کابل (جیوڈیسک) کابل اور اسلام آباد کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ اعتماد کا فقدان ہے افغانستان میں قیام امن کے لیے چار ملکی مصالحتی گروپ کا پانچواں اجلاس اٹھارہ مئی کو اسلام آباد میں منعقد ہونے کا امکان ہے۔
یہ اجلاس کابل میں گزشتہ ماہ طالبان کے خودکش حملے اور اس کے بعد افغان صدر اشرف غنی کے اس خطاب کے بعد پہلا اجلاس ہوگا جس میں افغان صدر نے کہا تھا کہ وہ ’پاکستان سے طالبان کو مذاکرات پر راضی کرنے کی توقع نہیں رکھتے‘۔بعض ذرائع کے مطابق کابل حملے کے بعد امریکہ کا اسلام آباد پر دباؤ تھا کہ افغان طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر آمادہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالیں اور اسی دباؤ کی بناء پر افغان طالبان کا ایک وفد عین اُس دن پاکستان پہنچا جب افغان صدر اشرف غنی نے افغان پارلیمنٹ میں یہی بیان دیا۔
افغانستان اور پاکستان کے تعلقات پرگہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کے مطابق افغان صدر کے اسی بیان کے بعد یہ مذاکرات نہ صرف تعطل کا شکار ہوئے بلکہ پاکستان نے اس وفد کے آنے کی کوئی باضابطہ تصدیق تک نہیں کی اور تجزیہ نگاروں کے مطابق پردے کے پیچھے اسلام آباد اور کابل کے درمیان فاصلے بڑھ گئے۔افغان طالبان نے اپنا وفد پاکستان آنے کی تائید تو کی لیکن پھر اُس کے بعد کیا ہوا؟ اس وفد نے کس کس سے ملاقاتیں کیں؟ کہاں کہاں گئے؟ کچھ حاصل ہوا یا پھرمحظ شاپنگ پر ہی اکتفا کرلیا۔ کسی نے کچھ نہیں کہا۔ دونوں ممالک کے درمیان فوجی، سیاسی اور عوامی سطح پر باہمی رابطوں کا سلسلہ ضروری ہے پاکستان میں متعین افغان سفیر ڈاکٹر حضرت عمر زاخیلوال کے مطابق کابل اور اسلام آباد کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ اعتماد کا فقدان ہے۔اعتماد کا یہ فقدان دونوں ممالک میں دہشت گردی کے کسی بھی بڑے واقعے کے بعد اور بھی بڑھ جاتا ہے۔
ماضی قریب میں اے پی ایس حملے کے بعد پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا دورہ کابل اور کابل میں گزشتہ ماہ ہونے والے خودکش حملے کے بعد افغان صدر اشرف غنی کی پاکستان سے ناامیدی کے بارے میں بیان اس کی صرف ایک مثال ہے۔کابل میں پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمند نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ افغانستان حکومت میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو وہاں دہشت گردی کے ہر حملے اور طالبان شدت پسندی کے لیے پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ رستم شاہ مہمند کےمطابق جب تک ایسے شکوک و شبہات ہوں گے تب تک کابل اوراسلام آباد کا ایک دوسرے پر اعتماد کرنا ممکن نہیں۔
اُدھر پاکستان کے سابق وزیرداخلہ آفتاب احمدخان شیرپاؤ نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان اعتماد کا یہ فقدان تب ختم نہیں ہوگا جب تک دونوں ممالک کے درمیان فوجی، سیاسی اور عوامی سطح پر باہمی رابطوں کا سلسلہ شروع نہیں ہوتا۔