جس سے صحافت کا معیار بھی گراوٹ کا شکار ہوا ، دوسرے پر تنقید کرنا بہت آسان ہیں ہمیں خودکار احتساب کرتے ہوئے اپنی اپنی بغلوں میں جھانک کر اصلاح کرنا ہوگی ، یوم صحافت پر ہمیں اپنے آبائو اجداد کی قربانیوں کو نہیں بھولنا چاہئے ، جنہوں نے عقوبت خانوں میں رہ کر تشدد برداشت کیا ، یہاں تک کے بہت سارے احباب نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ، کیا انہوں نے جانوں کا نذرانہ اس لئے تھا کہ آج جو صحافت کی آڑ میں ہمیں آزادی ملی اس کا عام کارکن کو کوئی فائدہ نہ ہو ، حتیٰ کہ متعدد میڈیا ہائوسز اپنے اپنے ملازمین کو بروقت تنخواہیں نہ دیں اور ان کا معاشی استحصال کرے تو ہمارے شہدائے صحافت کی روحیں تو ضرور تڑپتی ہوں گی۔

آج یوم صحافت پر ہمیں ظالموں جابر میڈیا مالکان کے خلاف بھی حق کی آواز بلند کرنا ہوگی، جو ہمیں غریب ورکز کو ذبح کر رہے ہیں ، خدایا! صحافت کامقدس پیشے کو مفادات کی کالی پٹی باندھ کر گندا نہ کریں ، میڈیا سماج کی آواز اور عوام کی نمائندگی کرتا ہے ، اگر ہم نے اس آواز کو دبانے کے موقع فراہم نہیں توا یک روز ہمیں بھی سماج میں ہونے والے ہر ظلم وزیادتی اور انصافی کو اس طرح دبا دے گا کہ کوئی بھی اس کے خلاف نہیں بول سکے گا۔

ہمیں صحافت کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے میڈیا ورکز کی فلاح وبہبود کے اقدامات کیساتھ ان کی مختلف اوقا ت میں تربیتی ورکشاپ اور پروگراموں کا انعقاد کرنا ہوگا ، ایسے پروگراموں تو حکومتی سرپرستی میں ہونے چلیں، لیکن چونکہ ہمارے ماضی اور موجودہ حکومتیں کو ترجیحات نہ کبھی عوامی مسائل اور ملکی بحران رہے ہیں اور نہ نہیں وہ ایسے پروگراموں کی سرپرستی کریں گے ، اس کیلئے میڈیا مالکان کے اندر بھی احساس جگانے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایسی کالی بھیڑوں کی نشاندہی کی بھی۔

Waqas Zaheer

Waqas Zaheer

تحریر : میاں وقاص ظہیر