آزادی کے حق میں اٹھتی طلبا کی آوازیں

Kanhaiya Kumar

Kanhaiya Kumar

تحریر: محمد راشد
گزشتہ دوماہ میں یکے بعددیگرے کتنے ایسے واقعات ہوئے ہیں جنھوں نے ہرامن اورانصاف پسند شخص کو سوچنے پرمجبور کردیاہے، خود کو جمہوریت اور سیکولرازم کی علامت کہلانے والی ریاست اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے۔ اس لہر کاآغاز جواہرلال نہرو یونیورسٹی دہلی سے ہوا۔جہاں پر 9 فروری کوافضل گورو شہیدکی پھانسی کی برسی پریونیورسٹی کے طلبانے صدائے احتجاج بلند کی تواس پرطلبا کی انجمن کے چیئرمین کنہیا کمار کوگرفتار کرلیاگیا۔گرفتار کرنے کے بعداسے جسمانی اور ذہنی اذیت سے دوچارکیاگیا۔ امن پسند ہندوستان کاچہرہ اس وقت دنیاکے سامنے واضح ہوگیا جب یونیورسٹی کے طلبا کی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی جونعرے لگارہے تھے”ہے حق ہمارا آزادی، چھین کے لیں گے آزادی۔”

جے این یو میں طلبا یونین کی صدر شہلا شاہد نے بھارت کی بھگوا سرکار کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہم بھارت ماتا کو نہیں مانتے اور اس کے خلاف آواز اُٹھاتے رہیں گے اور ہماری آواز کو دبایا نہیں جا سکتا۔یونیورسٹی کی ایک پروفیسر نے طلباو طالبات سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں غلط تاریخ پڑھائی جا رہی ہے آج قوم کو بتایا جانا چاہیے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں ہے اور یہ کہ بھارت نے الحاق کی دستاویز پر زبردستی دستخط کروا کر ریاست پر قبضہ کر رکھا ہے۔ جب ہندوستان نے اس آواز کو زبردستی دبانے کی کوشش کی تویہ معاملہ جواہرلال نہرو یونیورسٹی سے نکل کرپورے ہندوستان کی یونیورسٹیوں تک پھیل گیا۔ جہاں کشمیری طلبا اور امن پسندلوگوں نے آزادی کشمیر کی حمایت کی۔

India VS West Indies

India VS West Indies

31مارچ کو انڈیااور ویسٹ انڈیز کے درمیان ٹی 20 سیمی فائنل کامیچ تھا۔ سرینگرکے انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں انڈیاکے ہارنے پر طلبانے خوشی کااظہارکیا۔ یہ بات جنونیت پسند ہندوطلبا کوپسندنہ آئی توانہوں نے ہنگامہ کھڑاکردیا۔ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سرینگر میں پڑھنے والے طلباکے درمیان یہ تنازعہ پیش آیا۔ اس یونیورسٹی میں 50 فیصد طلباکشمیری اور باقی بیرون کشمیرسے ہیں۔ انتہاپسند ہندؤوں نے یونیورسٹی پرجھنڈا لہرانے کی کوشش کی تو ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ یہ مقابلے اور میچ اس لیے کروائے جاتے ہیں تاکہ ماحول کوخوشگوار بنایاجائے جبکہ بھارت میں کتنے ایسے واقعات ہوچکے ہیں جس میں شکست جب انڈین کرکٹ ٹیم کے حصے میں آئی تو اس پرہندوانتہاپسند لڑائی جھگڑے پراترآئے۔ اس باعث یونیورسٹی کامنظر تعلیمی ادارے سے تبدیل ہوکرچھاؤنی کامنظر پیش کررہاتھا۔ یونیورسٹی کی کل تعداد3000 ہے جس میں نصف کشمیری ہیں اور اس پر700 قابض فوجیوں کو مسلط کردیا گیاہے۔یوں ہر 2کشمیری طلبا پرایک بندوق والامسلط کیاگیا۔ کچھ ایسی ہی صورتحال یونیورسٹی سے باہر کی ہے۔ شایدایسی صورتحال آپ کودنیا میں کہیں اورنہ ملے۔ کشمیر جس کی آبادی 70لاکھ سے زائدہے اور اس کو جنت نظیر بھی کہا جاتاہے، وہاں ہندوفوج نے اپناناجائز تسلط قائم کرنے کے لیے ہر16کشمیریوں کے اوپر ایک بندوق والامقرر کیا ہے۔

ایک المناک واقعہ ہندواڑہ میں بھی پیش آیا۔جب کشمیری لڑکی کواکیلے پاکر قابض فوج کے ایک اہلکارنے گھرمیں گھس کر زیادتی کر ڈالی۔ جب یہ خبروہاں کے لوگوں تک پہنچی تووہ سراپااحتجاج بن گئے۔ زیادتی کے اس واقع پر سینکڑوں نوجوان سڑکوں پرآگئے اور ہندواڑہ چوک میں قائم فوجی بنکر کی طرف مارچ کرنے کے لگے۔ یہ نوجوان غم وغصے سے بھرے ہوئے تھے۔بھارتی فوج نے اپنی درندگی کی پرانی روایت کے مطابق کشمیری نوجوانوں پراندھادھند فائرکھول دیاجس کے نتیجے میں 4کشمیری شہید’12زخمی ہوگئے۔اس فائرنگ میں وہ نوجوان بھی شہیدہوا جو کشمیرکرکٹ ایسوسی ایشن انڈر19 کے لیے منتخب ہواتھا۔اس سفاکیت کے بعد فوج اپنابنکر چھوڑ کر بھاگ گئی اور کشمیری آزادی کے حق میں فلک شگاف نعر ے لگاتے رہے۔ انہوں نے بھارتی پرچم اتاردیا انڈیامردہ باد اور بھارتی فوج مردہ باد کے نعروں سے فضا گونج اٹھی۔حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے بھارت سرکارکو انٹرنیٹ اورموبائل سروس بند کرناپڑی۔

ستم برائے ستم کہ جس لڑکی کے ساتھ زیادتی کی گئی اس کو حراست میںلے لیاگیا۔ اس سے زبردستی یہ بیان دلوایاگیا کہ میرے ساتھ زیادتی انڈین آرمی نے نہیں بلکہ مقامی کشمیری نوجوانوں نے کی ہے لیکن صاف معلوم ہورہاہے کہ یہ بیان بندوق کی نوک پر دلوایاگیا ۔اگر وہ یہ بیان نہیں دیں گے توپھران کاگھر جلے گااورباقی خاندان بھی خطرے سے دوچار ہوگا۔

Pakistan

Pakistan

اس ساری صورتحال میں حالات کے تیور بدل رہے ہیں۔سکوت اور خاموشی دم توڑ رہی ہے۔ کشمیری اب ظلم سہہ سہہ کر اس نتیجے پرپہنچے ہیں کہ اب ظالم کے خلاف آواز اٹھانی ہے۔اسی کانتیجہ ہے کہ پوراکشمیر پاکستان کے حق میں نعرے لگاتاہے۔”جیوے جیوے پاکستان،تیری جان میری جان پاکستان پاکستان،ہم کیا چاہتے آزادی،تیرا میرا کیاا رمان پاکستان پاکستان اورکشمیربنے گاپاکستان۔”پاکستان کاپرچم لہراناتو اب معمول کی بات ہے۔ ہرچوک چوراہے پرپاکستان کاپرچم لہرایاجاتاہے۔ اگر کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑنے والے متوالہ شہیدہوجاتاہے تو کشمیری ہزاروں کی تعداد میں جمع ہوتے ہیں۔اس کو پاکستانی پرچم میں لپیٹتے بھی ہیں اور پاکستانی پرچم بھی سرعام لہراتے ہیں۔

ان حالات میں اب بھارت کو توشہ دیوار پڑھ لینی چاہیے۔یہ تحریک اب کشمیرکے ان بوڑھوں تک محدودنہیں رہی جنھوں نے ڈوگرہ فوج اور بھارتی ظلم وستم کو اپنی آنکھوں کے ساتھ دیکھا، بلکہ اب یہ تحریک نئی نسل میں منتقل ہوگئی ہے۔ کالج ،یونیورسٹی کے طالب علم خاص طورپر اس تحریک میں شامل ہیں۔یہ اس بات کی علامت ہے کہ بات اب صرف احتجاج اور نعروں تک نہیں رکے گی۔بلکہ بات اس سے بہت آگے چلی جائے گئی بلکہ جاچکی ہے۔ کشمیری تو شروع دن سے ہی اپنی آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں لیکن جب سے یہ انتہاپسند حکومت آئی ہے، تب سے اس تحریک میں ایک نئی جان آگئی ہے کیونکہ ظلم وستم کے واقعات بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔اس تحریک میں تیزی کی چھوٹی مثال پامپورہ میں ہونے والی آزادی پسندوں کی طرف سے کارروائی ہے۔ایک طرف یہ آزادی پسند قابض فوج سے لڑائی کر رہے تھے تو دوسری طرف کشمیری وہاں جمع ہوکر ان آزادی پسندوں کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔یہ معرکہ تین دن جاری رہااورتینوں دن کشمیریوںکامعمول یہی رہا۔

یہ واقعات اصل میں عالمی ضمیر کوجھنجھوڑرہے ہیں۔ کشمیر کی آزادی،حق خودارادیت یہ سوال کرتی ہے کہ کہاں ہیں انصاف پسند اورحقوق انسانی کے چیمپئن…؟؟ جو دنیامیں کہیں مسئلہ ہو وہ فوری طورپر میدان میں کود پڑے ہیں،کیاان کو کشمیریوں کی تحریک آزادی نظرنہیں آتی؟ ابھی تک کشمیری اپنی تحریک پرامن اندازسے چلا رہے ہیں۔حریت کی قیادت کو اکثران کے گھروں میں نظربند رکھاجاتاہے یا پھر جیلوں کی نذر کردیا جاتا ہے۔ اگرحالات یہی رہے تو یہ لاواضرور ابل پڑے گا۔یہ بہتاہوالاواپھرہندوستان کو اپنے ساتھ بہاکرلے جائے گا۔ ویسے بھی پورے ہندوستان میںانتہاپسندی کی سوچ سے بیزارلوگ اب کھڑے ہورہے ہیں۔وہ اس سوچ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں۔بھارت سرکارکویہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اس غیرفطری عمل کانتیجہ کیا ہوگا…؟

Kashmir

Kashmir

کشمیر کی اس ساری صورتحال کااصل وکیل پاکستان ہے۔ تقسیم کے وقت کشمیرپاکستان کاحصہ بنتاتھا لیکن ہندوانگریز کے باہمی گٹھ جوڑ کی وجہ سے بھارتی تسلط قائم ہوا تو جس طرح آج کشمیری کھڑے ہیں اور آزادی اورپاکستان کے حق میںنعرے لگارہے ہیں،اسی طرح پاکستان کو بھی اس کاجواب دیناچاہیے۔5فروری کو پاکستان کے وزیراعظم میاں محمدنوازشریف نے بڑی حوصلہ افزاء بات کی کہ کشمیر کامسئلہ حل کیے بغیر ہم خطے کوپرامن نہیں بناسکتے۔

ابھی حال ہی میںاوآئی سی کااجلاس ہوا تواس کے اعلامیہ میںبھی مسئلہ کشمیر کے لیے پرامن حل شامل تھا۔پاکستان کے صدرممنون حسین نے مسئلہ کشمیر کی بات کی۔اب بات کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔اقوام متحدہ میں اس مسئلے کو پوری قوت سے اٹھاناچاہیے۔ بھارت نے اپنی سفارتکاری کے ذریعے اس متنازع علاقے کو جھوٹ بول بول کر اٹوٹ انگ کہناشروع کردیاہے۔وہ ظلم بھی کررہاہے اور دنیامیں اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرکے دنیاکی حمایت بھی حاصل کرناچاہتاہے۔ انڈیاکی اس دوغلی پالیسی کو واضح کرناچاہیے۔

سفارتکاری کوتیزکرتے ہوئے پوری دنیاکی انصاف پسند قوتوںکے سامنے حقائق رکھ کران کی آواز کو اپنے ساتھ ملاناچاہیے۔تاکہ ہندوستان نے جومظلومیت اور شرافت کانقاب اوڑھ رکھاہے اورپاکستان کو ہرپلیٹ فارم پر دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہ وہ زائل ہوجائے۔اس سارے عمل میں میڈیاکابڑااہم کردار بنتاہے۔ میڈیا کشمیریوں کی آواز کو اٹھائے اوراس بات کو اجاگر کرے کہ آزادی ہرانسان کابنیادی حق ہے اور کشمیریوں کو بھی یہ حق ملناچاہیے ”کشمیرپاکستان کی شہ رگ ہے۔”بانی پاکستان کے اس قدر صراحت کے ساتھ الفاظ ہمارے سامنے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ میڈیا کے ذریعے ہندوستان کی آبی جارحیت اورپاکستان کے خلاف کشمیرکی سرزمین کوکس طرح استعمال کیاجارہاہے ،واضح کیاجاناچاہیے۔پاکستان کے نوجوانوں کو چاہیے کہ جس طرح کشمیر کی یونیورسٹیوں کے طلبا اس تحریک میں کھڑے ہیں۔محبت کاثبوت یہ ہے کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں سے بھی یہ پیغام جاناچاہیے کہ ہم ہرسطح پرآپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔تاکہ کشمیری جو قربانیان دے رہے ہیں،حوصلے میں رہیں کہ ہماراوکیل پاکستان، ہمارے دکھ درد اور تکلیف کو سمجھتا ہے۔ وہ وقت قریب ہے جب کشمیرمیں آزادی کا سورج طلوع ہوگااور قابض بھارتی فوج کو وہاں سے ہرصورت نکلنا ہوگا۔

تحریر: محمد راشد