تحریر: رشید احمد نعیم پیارے بچو! بہت پرانے وقتوں کی بات ہے ۔”ملک بخارا ”کا بادشاہ سخت بیمار ہو گیا۔شاہی حکیموں اور طبیبوں نے بہت علاج کیا مگر بادشاہ سلامت کو آرام نہ آیا۔ چونکہ بادشاہ بہت رحم دل ،انصاف پسند اور اپنی رعایا کا خیال رکھنے والا تھا اس لیے بادشاہ کی بیماری کی وجہ سے ہر شخص پریشان تھا ۔ ملک بھر میں اعلان کروا دیا گیا کہ جو شخص بادشاہ کا کامیاب علاج کرے گا اور اس کے علاج کے نتیجے میں بادشاہ سلامت تندرست ہو جائیں گے تو اسے منہ مانگا انعام دیا جاے گا۔ یہ اعلان سن کر دوردراز سے حکیم آنے لگے مگر کسی کو بھی بادشاہ کی بیماری کا پتہ نہ چل سکا۔ چندروز اسی کشمکش میں گزر گئے۔ بڑے بڑے سیانے ،سمجھدار اور تجربہ کار حکیم و طبیب آے مگر ناکام رہے۔آخر ایک روز دور کے علاقے سے ایک سترہ سالہ نوجوان آیا اور اس نے بادشاہ کاعلاج کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ وزراء اس لڑکے کو دیکھ کر پہلے تو بہت حیران ہوئے مگر پھر قسمت آزمائی کے طور پر اسے اجازت دے دی۔ نوجوان نے بادشاہ کو دیکھا۔
ان کی بیماری کا اندازہ لگایا اور پھر علاج شروع کر دیا۔ قدرت خدا کی دیکھیے کہ اس نوجوان کے علاج سے بادشاہ سلامت آہستہ آہستہ تندرست ہونے لگے۔ہر روز بادشاہ کی حالت میں بہتری آنے لگی۔جوں جوں دن گزرتے گئے بادشاہ کی حالت بہتر ہوتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ کچھ ہی دنوں میں بادشاہ سلامت بالکل ٹھیک ہو گئے اور خدا کے فضل و کرم سے چلنے پھرنے لگے۔بادشاہ سلامت اس نوجوان حکیم کی فہم و فراست اور حکمت و لیاقت سے بہت متاثر ہوئے جس نے بڑے بڑے تجربہ کار حکیموں کو بھی مات دے دی۔بادشاہ کی صحت یابی پر مملکت کا ہر شہری بہت خوش تھا۔آخر ایک روز بادشاہ نے اس نو جوان کو دربار میں بلایا اور وعدے کے مطابق اس سے پوچھا کہ” نوجوان طبیب ! تمہارے علاج سے اللہ نے ہمیں صحت و سلامتی عطا کی۔ بتائو کیا مانگتے ہو ؟؟؟ میرے خزانے حاضر ہیں ۔جو مانگو گے انعام میں تمہیں دیا جاے گا” بادشاہ کی بات سن کر پہلے تو وہ نوجوان کچھ دیر خاموش رہا۔
Kingdem
دربار میں موجود ہر امیر ،وزیر ، اور عام درباری یہی سوچ رہا تھا کہ یہ لڑکا ہیرے جوہرات، سونا چاندی یا محل و باغات مانگے گا مگر وہ سب نوجوان کا جواب سن کر حیران و پریشان رہ گئے۔بادشاہ کے جواب میں لڑکا آگے بڑھا اور نہایت ادب و احترام سے بولا” بادشاہ سلامت! آپ مُجھے اپنے کُتب خانے میں سے چند کتابیں پڑھنے کی اجازت دے دیں۔یہی میرا انعام ہو گا” لڑکے کی یہ بات سن کر سب درباری تو پہلے ہی حیران رہ گئے تھے خود بادشاہ کو بھی بہت حیرت ہوئی تاہم بادشاہ خود بڑے کتاب دوست تھے اور ان کے کتب خانے میں ہزاروں لاکھوں کتابیں پڑھنے کے لیے موجود تھیں۔ بادشاہ فوراً جان گئے کہ یہ نوجوان علم کا شوق رکھتا ہے اور اسی شوق کی وجہ سے اس نے بڑے بڑ ے انعام و اکرام کو ٹھکرا کر کتابوں کے مطالعے کی درخواست کی ہے۔ ویسے بھی ہیرے کی پہچان صرف جوہری کر سکتا ہے اور ہیرے کی قدرو منزلت اور اس کی قیمت صرف صرف اور جوہری جان سکتا ہے۔ بادشاہ سے بڑھ کر جوہری کے احساسات کون رکھ سکتا۔
بادشاہ سمجھ گیا کہ یہ ایک انمول ہیرا ہے۔ اس کی قدر کرنی چایئے۔بادشاہ اس نوجوان حکیم کے شوق اور علم کی طلب دیکھ کر بہت خوش ہوئے اوراس نوجوان کو نہ صرف پوری آزادی کے ساتھ کتب خانے میں آ کر مطالعے کی اجازت دے دی بلکہ اس کے تمام اخراجات و کفالت کے لیے سرکاری انتظام بھی کر دیا۔اس طرح یہ نوجوان مزید علم حاصل کرنے کے لیے کتب خانے میں آنے لگااور کتابوں کے مطالعے سے علم کی پیاس بجھانے لگا۔پیارے بچو! اب آپ یہ بھی جاننا چاہو گے کہ یہ لائق فائق نوجوان کون تھا َ؟؟؟ یہ نوجوان ، جسے علم حاصل کرنے اور کتابیں پڑھنے کا اس قدر شوق تھا کہ اس نے ہیرے جوہرات اور سونے چاندی کی بجائے کتابوں کے مطالعے کی اجازت مانگی۔ بعد میں بڑا نامور حکیم اور سائنسدان بنا ، اتنا عظیم کہ آج دنیا اس کی تحقیقات اور کتابوں سے استفادہ کر رہی ہے ۔ اس شہرہ آفاق طبیب کو انسانی تاریخ ۔حکیم بو علی سینا”کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔
Rashid Ahmad Naeem
تحریر: رشید احمد نعیم سینئر ممبر کالمسٹ کونسل آف پاکستان rasheed03014033622@gmail.com