تحریر: ڈاکٹر عبدالرفیع، نئی دہلی رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ غالب کے اس شعر کا انطباق بہت حد تک اس نظم پرہوتا ہے ۔ ایک دو ماہ قبل اس آزاد نظم پر نظر پڑی تھی۔ ایک اچٹتی سی نظر ڈالی اور پسند آئی۔ ارادہ تھا اس نظم پر کچھ لکھوں گا ۔ روزمرہ کی مصروف ترین زندگی نے ”کچھ لکھنے” کو تحت الشعور میں ڈھکیل دیا تھا۔ آج اچانک اس نظم کا خیال آیا اور ذہن میں گردش کرنے لگی۔ میں نے نظم کی بازیافت کی اور اس کی قرأت و تفہیم کے لیے یکسوئی کے ساتھ منہمک ہو کرچند جملے لکھنے پر آمادہ ہو گیا۔ میری یہ تحریر ایک عام قاری کی قرأت و تفہیم کی ادنیٰ سی کوشش ہے ۔لہٰذا اسے اسی نقطۂ نظر سے دیکھا جانا چاہیے۔
اس نظم کے عنوان میں ایسی کشش اور جاذبیت ہے کہ پہلی قرأت میں قاری کو اپنی جانب راغب کر لیتا ہے۔صاف و ششتہ زبان ، آسان مصرعے ، مترنم بحر ، ارکان کو برتنے کا انوکھا انداز، پامال موضوع کی خوبصورت پیش کش ، سہل ترین لفظیات کا استعمال ، دور از کار استعارات سے آزاد ، روایتی علامات سے احتراز، لفظی گورکھ دھندے اور گنجلک و پیچیدگی سے پاک ، علامتی ، خطابیہ ، استفہامیہ اور خودکلامیہ انداز بیان سے مملو ، باطنی کرب کا بے باکانہ اظہار ، ادبی ، سیاسی ، سماجی ، مذہبی ، اخلاقی پراگندگی اور اس کی بے اعتدالیاں ، ہر چہار جانب عیاری و مکاری ، بے ایمانی و منافقت ، جھوٹ و فریب اور حرام خوری کی گرم بازاری کے حسین امتزاج و اشتراک سے فنکارانہ ہنرمندی اور تخلیقی جدت کے ساتھ کامران غنی نے اس نظم کی تخلیق کچھ اس طریقے سے کی ہے کہ ان کی خلاقانہ بصیرت ، تعمیری فکر ، حساس ذہنیت ، فہم و درک ، باطنی کرب ، کسک ، جلن اور ادبی و سماجی شعور کو درشاتی ہے ۔
نظم کا پس منظر بے حد خوبصورت اور توجہ طلب ہے جو محض ” مجھے آزاد ہونا ہے ” کے لیے تیار کیا گیا ہے۔عزت و شہرت ، علم و حکمت ، مال و دولت اور ریا و نمود کی خاطر انسان انجام سے بے خبر ہو کرزندگی کے ہر شعبہ ہائے جات ( ادب ، سیاست ، صحافت، سماج، مذہب) میں منافقت ، عیاری و مکاری ، اور جھوٹ وغیرہ کو اپنا مطمحِ نظر اور حیاتِ عزیز کا اٹوٹ حصہ بنا لیتا ہے جونتائج کے اعتبار سے ہر حال میں صفر ہوتا ہے۔ناعاقبت اندیش انسان حقیقی و اصلی زندگی سے بے بہرہ ہو کر مذکورہ لہو و لعب اور خرافات میں ملوث ہو کر اپنی حیات عزیز کو قربان کر کے آخر کار موت کی آغوش میں پناہ گزیں ہوجاتا ہے۔
نظم کا آغاز ” کہاں تک بھاگ پاؤ گے کہاں کس کو پکارو گے” بنیادی طور پر خود کلامی کی کیفیت میں مستغرق ،استفہامیہ سوالیہ انداز بیان، سے ہوتا ہے۔خود کلامی سے قطع نظر اس کا مخاطب واحد حاضر بھی ہو سکتا ہے جو مجموعی اعتبار سے جمع حاضر کو محیط ہے، یعنی جزو سے کل مراد لیا گیا ہے۔ یہ دونوں مصرعے بعد میں آنے والے کسی بھی مصرعوں سے مربوط و منسلک دکھائی نہیں دیتے۔ ویسے بھی ان دونوں مصرعوں سے رکن ( مفاعیلن ، مفاعیلن مثمن سالم بحر ہزج)کی تکمیل ہوتی ہے ۔ یا الگ کر دیا جائے تو مربع سالم رکن کا تکملہ بن جاتاہے۔ ان دونوں مصرعوں کی تخلیق نہیں بھی کی جاتی تو اس سے نظم کے ارتقا یا وحدت تاثرمیں کوئی کمی محسوس نہیں ہوتی،بلکہ یہ صوری اعتبار سے ” اضافی مصرعے” کا احساس دلاتا ہے ۔ تاہم ذہن پر زور ڈالا جائے تو اس کے تخلیقی جواز کی دوصورتیں مل جاتی ہیں۔پہلی یہ کہ اس کا ارتباط و انسلاک اکتیسویں(٣١)مصرع سے لے کر سینتیسویں(٣٧) مصرع تک ہے۔وہ اس طور کہ ” سب کچھ تیاگ کر ، کسی گمنام بستی کو اپنا مسکن بنا لینے ، جہاں کسی جاننے اور پہچاننے والے کے گزر اور رسائی کا امکاں موجود نہ ہو، گوشۂ عزلت کو اپنا مستقر اور پاتال میں گمنامی کی دیرینہ تمناکی تکمیل” کے باوجود مذکورہ لہو ولعب اور بے اعتدالیوں سے مفر ممکن نہیں۔ یہاں نظم گو کے دھیان گیان اور صوفیانہ تصور کی جھلک بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔دوسری صورت یہ کہ دونوں مصرعوں کے کلیدی الفاظ ” کہاں تک ؟ اور ” کہاں کس کو؟؟ پر غور کیا جائے تو نظم نگار کی تخلیقی جدت اور ذہنی اپج کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ یہ کلیدی الفاظ انسان کی دونوں ( دنیا و آخرت)زندگیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ”کہاں تک بھاگ پاؤ گے” قرآن کی آیت ” اینما تکونوا یدرکم الموت ولو کنتم فی بروج مشیدة” سورة المائدہ۔ پارہ ٥۔ آیت نمبر۔78 ،کی طرف ذہن فوراً منتقل ہوتا ہے۔ اور ” کہاں کس کو پکاروگے ” قرآن کی آیت ” یوم یفرالمرء من اخیہ وامہ وابیہ وصاحبتہ وبنیہ” پار ۔ ٣٠۔ آیت نمبر۔35-37 ، قیامت کا سارا منظر رقص کرنے لگتا ہے۔
Nazam
نظم کا عنوان ” مجھے آزاد ہونا ہے” سہہ تعبیری حیثیت کا حامل ہے۔ پہلی تعبیر ابتدائیہ دو مصرعوں کے بعد سے شروع ہوتی ہے۔” یہ عزت اور شہرت ، علم و حکمت مال و دولت کی فراوانی” اس میں الفاظ ”عزت و شہرت” تعمیم کا درجہ رکھتے ہیں جبکہ” علم و حکمت اور مال و دولت” تخصیص کا تصورپیش کرتے ہیںاور اس تعمیم و تخصیص کی اجمالی تفصیل اگلے دس مصرعوں میں پیش کی جا رہی ہے۔اس کا پانچواں مصرع ” یہیں رہ جائے گا اک دن” غور طلب ہے اور اپنے اندرون میں ایک جہان آباد کر رکھا ہے ۔اس مصرع کی بغور قرأت سے قاری کا ذہن بخاری شریف کی اس حدیث کی جانب منتقل ہوتا ہے کہ ”جب انسان اپنے رب حقیقی سے جا ملتا ہے یعنی انتقال کرجاتا ہے تو اس کی زندگی کے کل اثاثے پر فوت خاتمے کا مہر ثبت ہو جاتا ہے ،سوائے تین چیزوں کے ، کہ یہی تین چیزیں باقی رہ جاتی ہیں یا رہنے والی ہوتی ہے۔اول۔ صدقۂ جاریہ ، دوم۔ علم نافع اور سوم صالح اولاد”۔اس کے بعد آنے والے نو مصرعوں کا اطلاق بالعموم ہر عہد کے منظرنامے پر ہوتا ہے اور خصوصیت کے ساتھ اس کا انطباق معاصر منظر نامے پر صد فی صد ہوتا ہے۔یہاں نظم نگار نے حقیقت کا بیان بالکل سادہ لب و لہجہ اور سیدھے سادے انداز بیان میں کیا ہے۔ مصرعے ملاحظہ کریں ۔ ” بہت ہوگا تو بس اتنا ، کہ کچھ دن کچھ مہینوں تک تمھارے نام کا چرچا رہے گا کسی اخبار میں ، جلسے میں ، محفل میں بہت ہوگا تو چلیے مان لیتے ہیں کہیں کوئی تمھارے نام کو تحقیق کی بھٹی میں ڈالے گا کوئی کندن بنائے گا ، کوئی شہرت کمائے گا” یہ صداقت و حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کوئی بھی شخص کسی بھی سطح پر خواہ وہ کتنا بڑا ” سورما ” کیوں نہ ہو ” جہانِ بے نشاںمیں بسنے ” کے بعد اس کی کوئی وقعت باقی نہیں رہتی۔ البتہ اگر وہ اپنی زندگی میں مثبت کام کیا ہو یا عمل صالح کا مصداق رہا ہو تو وہ ایک مثالی نمونہ بن جاتا ہے اور گاہے بہ گاہے ان کے اچھے اعمال و کردار ذہن میں محفوظ رہ جاتے ہیں۔اس ضمن کے یہ مصرعے ” کہیں کوئی تمھارے نام کو تحقیق کی بھٹی میں ڈالے گا کوئی کندن بنائے گا کوئی شہرت کمائے گا”بھی توجہ طلب ہیں۔ یہ مصرعے تیسرے اور چوتھے مصرعوں کی تکمیل کرتے ہیں۔
ان دو مصرعوں میں جو نکتہ پوشیدہ تھا وہ یہاں ان مصرعوں میں واضح ہو رہا ہے۔یہ مصرعے موجودہ ادبی منظرنامے کی صحیح عکاسی کرتے ہیں۔اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ادبی سطح پر ہر چہار جانب مکمل طور پر یہی صورت حال بن ہوئی ہے ۔ یہاں تفصیل کی چنداں ضرورت نہیں ” عقل مند را اشارہ کافی باید” اس کے بعد دو استفہامیہ مصرعے ” تمھیں اس سے ملے گا کیا کبھی سوچا ہے تم نے” ڈھیر سارے سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ ان میں نظم نگار کا غصہ ، جھلاہٹ ، درد ، کسک ، ہمدردی ، لگاؤ، دیانت اور فکر کے خوبصورت امتزاج کو بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔
mujhe azad hona hai
اب آگے ” مجھے آزاد ہونا ہے ” کی دوسری تعبیر پیش کی جا رہی ہے۔” تمھیں معلوم ہے اس زندگی کے سارے شعبوں میں سیاست میں ، صحافت میں ، ادب میں صوت و رنگ و چنگ میں دولت کمانے ، سینتنے اور لٹانے میں” یہاں نظم نگار نے زندگی کے سارے شعبوں کی عمومیت ظاہر کر کے سیاست ، صحافت اور ادب کی ” تخصیص ” کی ہے۔ معاصر زندگی کے بالخصوص ان تینوں شعبوں میں انسان ریا و نمود ، عزت و شہرت اور مال و دولت کے ” مایا جال” میں پھنس کر مقام امتیاز پر ممتاز ہونا چاہتا ہے۔اور یہی اس کی حیات عزیز کا ماحصل بھی ہو تا ہے۔ناعاقبت اندیش انسان انجام اور نتائج سے بے خبر و بے بہرہ ہو کر جھوٹی اور سستی شہرت کی چوٹیوں کو سَر کرنا چاہتاہے ۔ حرام خوری کے دلدل میں اس طرح دھنس جاتا ہے کہ اس سے نکلنے کا تصور بھی معدوم ہو جاتا ہے۔” صوت و رنگ و چنگ”کو زندگی کے مذکورہ شعبوں کے علاوہ دیگرشعبے کو علامت کے بطور پیش کیا گیا ہے۔جہاں انسان کو جس سطح پر موقع مل جاتا ہے وہ اپنا کام اور نام پیدا کرنے کے لیے ” بھٹکتی آتما” کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔اگلادو مصرعے ” ہزاروں نام ایسے ہیں کہ جن کے سامنے سورج دیے کی لو ساس لگتا تھا”۔ ” ہزاروں نام ”علامت ہے ان تمام کرداروں کا جو دنیا و ما فیھا سے بے نیاز ہو کر زندگی کے مختلف شعبہ ہائے جات میں عظمت و بلندی ، عزت و شہرت اور مال و ثروت کو یکجا کرنے میں زندگی کے قیمتی شب و روز وقف کر دیتے ہیں۔ مذہبی ، سماجی اور اخلاقی اصول و ضوابط اور اقدار کو پس پشت ڈال کر شہرت کی بلندی پر فائز ہونے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں۔یہ مصرع ” کہ جن کے سامنے سورج دیے کی لو سا لگتا تھا” بہت ہی کارآمد ، معنی خیز اور علامتی ہے۔اس کی تفہیم کی کوشش کی جائے تو ہمارا ذہن دنیا کے مختلف مذاہبوں ، قوموں ، فرقوںاور تہذیبوں کے منفی کرداروں کی طرف رجوع کرتا ہے۔ یہ کردار دنیا کے تقریباًتمام مذاہب کی روایات ، حکایات ، قصے اور کہانیوں کے لازمی جزو ہیں۔دنیا کی مذہبی ، انسانی اور تہذیبی تاریخ شاہد ہے کہ زندگی کی ہر سطح پر مذکورہ خصوصیات (منفی)کے حامل پاکھنڈیوں کا حشر کیا ہوا ہے ؟؟؟ جب ایسے سورماؤں پاکھنڈیوں کا زوال آتا ہے یا عذابِ غیبی میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ بے بس اور مجبورِ محض ہو کر ” کسی ایسے جہانِ بے نشاں میں” جا بستا ہے کہ جس کے تصور سے انسان لرز اٹھتا ہے۔
اب اگلے مصرعوں میں ان پاکھنڈیوں سورماؤں کی نہ صرف حقیقت و اصلیت بیان کی جا رہی ہے بلکہ اس کے نتیجے اور انجام سے بھی روشناس کیا جا رہا ہے۔” مگر کوئی کہاں باقی رہا ، دائم رہا سارے عدم کی راہ کے راہی کسی ایسے جہانِ بے نشاں میں جا بسے جانو ، کسی کا نام تک کوئی نہیں ہوتا ” موت تو ایک اٹل اور تلخ حقیقت ہے اس سے کسی کو مفر کہاں ؟؟ ہر نفسذی روح کو کسی ایسے جہانِ بے نشاں میں بسنا ہے جہاں کسی کا نام و نشاں تک باقی نہیں رہتا۔ باقی رہنے والی چیز تو ”اعمال صالح” ہے۔اب نظم اپنی ارتقائی صورت اختیار کرتے ہوئے کلائمکس نقطۂ عروج کی جانب قدم بڑھا رہی ہے۔ ” یہی سب کچھ میں اکثر سوچتا ہوں اور جب بھی سوچتا ہوں تب مجھے یہ سب فقط کار عبث محسوس ہوتا ہے” مذکورہ تمام پس منظر یعنی بے اعتدالیاں ، عیاریاں و مکاریاں کو دیکھ کر ، سن کر اور اس کا مشاہدہ کرنے کے بعد ” یہ سب فقط کار عبث محسوس ہوتا ہے ” جس کے نتیجے میں ” مرا جی چاہتا ہے تیاگ کر سب کچھ کسی گمنام بستی میں چلا جاؤں جہاں میرے کسی پہچاننے والے کسی بھی جاننے والے کے جانے کا کوئی امکاں نہ ہو اس گوشۂ عزلت میں ، اس پاتا ل میں گمنام ہو جاوں”معاصر منظرنامے کی مسخ شدہ ، کرخت اور کربناک صورت حال کے علی الرغم ” سب کچھ تیاگنے ، کسی گمنام بستی میں چلے جانے اور گوشۂ عزلت و پاتال میں گم ہو جانے ” کا خیال آتا ہے۔صورت حال کے پیش نظر ” جہان بے نشاں” کا مصداق ہونے کی خواہش یا ارادہ نہیں بلکہ گوشۂ عزلت اور گمنام جزیروں کا متلاشی بننے کی تڑپ دکھائی دیتی ہے۔
یہاں غصہ ، جھلاہٹ اور تڑپ بھی ہے اور سکون کی تلاش بھی۔اس ” کارِ عبث ” کی دنیا کو جھیلنے یا اس کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کی سکت اور ہمت نہیں۔ کالی کرتوت کرنے والوں کو نہ ہاتھ سے روکنے کا حوصلہ ہے اور نہ زبان ہی سے کہنے کی قوت۔ یہی وجہ ہے کہ ان کالی کرتوں کو دیکھ کر اور اس سے تنگ آ کر دور بہت دور گوشۂ عزلت اور پاتال میں گم ہونے کی خواہش کا اظہار ملتا ہے۔یہاں ایک اشارہ یہ بھی ملتا ہے کہ ان بے اعتدالیوں ، عیاریوں اور مکاریوں کو روکنے اور انھیں دور کرنے کی انتھک کوشش کی گئی ہو لیکن ناکامی ہاتھ آئی ہو جس کی بنیاد پر ”گوشۂ عزلت اور پاتال ”کو اپنا مسکن بنانے کا ارادہ کیا گیا ہو۔ ان مصرعوں کی قرأت و تفہیم سے اس حدیث کی جانب ذہن کی رسائی ہوتی ہے کہ ‘ اگر تم کوئی برائی دیکھو تو اسے پہلے اپنے ہاتھ سے روکنے کو شش کرو ، اگر ممکن نہ ہو تو زبان سے روکو ، اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو دل میں برا جانو”
اب نظم اپنے مرکزی خیال کو پہنچ رہی ہے جو کہ تیسری اور آخری تعبیر ہے۔” مجھے آزاد ہونا ہے زمانے بھر کی ہر خواہش سے ہررعنائی سے ، جھوٹی نمائش سے” ۔ نظم کا آغاز و ارتقا عموم و خصوص کے تصور سے ہوا تھا لیکن اختتام ” ہر خواہش ، ہر رعنائی اور جھوٹی نمائش” سے ہو رہا ہے۔ان مصرعوں میں لفظ ” ہر” کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔اس لفظ کو علامتی پیکر عطا کیا گیا ہے ۔ یہ علامت زندگی کے ان سارے شعبوں کو محیط ہے جو کذب و افترا ، عیاری و مکاری ، حرام خوری ، خیانت داری اور پراگندگی و بے اعتدالیوں سے عبارت ہے۔اورنظم گو ایسی ہی زندگی سے آزادی کا طلب گار ہے۔یہ مکمل طور پر فکری وتعمیری نظم ہے، جس کا تانا بانا معاصر مرگ پذیر معاشرے سے تیار کیا گیاہے ۔ نظم نگار نے اس آزاد نظم کے توسط سے زندگی کے ان تمام شعبوں کو اندرون میں سمیٹ لیا ہے جہاں مذکورہ بے راہ روی اور بے اعتدالی پائی جاتی ہے۔
اس نظم کی بحر ” بحر ہزج بر وزن مفاعیلن مفاعیلن” ہے جو کہ مترنم اور رواں دواں بحر ہے۔ اس بحر کے استعمال نے نظم کو مزید معتبریت کی سند عطا کی ہے۔نظم کے بیشتر مصرعوں میں رکن کی تکمیل کی گئی ، بعض مصرعوں کے رکن کی تکمیل اگلے مصرعوں میں ہوئی ہے ۔نظم کے صرف ساتویں مصرع میں ایک سبب خفیف” لن” گر کر ” فعولن” میں تبدیل ہو گیا ہے ، یہ کوئی عیب بھی نہیں اور اس سے آہنگ میں بھی کوئی فرق نہیں آیا ہے۔اس نظم کا غالب آہنگ معرا نظمپابند نظم کا ہے۔مصرعوں کا تسلسل و ارتباط قابل توجہ ہے۔ اس نظم کے چند مصرعوں کو ملا کر ایک سانس میں قرأت کرنے سے لطف بھی آتا ہے اور معنی کی تکمیل بھی ہوتی ہے۔اس کے ساتھ ہی موسیقیت و ترنم میں چار چاند لگ جاتا ہے۔
اس نظم کی قرأت و تفہیم کے دوران دو مقامات پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر نظم کا اختتام ان مصرعوں پر ہوتا تب بھی نظم پر کوئی حرف نہیں آتا۔ اول: ” تب مجھے یہ سب فقط کار عبث محسوس ہوتا ہے” اور دوم: ”اس گوشۂ عزلت میں ، اس پاتال میں ، گمنام ہو جاؤں”۔ جب نظم کے مصرعوں کی توسیع کی گئی جو یقیناً بے حد خوبصورت اور معنی خیز ہیں ، اگر اس مقام پروقفہ سکتہ کا التزام کیا جاتا تو تو نظم کا موڈ یا نوعیت ہی کچھ اور ہوتی۔ جب قاری اس مصرع ” مجھے آزاد ہونا ہے زمانے بھر کی ہر خواہش سے ہر رعنائی سے ، جھوٹی نمائش سے” کی قرأت کرتا ہے تو اس میں حرکت و حرارت کا احساس ہوتا ہے کہ سابقہ مصرعوں کا اختتام قدرے سُست اور مدھم موڈ میں ہوا تھا اور اب یہ اچانک ” مجھے آزاد ہونا ہے ” کیوں؟؟؟ یہ مصرع عنوان بھی ہے اور مرکزی خیال بھی۔ اگر اسے ترجیعی ٹیپ کا مصرع بنایا جاتا تو نظم کی قرأت کا لطف دوآتشہ ہو جاتا اور اس کی صوری و معنوی حیثیت دوبالا ہو جاتی۔یہ مصرع ” گمنام ہو جاؤں” کے بعد وقفہسکتہ ہوتا پھر ‘ مجھے آزاد ہونا ہے ‘ تخلیق کیا جاتا اور اس کے بعد پھر سکتہ ہوتا اور دوبارہ اس مصرع کی تکرار ہوتی تو اس کی معنویت نکھر کر صفحۂ قرطاس پربکھر جاتی۔یہ خصوصیت اس آزاد نظم کو نہ صرف ڈھیلے پن سے آزاد کراتی بلکہ نظم گو کی فنی قدرت کاملہ کا بھی ثبوت بہم پہنچاتی۔
Kamran Ghani
کامران غنی قابلِ مبارک باد اور لائقِ ستائش ہیں کہ تعمیری و فکری نظم تخلیق کرنے پر قدرت کاملہ رکھتے ہیں۔ ہیئتی اعتبار سے یہ خالص آزاد نظم ہے جو معرا نظم کا التباس پیدا کرتی ہے۔کہیں کہیں نظم پر کامران کی گرفت ڈھیلی پڑتی نظر آتی ہے اور فنی سقم کا بھی احساس ہوتا ہے ۔ تاہم یہ احساس اس وقت زائل ہوجاتا ہے جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ مجموعی اعتبار سے کامران غنی کی یہ چوتھی نظم ہے اور باعتبارآزاد نظم دوسری ہے ۔اس نظم کی قرأت اور تفہیم کے بعد یقین نہیں ہوتا کہ کیا نظم نگار واقعی صرف چار نظموں کے خالق ہیں۔ مشق و ریاض جاری رہا تو مستقبل قریب میں قارئین و ناقدین کو یکساں طور پر اپنی نظمیہ تخلیقات کی جانب توجہ مرکوز کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور اس کا حلقہ وسیع تر ہوتا چلا جائے گا۔یقینا ان کی نظمیہ تخلیق تابناک مستقبل کی علانیہ ہیں۔