حکومت پر مہنگی بجلی پیدا کرنے، بحران میں شدت لانے کا الزام

Electricity

Electricity

کراچی (جیوڈیسک) پاکستان میں بجلی کی قلت پیداوار میں کمی کا نہیں بلکہ پاور پلانٹس کو اصل گنجائش کے مقابلے میں کم پیداوارپر چلانے کا نتیجہ ہے، حکومت فرنس آئل سے کم لاگت کی بجلی پیدا کرنے کے بجائے درآمدی ری گیسیفائڈ مائع قدرتی گیس (آر ایل این جی) کے ذریعے مہنگی بجلی پیدا کررہی ہے۔

پاور انڈسٹری کے ذرائع کے مطابق مارچ میں بجلی کی 41.43 فیصد اوسط پیداواری گنجائش استعمال کی گئی جس کی وجہ سے بجلی کی قلت 5ہزار میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے، وفاقی وزارت پانی و بجلی کی ناقص حکمت عملی کا بوجھ قومی خزانے اور عوام کو اٹھانا پڑرہا ہے، بجلی کی پیداوار سے متعلق غلط پالیسی کی وجہ سے صارفین کو 4سے 5ارب روپے کے ماہانہ خسارے کا سامنا ہے۔ انڈسٹری ذرائع کے مطابق بجلی کی پیداوار کے لیے حکومت کی ناقص حکمت عملی اور غلط ترجیحات کا خمیازہ عوام کوسخت موسم گرما میں لوڈشیڈنگ کی شکل میں بھگتنا پڑرہا ہے۔

بجلی کی طلب ورسد میں فرق 5ہزار میگاواٹ تک پہنچنے کے باوجود حکومت بجلی گھروں کو ان کی اصل پیداواری گنجائش کے مطابق نہیں چلا رہی جس کی وجہ سے بجلی کے بحران میں ہرگزرتے روز شدت پیدا ہو رہی ہے۔ پاور سیکٹر کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بجلی کے بحران اور قلت کی وجہ پاور پلانٹس کو کم پیداواری گنجائش پر چلانا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق مارچ 2016کے دوران پاور پلانٹس کو 41.43فیصد پیداواری گنجائش پر چلایا گیا، پاور پلانٹس کی مکمل پیداواری گنجائش بروئے کار نہ لائے جانے سے متعلق اعدادوشمار نے حکومت کے ان تمام دعوؤں کو غلط قرار دے دیا ہے ۔

جس میں حکومتی شخصیات ہر فورم پر یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ملک میں توانائی کے بحران کی وجہ بجلی کی پیداوار میں کمی کا نتیجہ ہے۔ پاور انڈسٹری کے ماہرین کے مطابق پاور پلانٹس کو گنجائش سے کم پیداوار پر چلانے سے کارکردگی میں کمی کے نقصان کے ساتھ فی یونٹ اضافی لاگت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے بجلی کی قیمت مہنگی پڑرہی ہے، حکومت کی جانب سے فرنس آئل کے بجائے درآمدی آر ایل این جی کے ذریعے بجلی کی پیداوار سے بھی بجلی کی لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے، فرنس آئل کی قیمت میں کمی کے بعد فرنس آئل سے چلنے والے پاور پلانٹس کی مکمل پیداواری گنجائش کو بروئے کار لاتے ہوئے سستی بجلی پیدا کرنے کے بجائے درآمدی آر ایل این جی کے ذریعے بجلی کی پیداوار قومی خزانے پر بوجھ بننے کے ساتھ صارفین کی مشکلات میں بھی اضافے کا سبب بن رہی ہے، فرنس آئل کے بجائے ایل این جی کے ذریعے بجلی کی پیداوار ایک مہنگا ذریعہ ثابت ہورہی ہے۔

ایل این جی کے ذریعے پیداکی جانے والی بجلی کی فی یونٹ قیمت فرنس آئل کے ذریعے پیدا کی جانے والی بجلی کی قیمت کے مقابلے میں 2سے 2.50روپے فی یونٹ زائد ہے۔ انڈسٹری کے اعدادوشمار کے مطابق مارچ 2016 میں آر ایل این جی کے ذریعے پیدا کی جانے والی بجلی کی قیمت 7.26سے 7.66روپے فی یونٹ رہی اور آر ایل این جی کے ذریعے پاور پلانٹس کی 59.2فیصد پیداواری گنجائش بروئے کار لائی گئی، اس کے مقابلے میں فرنس آئل پر چلنے والے پاور پلانٹس سے پیدا کی جانے والی بجلی کی قیمت 4.70 روپے سے 5.70روپے فی یونٹ رہی تاہم فرنس آئل کی سستی بجلی کے بجائے آر ایل این جی کے ذریعے مہنگی بجلی پیدا کرنے کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے فرنس آئل پر چلنے والے پاور پلانٹس کی پیداواری استعداد 41.6فیصد رہی۔

انڈسٹری ذرائع کے مطابق کم پیداواری گنجائش پر چلتے ہوئے مہنگی بجلی پیداکرنے والے پاور پلانٹس میں نندی پور، مظفرگڑھ اور فیصل آباد کے پاور پلانٹس سرفہرست ہیں، نندی پور پاور پلانٹ کارکردگی کے لحاظ سے غیراطمینان بخش اور تجارتی اصولوں کے برعکس چلایا جارہا ہے، مارچ 2016 میں نندی پور پاور پلانٹ 36فیصد پیداواری استعداد پر چلایا گیا اور اس کے ذریعے 7.54کلو واٹ فی گھنٹہ قیمت پربجلی پیداکی گئی۔

اسی طرح مظفر گڑھ کا پاور پلانٹ 30فیصد اور فیصل آباد کا پاور پلانٹ 21فیصد کی پیداواری استعداد پرچلا گیا، مظفرگڑھ کے پاور پلانٹ کی بجلی کی لاگت 6.07سے 6.91روپے فی یونٹ جبکہ فیصل آباد کے پاور پلانٹ کی بجلی کی لاگت 10.20روپے کلو واٹ فی گھنٹہ رہی، یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت فرنس آئل سے چلنے والے نئے اور زیادہ کارگر پاور پلانٹس کے مقابلے میں پرانے اور تجارتی لحاظ سے غیرموزوںپاور پلانٹس کو کیوں ترجیح دے رہی ہے، دوسری جانب حکومت ہر 15 روز کے لیے پاور پلانٹس کی میرٹ آرڈر لسٹ تو جاری کر رہی ہے لیکن اس کی تفصیلات جاری نہیں کی جارہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ میرٹ آرڈر لسٹ کی تفصیلات اس لیے خفیہ رکھی جارہی ہیں تاکہ بااثر افراد کو نوازنے کیلیے کم پیداواری استعداد کے حامل اور مہنگی بجلی پیدا کرنیوالے پاور پلانٹس کو فائدہ پہنچایا جاسکے۔

ذرائع کے مطابق سونے پر سہاگہ کے مترادف حکومت درآمدی ایل این جی اور کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کی مزید 6ہزار میگاواٹ بجلی قومی گرڈ میں شامل کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے، ملک میں پہلے سے موجود پاور پلانٹس کی مکمل پیداواری گنجائش بروئے کارلانے کے بجائے نئے پاور پلانٹس کی تعمیر کا فیصلہ بھی عقلی دلیل سے باہر ہے۔ پاور انڈسٹری کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹس لگنے کے بعد مکمل پیداواری گنجائش پر چلائے جائیں گے۔