تحریر:۔ ڈاکٹر تصور حسین مرزا پاناما لیکس کرپٹ اور بدعنوان سیاستدانوں ، بیوکریٹس اور تاجروں کے لئے قدرت کی طرف سے ” پھندا ” ہے۔ ایک طرف عوام کو” اپنے اپنے مسیحا”کا اصل روپ وہ بھی ” میک اپ ” کے بغیر نظر آگیا ہے ، دوسری طرف ملکی خزانے کو ” باپ دادا” کی جائداد سمجھ کر لوٹ کھسوٹ کرنے والے” قومی مجرموں’ کی اصلیت کا پردہ چاک ہو گیا ہے۔خبروں کے مطابق:۔نواز شریف کے بیٹے حسین نواز شریف نے شریف خاندان کی ‘آف شور کمپنیوں’ کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیرون ملک کمپنیاں ان کی ہیں، ‘اس میں کچھ غلط نہیں ہے، نہ ہم نے اسے کبھی چھپایا ہے اور نہ ہی ہمیں چھپانے کی ضرورت ہے’۔ پاناما کی لاء فرم موزیک فونسیکا کی جمع کردہ ان خفیہ معلومات کے اجراء کو تاریخ کا سب سے بڑا انکشاف قرار دیا جا رہا ہے۔ ان دستاویزات کی تعداد ایک کروڑ دس لاکھ ہیں۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاناما دستاویزات میں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کے تین بچوں، مریم نواز شریف جنھیں نواز شریف کا سیاسی جانشین کہا جاتا ہے اور حسن اور حسین نواز شریف شامل ہیں۔ پاناما دستاویزات کے مطابق وہ آف شور کمپنیوں کے ذریعے لندن میں پراپرٹی کے مالک ہیں۔
‘انڈیپنڈنٹ سینٹر فار انوسٹی گیٹیو رپورٹنگ ان پاکستان’ (سی آئی آر پی) کے رکن عمر چیمہ جنہوں نے پاناما دستاویزات کے لیے پاکستان سے رپورٹنگ کی ہے وہ اس حوالے سے کہتے ہیں،”خود نواز شریف بیرون ملک کمپنیوں کے مالک نہیں ہیں، تاہم یہ کمپنیاں ان کے بچوں کی ملکیت ہونا بھی سوالات اٹھاتی ہے۔”
اپوزیشن لیڈر اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، جو کافی عرصے سے شریف خاندان پر مالی بدعنوانیوں کا الزام عائد کرتے رہے ہیں، نے شریف خاندان کے بارے میں پاناما لیکس کے انکشافات پر ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا، ”شریف خاندان کے بارے میں ہمارا موقف درست ثابت ہو گیا ہے۔ قومی احتساب بیورو، فیڈرل بورڈ آف ریوینیو اور الیکشن کیمشن کو شریف خاندان کے خلاف فوری ایکشن لینا چاہیے۔”
Hussain Nawaz
دوسری جانب وزیراعظم نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے جیو نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے خاندان نے کچھ بھی غلط نہیں کیا۔ انہوں نے کہا، ”بیرون ملک اپارٹمنٹس بھی ان کے ہیں اور کمپنیاں بھی۔ اس میں کچھ غلط نہیں ہے، نہ ہم نے اسے کبھی چھپایا ہے اور نہ ہی ہمیں چھپانے کی ضرورت ہے۔” انہوں نے اپنے خاندان کا دفاع کرتے ہوئے مزید کہا، ”یہ برطانیہ اور دیگر ممالک کے قانون کے مطابق ایک قانونی طریقہ ہے تاکہ ‘آف شور کمپنیوں’ کے تحت غیر ضروری ٹیکس سے بچا جا سکے۔
واضح رہے کہ حسین نواز سن 1992 میں پاکستان چھوڑ گئے تھے، لہذا وہ پاکستان کے رہائشی نہیں ہیں۔ اس حوالے سے حسین نواز کا کہنا ہے، ”اگر آپ 138 دنوں سے زائد پاکستان سے باہر رہیں تو آپ پر اپنے اثاثے ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، ہم اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر کسی بھی عدالت یا تحقیقاتی ادارے کے آگے پیش کرتے ہیں۔”
مالی تجزیہ کار علی نادر نے اے ایف پی کو اس حوالے سے بتایا کہ بہت سے کیسز میں آف شور کمپنیوں کا استعمال قانونی طور پر جائز ہوتا ہے تاہم پاناما لیکس کے پیش نظر بہت سی کاروباری اور سیاسی شخصیات سے اپنی بیرون ملک کمپنیوں کو راز میں رکھنے پر ضرور سوال پوچھے جائیں گے کیوں کہ اب عالمی سطح پر منی لانڈرنگ، مالی بد عنوانیوں، اور ٹیکس چوری پر بہت بات ہو رہی ہے۔
Pervaiz Rashid
پاناما لیکس سے بیرون ملک پیسے رکھنے سے متعلق عالمی سطح پر ایک بحث کا آغاز کر دیا ہے۔ ان دستاویزات میں کئی سیاسی شخصیات، کھلاڑیوں اور انڈر ورلڈ کے اراکین کی سمندر پار ممالک مالی سرگرمیوں کے بارے میں انکشافات کیے گئے ہیں۔ وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نوازشریف اور وزیر اعلی شہبازشریف کا ملک سے باہر کوئی پیسہ نہیں ہے۔ پاناما دستاویزات میں نوازشریف اور شہبازشریف کی سمندر پار جائیداد کا ذکرنہیں۔ نواز شریف کے بچے لاکھوں بچوں کی طرح بیرون ملک کاروبار کر رہے ہیں۔
بات تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ ہمارے ملک کا ہر پیدا ہونے والا بچہ کتنے روپے کا مقروض ہے۔ ہر روز ہمارا ملک مقروض سے مقروض ہوتا جا رہا ہے اور ہمارے سیاستدان خوشحال اور طاقتور۔ہمارے ملک کا ہرعام آدمی دن بدن کمزور ہوتا جارہا ہے اور ہمارے سیاستدان دن بدن دولت مند ہوتے جا رہے۔ہمارے ملک میں بے روزگاری،لوڈشیڈنگ اور مہنگائی میں اس قدر اضافہ ہو چکا ہے کہ اس پراس پر کنڑول کرنا کسی بھی حکومت کے بس کی بات نہیں۔وہ اس لئے کہ کوئی بھی حکمران ملک کو سنوارنے نہیں آتا بلکہ اس کو لوٹنے اور اس کی عوام کو پریشانیوں اور بے روزگاری کے جال میں پھنسانے کے لئے آتے ہیں۔
ہمارے ملک کے بڑے بڑے سیاستدانوں کے بچوں کی آف شور کمپنیوں چل رہی ہیں۔اگر یہی سرمایہ ہم پاکستان میں لگائیں تو ہمار ا ملک کتنی ترقی کرے گا۔ اور ہمارے ملک میں خوشحالی آئے گی۔ اور دوسری بات ہمارے ملک کے بے شمار ایسے سیاستدان ہیں جو جب سیاست کے میدان میں آئے تو غریب اور آج کروڑپتی۔یہ کیسے ہو گیا۔کیا ان کا کوئی احتساب نہیں کرے گا۔جب ان سیاستدانوں کو اقتدار ملتا ہے تو ان کے بچے تو بیرون ملک چلے جاتے ہیں اور ہمارے بچے ان کی لگائی گئی امیدوں کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں اور اپنا مستقبل تباہ کر بیٹھتے ہیں۔اور کرپٹ سیاستدانوں کے بچے جنھوں نے ملک اور اس کی عوام کو لوٹا ہوتا ہے وہ ملک کے واث بن جاتے ہیں۔پاکستانیوں اٹھو اور ان کرپٹ سیاستدانوں کے احتساب کے لئے ان کے خلاف آواز بلند کرو، اگر ایسا نہ ہوا تو یہ سب سیاستدان مل کر چار دن کا واہ ویلہ کر کے سب کچھ گول مال کر جائیں گے۔اوران کا احتساب نہیں ہو سکے گا۔
Mamnoon Hussain
صدرِمملکت محترم المقام عزت مآب جناب ممنون حسین صاحب نے بھی ایک موقع پر اپنے بڑے منصب اور بڑے منہ سے پانامالیکس کے حوالے سے یہ بڑی بات کہہ دی ہے کہ”پانامالیکس قدرت کی لاٹھی ہے، بدعنوان پکڑمیں آنے والے ہیں،کچھ ابھی کچھ ایک سال کے دوران پکڑے جائیںگے،مجرموں کو سزاملنے تک مُلک درست نہیں ہوگااور ایسی بہت سی چونکا دینے والی باتیں کہیں ہیں۔
لگتا ہے امریکہ آئی ایم ایف اور دنیا کے ٹھیکیداروں نے مل کر پلان بنایا ہوا ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے جنگی سازو سامان اور جنگی اخراجات سے سُپرپاور سمیت یورپ مالی طور پر کنگال ہو رہے ہیں ، یعنی ڈفالٹر ہیں ، اور جو پیسہ دنیا بھر کے چور حکمرانوں نے اپنی اپنی عوام کا خون پسینہ نچوڑ کر آف شور کمپنیوں میں لگایا ہیں اس کو ” ہڑپ ” کرنے کے لئے پانامالیکس کوتیار کیا گیا ہے تا کہ دنیا بھر کے حکمرونوں کی غیر قانونی” آف شور”کو ضبط کیا جائے۔یہ بات یقینی ہے کہ قومی چور ی” آف شور” کو کبھی بھی تسلیم نہیں کریں گئے ، اگر ہمارے حکمران تسلیم کرتے ہیں تو پھر ”عوام ” ان کو تسلیم نہیں کرتے ، اگرحکمران ” آف شور کمپنیاں” تسلیم نہیں کرتے تو پھر ” دنیا کے سُپر پاورز”ممالک ان ” آف شور”کمپنیوں کا پیسہ کھانے کا ”قانونی جواز ”دنیا کو دیکھانے کا ” فن ” پیش کلریں گئے۔ اس طرح ہمارے پیسے کا وہ استعمال کر سکیں گئے۔
اس کو کہتے ہیں پانامالیکس کے ” کرشمے ”قوم کے لئے ایک خوشی کی بات یہ بھی ہے کہ پاکستانی سپاسالار محترم جناب چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے پانامالیکس اور آف شور کمپنیوں کے تمام پاکستانی اداکاروں کو ڈرامہ بند کرنے کا حکم دے دیا ہے، دعا ہے اللہ پاک مردِ مجاہد جنرل راحیل شریف کو دشمنوں کے حسد سے بچا کر ساری زندگی اسلامی جموریہ پاکستان کی خدمت کرنے کا موقع دے آمین تا کہ آئدہ کوئی پانامالیکس ۔۔۔۔۔ کوئی آف شور کمپنیوں والہ قصہ دہرا نہ سکے۔