پاکستان کا سی پیک منصوبہ امریکہ اور بھارت کو ہضم نہیں ہو رہا ہے

Parliament

Parliament

تحریر : محمد اشفاق راجا
کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ قانون سازی کے ذریعے بیرون ملک سیاسی اور مذہبی شاخوں پر پابندی لگا دے اور انکی مسلم لیگی، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی یا جمعیت العلمائے پاکستان وغیرہ کے بجائے صرف پاکستانی قومیت کی شناخت باقی رکھی جائے۔ علی ھذا القیاس دینی جماعتوں پر بھی فرض عاید ہوتا ہے کہ وہ بیرون ملک دیو بندی، بریلوی اور اہل حدیث کے بجائے صرف اسلام کی طرف لوگوں کو دعوت دیں جس کیلئے مغربی معاشروں کی فضا بے حد ساز گار ہے۔ ہم اندرون ملک فرقہ واریت سے بے حد نقصان اٹھا چکے ہیں اس لیے اب خدارا بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کو صرف ”مسلمان” رہنے دیا جائے تا کہ انکی شناخت صرف ”مسلمان” اور ”پاکستانیت” ہی رہے۔

”پانامہ پیپرز” کے مسئلہ کو پاکستان کی سیاسی جماعتیں ذاتی دشمنی کی سطح پر لے آئی ہیں۔ اس معاملہ میں تحریک انصاف کے عمران خان سب سے آگے ہیں۔ شیخ رشید اور چوہدری پرویز الٰہی بھی ان کے ساتھ ہیں۔ ایسا لگتا ہے ان حضرات کو ”نواز شریف فوبیا” کی بیماری لاحق ہو گئی ہے۔ راقم الحروف کا تعلق میاں صاحب کی سیاسی جماعت سے نہیں لیکن حق اور انصاف کی بات یہ ہے کہ جب میاں صاحب نے اپوزیشن کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے چیف جسٹس کو آزادانہ تحقیقات کیلئے خط لکھ دیا ہے تو پھر یہ اچھل کود سمجھ سے بالا تر ہے۔

قبلہ عمران خان کی سیاسی اٹھان کا حقیقی آغاز 2011 کے مینار پاکستان کے اجتماع عام سے ہوا۔ قوم کا سنجیدہ طبقہ محسوس کر رہا تھا کہ باریاں لگانے والوں سے ہٹ کر ایک تیسرے سیاسی آپشن کی طرف رجوع کرنا نہایت خوشگوار تجربہ ہوگا۔ عمران خان نے بہت محنت کی لیکن وہ وزیراعظم بننے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ حقیقت پسندانہ سوچ کا تقاضا یہ تھا کہ جمہوری روایات کیمطابق وہ عوام کو اپنے منشور سے متفق بنانے کا کام جاری رکھتے۔ انکے حصے میں ”کے پی کے” کی حکومت آئی۔

Imran khan

Imran khan

عمران خان چاہتے تو اس صوبہ کو باقی تمام ممالک کیلئے رول ماڈل بنا دیتے لیکن انہوں نے دھاندلی کا راگ اس بلند آہنگی سے الاپا کہ حکومت کو انتخابات کی تحقیقات کیلئے ”جوڈیشل کمیشن” تشکیل کرنا پڑا۔ عمران خان نے اس پر قناعت نہ کی اور اسلام آباد میں تاریخی دھرنا دیا۔ وہ اپنی تقریروں میں ایمپائر کی انگلی اٹھ جانے کا بار بار تذکرہ کر کے فوج کو مداخلت کی ترغیب دیتے رہے لیکن فوج بھی مدد کو نہ آئی۔ جوڈیشل کمیشن کے تحقیقاتی نتائج میں سب الزمات جھوٹ نکلے البتہ اسپیکر اسمبلی ایاز صادق کی نشست پر دوبارہ انتخابات کا حکم دیا۔ یہ انتخابات بھی عمران خان ہار گئے اور وہ بالآخر وہ اپنی شادی کی خوشخبری سنا کر واپس اسی ”کرپٹ اسمبلی” میں پہنچ گئے۔ حالات کے اس تناظر میں ”پانامہ پیپرز” کا مسئلہ اٹھا تو موقع کو غنیمت جانتے ہوئے عمران خان نے دوبارہ سڑکوں کی رونقیں بحال کر دیں۔ پہلے ”اسلام آباد” میں جلسہ عام کیا اور پھر ”چیئرنگ کراس لاہور” کو شرف دیدار بخشا۔

انہوں نے مردو زن کے آزادانہ اختلاط اور رقص و سرود کا کلچر دیا جو ہماری ملی روایات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ عمران خان میاں نواز شریف پر تنقید کرتے ہیں بلکہ ان کی نقلیں اتارتے ہیں جو ایک غیر سنجیدہ فعل ہے اور کسی سیاسی لیڈر کو زیب نہیں دیتا ۔ سنجیدہ سوال یہ ہے کہ جناب عمران خان کسی طرح وزارت عظمیٰ کا تاج اپنے سر پر سجا لیں۔ جمہوری ملک ہونے کی حیثیت سے ہمارے ملک کا آئین ہے جس کی رو سے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنیوالے کو وزارت عظمی مل سکتی ہے۔ اگر غیر آئینی طریقہ سے میاں صاحب کی حکومت ختم کی جاتی ہے تو سوچنے کا مقام ہے کہ انکے ہاتھ کیا آئیگا۔

بظاہر فوج کی مدد کے بغیر ایسا ہونا ممکن نہیں اور اگر خدانخواستہ ایسا حادثہ رونما ہو جائے تو پاکستان کی سالمیت کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ عمران خان کیلئے صحیح راہ عمل یہی ہے کہ وہ آئندہ انتخابات تک صبر و تحمل سے انتظار کریں۔ اگر وہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو وزیراعظم بن جائینگے جس کی خواہش انکے دل و دماغ میں ہے۔”پانامہ پیپرز” کے حوالے سے قوم کے دانش ور طبقہ کو شدید تحفظات لاحق ہیں۔ پاکستان کا سی پیک منصوبہ امریکہ اور بھارت کو ہضم نہیں ہو رہا ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام دونوں ملکوں کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے۔ شبہات جنم لیتے ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ ممالک پاکستان کو انارکی اور خانہ جنگی کی طرف دھکیل کر اسے عدم استحکام سے دوچار کرنے کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔ پاکستان ماضی میں بھی اسی طرح کے حوادث سے دو چار ہو چکا ہے۔

Muhammad Ashfaq Raja

Muhammad Ashfaq Raja

تحریر : محمد اشفاق راجا