کرپشن کی باز گشت اور عوامی بے چینی

Corruption

Corruption

تحریر: سعید بادشاہ
یوں تو ہمارے ملک کی تاریخ میں کرپشن سے متعلق لا تعداد کہانیاں منظر عام پر نمودار ہو کر سیاسی مصلحتوں کی برکت سے معدوم ہو جاتی ہے۔ ہمارے سیاسی میدان کے بڑے بڑے کھلاڑی بھی کرپشن کے پھول سمیٹتے ہوئے اپنا دامن الزامات کے کانٹوں سے تار تار کر چکے ہیں۔ مگر ہم اتنے کند ذہن واقع ہوئے ہیں کہ کرپشن زدہ پارٹی یا شخصیات ہمارے لالچ اور ذاتی مفاد پرستی سے فائدہ اُٹھا کر جب پھر برسر اقتدار آ جاتے ہیں تو بشمول میڈیا تعلیم یافتہ اور ان پڑھ طبقہ ان کی ایسی پرستش شروع کردیتے ہیں۔ کہ ان کے اگلے اور پچھلے ساری خطائیں ایسے دھل جاتی ہے کہ انہیں خود یقین ہو جاتا ہے کہ انہوں نے اختیارات سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر کرپشن نہیں بلکہ کوئی مقدس فریضہ سرا نجام دیا ہے۔

ایسے میں زیر عتاب صرف سیاسی مخالفین آجاتے ہیں ان کیلئے احتساب کے نام پر ایسا کاسہ لیس ادارہ بنایا جاتا ہے جو چن چن کر اپنے خالقوں کے مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنا کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں تا کہ اُنہیں یقین آجائے کہ ملک میں حساب کتاب اور قومی دولت لوٹنے کی کسی کو اجازت نہیں۔ حالانکہ جب کوئی بین الاقوامی یا خود مختار ادارہ اپنا سالانہ رپورٹ پیش کرتا ہے تو انسان ہکا بکا رہ جاتا ہے کیونکہ پچھلے دور کے نسبت کرپشن اور بد عنوانی میں کئی گنا اضافہ ظاہر کیا جاتا ہے۔ سیاستدانوں کے علاوہ بیورو کریسی کی بھی یہی صورتحال ہوتی ہے۔ مگر سرکاری افسران کے نسبت سیاستدان قومی دولت لوٹ کر ذرا جلد ہی این آر او یا ان کے ہمزاد معاہدوں کی وجہ سے جلد ہی چھٹکارا پا کر پاک دامن بن جاتے ہیں اور پھر سے ملک وقوم کی خدمت میں مصروف عمل ہو جاتے ہیں۔ عصر حاضر میں ملک اپنے جس نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔

Corruption

Corruption

ہمارے سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مشرقی اور مغربی سرحدات کے علاوہ اندرونی خطرات سے نبرد آزما ہیں۔ دوسری طرف سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں کے کرپشن کے نت نئی کہانیاں طشت آزبام ہو رہے ہیں۔ اب پانامہ لیکس، خیبر بینک لیکس وغیرہ منظر عام پر آنے، نیب اور احتساب کمیشن کی کاروائیوں سے عوام بھی حیران و پریشان ہیں کہ کون سچا اور کھرا ہے؟ سیاستدانوں کا ایک دوسرے کے خلاف لنگوٹ کس کر الزام تراشی اور جوابی رد عمل سے ایک طوفان بدتمیزی کھڑا ہوگیا ہے۔ ایک دوسرے کے خاندانوں، بچوں اور کردار کے عزت کے جنازے نکلتے دیکھے جا رہے ہیں۔

پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا پر ایک سیاستدان دوسرے کا ایک پارٹی مخالف پارٹیوں کی پگڑیاں ایسے اُچھال رہی ہے جیسے دیہاتی بچے آپس میں لڑ رہے ہوں۔ جس کا فائدہ اُٹھا کر نووارد اور غیر معروف نام نہاد سیاستدان بھی اخلاقی کرپشن کے مرتکب ہوکر سوشل میڈیا پردوسروں کی کہاوتیں یا اقوال زرین کاپی، پیسٹ کے ذریعے ملک کے سیاسی لیڈروں کے بارے میں نا شائستہ زبان استعمال کر کے اپنا نام اور تصویر لگا کر اپنی قد کاٹ بڑھانے کی کوشش کرتے نظر آرہے ہیں۔

اربوں روپے کرپشن کی بازگشت اور سیاستدانوں کا اخباری بیانات اور ٹی وی ٹاک شوز میں غیر پارلیمانی زبان استعمال کے ذریعے ایک دوسرے کی کردار کشی کررہے ہیں۔ جسے دیکھ کر ایک فلم کا ایک سین یاد آتاہے جس میں ایک چور رات کی تاریکی میں کسی گھر چوری کی عرض سے گھس جاتاہے۔ آہٹ پر مالک مکان کی آنکھ کھل جاتی ہے تو وہ فورا پوری قوت سے چور چور کا نعرہ لگاتا ہے جس پر چور الٹے پاؤں نکل کر گلی میں بھاگ نکلتا ہے۔ مگر مالک مکان کی آواز پر پڑوسی بھی جاگ کر گھروں سے نکل کر نا معلوم چور کا تعاقب کرنے لگتے ہیں۔ چور حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے گلی کے ایک اندھیرے کونے میں کھڑا ہوجاتا ہے جب چورچور کی صدائیں لگاتامشتعل ہجوم پاس سے گزرنے لگتاہے تو وہ بھی اس میں شامل ہوکر چور چور کی پر زور آوازیں لگاتا ہواتعاقب کرنے لگتا ہے۔

Corruption

Corruption

دو تین گلیاں چھانٹ کر ہجوم چور پکڑے بغیر واپس لوٹ جاتا ہے۔ ایسے میں عام آدمی کا جمہوریت اور سیاست سے اعتماد اُٹھ جانا فطری امر ہوتا ہے۔ احتساب کا شفاف اور منصفانہ نظام نہ ہونے کی وجہ سے باہر کی دنیا میں بھی ملک کی بدنامی ہو رہی ہے۔ جو کہ موجودہ وقت میں ملک و قوم کے مفاد میں ہر گز نہیں۔ 1985 ؁ء کے بعد سے شروع ہونے والاسیاسی کرپشن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہر دور حکومت میں احتساب کے نام پر بننے والے ادارے صرف سیاسی انتقام کیلئے استعمال ہوئے۔ موجودہ وقت میں نیب اور احتساب کمیشن کی کارکردگی عوام کی نظروں میں قدرے بہتر نظر آرہی ہے مگر مخالف نظریوں کے سیاسی پارٹیاں اور سیاستدان اپنی طرف بڑھتے ہوئے خطرات کو دیکھ کر ان اداروں کے اختیارات کم کرنے کے بارے میں یکساں سوچ اپنانے لگے ہیں۔

پانامہ لیکس اور آف شور کمپنیوں کے ذریعے اربوں روپے ملک سے باہر منتقل کرنے کے انکشافات نے پاکستان جیسے دہشت گردی اور جنگ سے متاثرہ قوم کو از حد مایوس کر دیا ہے۔ کیونکہ غریب دو وقت کی روٹی کا مختاج اور سیاستدان زیرو سے سٹارٹ لیکر شارٹ کٹ میں کروڑ پتی بن رہے ہیں کرپشن ثابت ہونے پر پلی بارگیننگ کے ذریعے کروڑوں کے ڈیل کے توسط سے پاک وصاف بن جاتے ہیں۔ جبکہ الزامات کے دفاع میں اپنی صفائی پیش کرنے اور ایک دوسرے کو بچانے کیلئے بھی اکثر سیاستدان اپنے نظریات کے تضاد اور اختلافات کو بھلا کر ایک دوسرے کا سہارا بن جاتے ہیں۔ اگر ملک کے حکمران اور سیاستدان واقعی جمہوریت پسند اور عوام کی خدمت پر یقین رکھتے ہیں تو وہ غریب محروم اور مظلوم قوم کو دو طریقوں سے مطمئین کر سکتے ہیں۔ جن کی مثالیں بھی موجود ہیں۔

Corruption

Corruption

اگر کسی پارٹی یا محکمے میں قیادت سے نچھلے سطح کے ذمہ داران تحقیق کے بعد ثبوت کے ساتھ کرپشن کے مرتکب پائے جائے تو وہ ہمارے ملک کے محافظ اور ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرنے والے قومی ادارے پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے دلیرانہ فیصلے کی طرز پر برطرفیاں کر کے قوم کو بھی آگاہ رکھے۔ اگر حکمرانوں یا کسی پارٹی کے ہائی لیڈر شپ کر پشن کا مرتکب ہوا ہو تو وہ پانامہ لیکس میں نام سامنے آنے پرآئس لینڈ کے وزیر اعظم اور دیگر مغربی ممالک سیاستدانوں کی طرح اخلاقی جراء ت کا مظاہرہ کر کے از خود مستعفی ہو جائے۔یا اسی پارٹی کے مخلص اور با کردار سیاستدان انہیں اہم عہدوں سے الگ کر کے اہل قیادت کو آگے لائے۔

تحریر: سعید بادشاہ