تحریر: طارق حسین بٹ یہ بات انتہائی غور طلب ہے کہ چند دن قبل خیبر پختونخوان کے دارا لحکومت پشاور میں میں ایک ضمنی انتخاب ہوا ہے ،یہ وہی صوبہ ہے جہاں پر پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور یہ وہی شہر ہے جہاں سے مئی ٢٠١٣ میں خود عمران خان بھاری اکثریت سے منتخب ہوئے تھے لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ چند ماہ گزرنے کے بعد اسی شہر میں پی ٹی آئی بری طرح سے پٹ جاتی ہے۔ نیا پاکستان پورے ملک کا مطالبہ ہے لیکن کیا نیا پاکستان خیبر پختونخواہ میں اپنا جلوہ دکھا رہا ہے؟اگر نئے پاکستان کا ہلکا سا جلوہ بھی لوگ خیبر پختونخواہ میں دیکھ لیتے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ لوگ پی ٹی آئی کی جگہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کو ووٹ دیتے۔پی پی پی مئی ٢٠١٣ کے انتخابات میں سب سے کمزور جماعت تھی لیکن آج حالت یہ ہے کہ کمزور ترین جماعت تحریکِ انصاف کو پیچھے دھکیل رہی ہے۔ کم از کم میرے لئے تو پی پی پی کا یوں بائونس بیک کرنا حیران کن تھا۔
مجھے یہ توقع نہیں تھی کہ پی پی پی پشاور ٨ (آٹھ) سے اتنے زیادہ ووٹ حاصل کر لے گی۔یہ وہی صوبائی حلقہ ہے جہاں پر عمران خان نے دو جلسوں سے خطاب بھی کیا تھالہذا ہونا تو یہ چائیے تھا کہ تحریکِ انساف وہاں سے بھاری اکثریت سے جیت جاتی لیکن نتائج اس کے بالکل بر عکس آئے ہیں۔مولا فضل الرحمان کی جمیعت العلمائے اسلام تیسرے نمبر پر ہے جبکہ تحریکِ انصاف اس سے بھی پیچھے کھڑی ہے۔مولانا کو مختلف القابات سے پکارنا تحریکِ انصاف کا شیوہ ہے جو کہ درست نہیں ہے۔ اخلاقی حدودو قید کا تقاضہ ہے کہ کسی کا نام نہ بگاڑا جائے ۔ مولانا فض ا لر حمان عالمِ دین ہیں اور ایک عالمِ دین کو بھی سب کی طرح سیاست کرنے کا حق حاصل ہے۔ہماری سیاست میں دوسروں کو یہودیوں کا یا ہندوئوں کا ایجنٹ کہنا معمول کے واقعات ہیں لیکن کسی کا نام بگاڑناغیر اخلاقی فعل ہے۔باچہ خان کو ساری عمر لوگ سرحدی گاندھی کہتے رہے اور انھیں نہرو خاندان کا ایجنٹ کہتے رہے جس سے باچہ خان اور ولی خان نے ہمیشہ انکار کیا۔
اب اگر مولانا کسی کو امریکہ یا یہودیوں کا ایجنٹ کہتے ہیں تو تحریکِ انصاف بھی مولانا کو اسی طرح کے القابات سے نواز سکتی ہے لیکن مولانا کو مولانا ڈیزل کہنا انتہائی غیر اخلاقی حرکت ہے جس سے اجتناب ضروری ہے۔شائد ہمارے سیاست دانوں کے یہی غیر لچک دار رویے ہیں جو انھیں ایک دوسرے سے بہت دور کر دیتے ہیں اور یوں قومی یکجہتی پارہ پارہ ہوتی رہتی ہے۔مولانا فضل الر حمان ایک عملی سیاست دان ہیں اور انھیں اپنی جماعت کے لئے لائحہ ِ عمل ترتیب دینے کا مکمل حق حا صل ہے بالکل ویسے ہی جیسے پی ٹی آئی کو اپنی سب سے بڑی ناقد جماعت پی پی پی کے ساتھ اتحاد کرنے کا حق حاصل ہے۔یہ الگ بات کہ جب کوئی اتحاد انسانی نظریات،کمٹمنٹ اور خیالات سے تال میل نہیں کھاتا تو اتحاد کرنے والی جماعت نقصا ن اٹھاتی ہے۔پی پی پی سے اتحاد میں پی پی پی کو کچھ نہیں کھونا کیونکہ وہ تو پہلے ہی سب کچھ کھو چکی ہے۔نقصان کا احتمال تحریکِ انصاف کو ہے کیونکہ آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن کا سب سے زیادہ شور عمران خان نے ہی ڈا لا تھا۔میری ذا تی رائے ہے کہ عمران خان سیاست کے مروجہ اصولوں سے نا بلد ہیں؟
Politics
انھیں یہ علم نہیں کہ سیاست کسی وقت کس موقف کو اپنانے کا تقاضہ کرتی ہے؟اگر کوئی سیاستدان اپنے کل کے سب سے برے مخالف کا ہاتھ پکڑ کر اپنے نئے حریف کے خلاف میدان میں نکل آئے تو اس کے معنی یہی ہوئے کہ اس نے جو الزامات ماضی اپنے مخالف پر لگائے تھے وہ غلط تھے اور وہ اب اس سے تائب ہو چکا ہے ،یا پھر اس نے اپنے نئے حریف کو شکست دینے کے لئے اپنے اصولوں کا سودا کر لیا ہے۔
انتخابات کسی بھی جماعت کی مقبولیت کا پیمانہ ہوتے ہیں۔،یہ سچ ہے کہ پشاور کاموجودہ انتخاب ایک صوبائی حلقے تک محدود تھا لیکن اس سے یہ تو نتیجہ تو اخذ کیا جا سکتا ہے کہ لوگو ں نے پاناما لیکس کے باوجود مسلم لیگ (ن) کو ووٹ ڈ الے ہیںلہذا ثابت ہوا کہ لوگوں کے لئے پاناما لیکس اس طرح اہم نہیں ہے جس طرح اسے میڈیا دکھانے کی کوشش کر رہا ہے،پانا ما لیکس کے شورو غوغہ میں یہ پہلا انتخاب تھا اور وہ انتخاب بھی خیبر پختونخوان کے سب سے اہم شہر پشاور میں تھا لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ (ن) تحریکِ انصاف اور دوسری جماعتوں کو بچھاڑنے میں کامیاب ہو گئی ہے لہذا سیاسی میدان میں سب کو اپنی شکست تسلیم کر لینی چائیے۔اب جو جماعت میڈیا کے دن رات کے پروپیگنڈے کے باوجود بھی الیکشن جیت جائے تو پھر اپوزیشن کو یہ باور کر لینا چائیے کہ پاکستانی عوام پاناما لیکس کے باوجود میاں محمد نواز شریف کے ساتھ ہیں ۔اگر مسلم لیگ (ن) یہ الیکشن پنجاب میں جیتتی تو اس پر دھاندلی کا الزام لگایا جا سکتا تھا لیکن یہ تو پشاور کا الیکشن تھا جہاں تحریکِ انصاف کی حکومت ہے۔
اب ان نتائج کے بعد اگر ہمارے سیاستدان یہ سمجھ رہے ہیں کہ پشاور کی فتح کے بعد میاں نواز شریف ایک تابع فرمان بچے کی طرح استعفی دے کر ملک سے باہر چلے جائیں گئے تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔پشاور کے الیکشن نے میاں محمد نواز شریف کو نئی زندگی دی ہے اور ان میں جو نیا اعتماد آیا ہے وہ اپوزیشن کے عزائم پر اوس گرانے کے لئے کافی ہوگا ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عمران خان ایک دیانت دار انسان ہیں اور شفافیت پریقین رکھتے ہیں لیکن اس کے معنی یہ تو کہیں بھی نہیں کہ جھنیں ماضی میں سب سے کرپٹ انسان کہا جاتا تھا وہ اسی کا ہاتھ تھام کر میاں محمد نواز شریف پر چڑھائی کر دیں۔اگر آج یہ معجزہ رونما ہو سکتا ہے کہ آصف علی زرداری کی پی پی پی تحریکِ انصاف کی نئی محبت بن سکتی ہے تو کل کو اگر پی پی پی ایک دفعہ پھر حکومت میں آ جاتی ہے تو عمران خان میاں محمد نواز شریف کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر ایک دفعہ پھر پی پی پی کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں نکل سکتے ہیں ۔ہماراقومی المیہ یہ ہے کہ ہمیں اصولوں کی بجائے ذ اتی انا بہت عزیز ہے لہذا ہم نے اپنی ذ اتی انا کو اصولوں پر فوقیت دے رکھی ہے۔
Accountability
کرپشن کا خاتمہ پوری قوم کی متفقہ حواہش ہے لیکن اس کے معنی یہ کہاں ہیں کہ پاناما لیکس والے ہی صرف مجرم ہیں لہذا صرف انہی کی گردن ناپی جائے۔وہ جھنوں نے قرضے معاف کروائے،جھنوں نے منی لانڈرنگ کی،جھنوں ںنے ٹیکس چوری کیا، جھنوں نے کمیشن کھائے،جھنوں نے ٹیکسوں میں گھپلے کئے، جھنوں نے قومی خزانے کو بے دریغ لوٹا،انھیں کیسے بخش دیا جائے؟۔سوال میاں محمد نواز شریف یا ان کی فیملی کا نہیں ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی اشرافیہ کا کبھی احتساب ہو پائے گا؟اشرافیہ حیلے بہانوں سے احتساب سے دامن بچاتی رہی ہے لہذا وہ اب بھی احتساب کے شکنجے سے کسی نہ کسی طرح سے نکل جائیگی ۔پاکستانیوں کی پہلی ترجیح یہ ہے کہ یہاں پر ایک ایسا قانونی نظام وضع کیا جائے جو سب پر بلا امتیاز لاگو ہو اور اس میںکسی کو استثنی حا صل نہ ہو۔کسی کی امارت اور کسی کی غربت قانون کی عملداری میں سدِ راہ نہ ہو ۔مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس میںبڑا طوفان اٹھا تھا۔ایسے لگ رہاتھا کہ جنرل پرویز مشرف انصاف کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر اپنے جرموں کی سزا بھگتے گا لیکن ایسا ہونے سے پہلے پہلے مقتدر حلقوں کی مداخلت سے اسے علاج کے بہانے دبئی رخصت کر دیا گیا۔
چلو وہ تو جنرل پرویز مشرف تھا اورملک کا سب سے طاقتور ادارہ اس کی پشت پر کھڑا تھا لیکن ایان علی کے ساتھ کیا ہوا؟اس کے ہاں سے جو لاکھوں ڈالر دبئی جاتے ہوئے پکڑے گئے تھے اس پر قانون کی عملداری کہاں چلی گئی ہے؟اس کے ساتھ جیل میں جس طرح کا امتیازی سلوک روا رکھا گیا تھا اور وہ جس طرح سے بن ٹھن کو عد الت میں حاضر ہوتی تھی اس سے تو یہی تاثر ملتا ہے کہ جو حکمران اشرافیہ کے قریب ہوتا ہے قانون اسے چھونے کی ہمت نہیں کر سکتا۔آج لی کی ضمانت ہو چکی ہے اور وہ مکمل طور پر آزاد ہے اور اس کے سائیں اسے محبت سے گلے لگاتے ہوئے فخر محسوس کررہے ہیں۔پاناما لیکس کا مقصد اگر کسی کو اقتدار سے محروم کر کے خود مسندِ اقتدار پر بیٹھنا ہو تو پھر ہمیں تو عوام کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن اگر پاناما لیکس کے ایشو سے نئی قانون سازی کر کے کرپشن اور لوٹ مار کے کلچر کو روکنا ہے تو اس سوچ کوپوری قوم کی مکمل حمائت حا صل ہے۔،۔ ۔۔۔،،،،،۔۔۔،،،،،،۔۔۔،،،،،،۔۔۔۔