تحریر: پروفیسر رفعت مظہر پنجاب کے سابق وزیرِاعلیٰ چودھری پرویز الٰہی جب بھی اپنے کارنامے گنوانے بیٹھتے ہیں تو سب سے پہلے پنجاب ایمرجنسی سروسز یعنی ریسکیو 1122 کی تشکیل کاکریڈٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ یہ ایک ایسے مردِآہن کاخواب تھاجس نے تَن تنہا اپنے آہنی عزم کے بل بوتے پراپنے خواب کوحقیقت کاروپ دے دیا ۔ اُس شخص کانام ڈاکٹر رضوان نصیرہے جنہوںنے جب پنجاب ایمرجنسی سروسز کاتصور پیش کیاتو ہماری بیوروکریسی کے بزرجمہر اُنہیں طنزیہ اندازمیں کہاکرتے تھے کہ ”این خیال است ومحال است وجنوں”۔ لیکن ڈاکٹرصاحب سچی لگن اورجذبے کے ساتھ اپنے مقصد کی تکمیل میں مگن رہے اور بالآخر پاکستان جیسے ملک میںبھی ایک عالمی معیار کی ایمرجنسی میڈیکل ، فائراینڈ ریسکیو سروسز قائم کرکے ہی دم لیاجو ایک معجزے سے کم نہیںتھا ۔یہ صرف ایک شخص ، ڈاکٹررضوان نصیر ، کی انفرادی کوشش کا ثمرتھا کہ 2004ء میں پائلٹ پراجیکٹ کے طورپر شروع ہونے والی پنجاب ایمرجنسی ایمبولینس سروسز آج ایک تَن آوردرخت کاروپ دھارکر پنجاب کے 36 اضلاع میںاپنی کامیابیوں اور کامرانیوںکے جھنڈے گاڑرہی ہے ۔
چودھری پرویزالٰہی نے 2004ء میں ایمرجنسی سروسزاکیڈمی اورہیڈ آفس کے لیے جوجگہ مہیاکی وہ بھی کسی مذاق سے کم نہیںتھی ۔ فیروزپور روڈپر پرانے ایل او ایس ڈپو ، جوگھوڑوںکے اسطبل کاروپ دھارچکا تھا ، پنجاب ایمرجنسی اکیڈمی کامقدر ٹھہرا اورڈاکٹر رضوان نصیرنے بھرتی کیے جانے والے عملے کو8 ماہ تک اپنی جیب سے تنخواہ دی ۔یہ وہ دَورتھا جب کوئی ریسکیو 1122 میں شامل ہونے کوتیار نہیںتھا جبکہ آج عالمی معیار کایہ ادارہ نہ صرف پنجاب کے 36 اضلاع اوراُن سے منسلک تحصیلوں میںفعال ہے بلکہ خیبرپختونخوا ، بلوچستان ، گلگت بلقستان اورآزاد کشمیرمیں بھی اِس کاقیام عمل میںآ چکاہے ۔ ایمبولینس سروس سے شروع ہونے والایہ ادارہ آج نہ صرف فائراینڈ واٹرریسکیو بلکہ ہرقسم کی ایمرجنسی سروسز فراہم کررہا ہے ۔ عالمی معیارکی ایمرجنسی سروسز اکیڈمی کی نئی عمارت تعمیر ہوچکی جہاں 2015ء سے ریسکیوررزکی ٹریننگ جاری ہے۔
Rescue 1122
پھرپتہ نہیں کیا ہواکہ 2015ء میں ڈاکٹررضوان نصیرکا کنٹریکٹ ری نیو نہیںکیا گیا جو ایمرجنسی اکیڈمی کے لیے ایک بہت بڑادھچکہ ثابت ہوا اور ریسکیو 1122 میں آہستہ آہستہ دیگرحکومتی اداروںکی طرح تباہی کے آثار نظرآنے لگے ۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ باقی حکومتی اداروںکی طرح ریسکیو1122بھی نان پروفیشنل بیوروکریسی کی محتاج بن کے رہ گئی ہے ۔سوال یہ ہے کہ اگرایک ادارہ ایک شخص کی سربراہی میںصفر سے شروع ہوکر اِس مقام تک پہنچ چکاہے کہ ہم اُسے بڑے فخرسے اعلیٰ عالمی معیارکا ادارہ قراردے سکتے ہیںتو پھراُسے کیوں بیوروکریسی کے تابع بناکر برباد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟۔ اُس کے خودمختار ادارہ رہنے میںکیاقباحت ہے؟۔ یہ ادارہ اب بیوروکریسی کی غلط پالیسیوںکی بھینٹ چڑھتا جارہا ہے ۔ ضرورت اِس امرکی ہے کہ خادمِ اعلیٰ ذاتی دلچسپی لے کراِسے تباہ ہونے سے بچائیں کیونکہ یہی وہ ادارہ ہے جس سے عوام کی بہت سی توقعات وابستہ ہیں اورجو ہرمشکل گھڑی میںعوام کے کندھے سے کندھا ملاکر کھڑانظر آتاہے ۔ اطلاعات تویہی ہیںکہ خادمِ اعلیٰ اب اِس ادارے میںذاتی دلچسپی لے رہے ہیں اور شنیدہے کہ ڈاکٹر رضوان نصیرکو چیئرمین ریسکیو1122 مقرر کرکے واپس لایاجا رہاہے ۔ اگرایسا ہے تویہ انتہائی خوش آئیند اقدام ہے اورتوقع کی جاسکتی ہے کہ ڈاکٹرصاحب کی سربراہی میںیہ ادارہ نہ صرف بکھرنے سے بچ جائے گابلکہ خدمت کی روشن مثالیں بھی قائم کرے گا ۔
Nawaz Sharif
اُدھر ملک کی اندرونی حالت یہ کہ اقتدارکے ایوانوںتک پہنچنے کے لیے کئی بھوکے گِدھ باربار جھپٹ رہے ہیں ۔ کسی کوقومی وقارتک کاخیال نہ ملکی ترقی کا ۔ وزیرِاعظم نے پارلیمنٹ میںتقریر کرتے ہوئے اپوزیشن کے سات سوالوںکے براہِ راست جواب تونہیں دیئے لیکن اُن کے خطاب میںاِن سوالات کے جوابات ضرور ڈھونڈے جاسکتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اگراِن سوالات کے ایک ایک کرکے بھی جوابات دے دیئے جاتے توپھر کیا اپوزیشن مان جاتی ؟۔ جی نہیں ! ہرگز نہیں کیونکہ یہ توپہلے سے طے شدہ تھاکہ واک آؤٹ کرناہی کرناہے ۔جس اپوزیشن کے ”صلاح کار” شیخ رشیدجیسے لوگ ہوں ،اُس کاپھر اللہ ہی حافظ ہے ۔ شیخ صاحب توگزشتہ تین سالوںسے وزیرِاعظم کوگھر بھیجنے کی تاریخ پہ تاریخ دیتے چلے آرہے ہیں ۔ اُن کی کوئی بھی بات کبھی سچ ثابت نہیں ہوئی ،
اِس کے باوجود بھی اُنہیںشرم نہیںآتی اوروہ پھرسے نئی تاریخ دینے نکل کھڑے ہوتے ہیں ۔ وزیرِاعظم کے پارلیمنٹ سے خطاب سے پہلے وہ بے پَر کی اُڑا رہے تھے کہ نوازلیگ میں 40 سے زائد اراکینِ اسمبلی کا فارورڈ بلاک بن چکا۔ اُنہیںتو یہ بھی پتہ تھاکہ وزیرِاعظم کے استعفے کے بعد اگلا وزیرِاعظم کون ہوگا ۔اُنہوںنے صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا”مجھے اگلے وزیرِاعظم کے نام کاپتہ ہے لیکن ابھی بتاؤںگا نہیں”۔ دراصل وزارتِ عظمیٰ کے سب سے بڑے امیدوار تو شیخ صاحب خود ہوںگے کیونکہ وہ اپنے آپ کوارسطوئے دوراں سمجھتے ہیںاور اپنی سیاست کے سامنے ہرکسی کی سیاست کوہیچ ، اِس لیے وزارتِ عظمیٰ اُنہی کوزیبا ہے لیکن صحافیوںکے سامنے اپنانام لیتے ہوئے اُنہیںشرم محسوس ہوتی ہوگی ۔ شیخ صاحب ایسی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیںجس کے صدر ، سیکرٹری ، چیئرمین ، سب کچھ وہ خود ہی ہیںلیکن اُن کے حوصلے کی داددینی پڑتی ہے کہ وہ کوئی سال ڈیڑھ سال پہلے قائدِحزبِ اختلاف بننے کی کوشش بھی کرچکے ہیں ۔ اب شایداُن کی نظریں وزارتِ عظمیٰ پرہوں ۔
شیخ رشیداور پرویزالٰہی کی بھرپور کوشش تویہی تھی کہ وزیرِاعظم کی تقریر کا بائیکاٹ کیاجائے لیکن متحدہ اپوزیشن نہیںمانی ۔ پھراُنہوں نے تقریرکے دوران ہوٹنگ اوربھرپور ہنگامے کامشورہ دیالیکن اپوزیشن اُس پربھی تیارنہ ہوئی البتہ وہ اپوزیشن کے واک آؤٹ میںکامیاب ہوگئے ۔ اطلاعات یہی ہیںکہ خودعمران خاںصاحب بھی واک آؤٹ نہیںچاہتے تھے لیکن شیخ رشیدنے بھولے بھالے سید خورشیدشاہ کومنا لیا۔ اب یہی واک آؤٹ اپوزیشن کی بدنامی کاباعث بن رہاہے ۔ پرویزرشید نے کہا ”ناک آؤٹ ہونے پراپوزیشن واک آؤٹ کرگئی ”۔ اِس احمقانہ واک آؤٹ کااحساس وادراک ہوتے ہی اپوزیشن نے پارلیمنٹ کا بائیکاٹ ختم کرنے کااعلان کردیا لیکن جو کچھ ہوناتھا ، وہ تو ہوچکا۔