تحریر : سید توقیر حسین اپوزیشن نے دو روز قبل قومی اسمبلی میں وزیراعظم میاں نوازشریف کی تقریر کے بعد اسمبلی کا بائیکاٹ کرنے کی غلطی کا کفارہ ادا کرنے کیلئے گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی’ پرجوش تقاریرکیں’ پارلیمنٹ کی اہمیت کا احساس بھی اجاگر کیا اور اسمبلی کے اجلاس کے بعد سپیکرز چیمبرز میں سپیکر قومی اسمبلی سے ملاقات کے دوران پانامہ لیکس کے معاملات کی تحقیقات کیلئے وزیراعظم کی تجویز کردہ پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کیلئے ان سے تبادلہ خیال بھی کیا جو جمہوریت کی بقاء و استحکام کیلئے اپوزیشن کے مثبت کردار کا عندیہ ہے۔ بلاشبہ پارلیمنٹ ہی وہ فورم ہے جس کی بنیاد پر جمہوریت کی عمارت کھڑی ہے اس لئے جمہوریت کو بچانے اور مضبوط بنانے کی خاطر پارلیمنٹ کو مستحکم کرنا اور اس پر عوام کا اعتماد کا رشتہ کمزور نہ ہونے دینا ضروری ہے جس کیلئے پارلیمنٹ کے سرکاری اور اپوزیشن بینچوں پر بیٹھے قوم کے منتخب نمائندوں نے ہی بنیادی کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔
گزشتہ ماہ کے آغاز میں دنیا کی مختلف مقتدر شخصیات کی ملک سے باہر آف شور کمپنیوں کے بارے میں پانامہ کی ایک لاء فرم کی مرتب کردہ دستاویزات افشاء ہوئیں جن میں پاکستان کے حکمران خاندان کے نام بھی شامل تھے تو یہ صورتحال اسی وقت قوم کے منتخب فورم پارلیمنٹ میں زیربحث لائے جانے کی متقاضی ہو گئی تھی مگر حکومت ہی نہیں’ اپوزیشن نے بھی یہ معاملہ پارلیمنٹ میں زیربحث لانے سے گریز کیا اور اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے باہر اس ایشو پر طوفان اٹھانا شروع کر دیا۔ اگر اپوزیشن شروع دن سے ہی پانامہ پیپرز کی انکوائری کا تقاضا لے کر پارلیمنٹ میں آجاتی تو حکومت اور حکمران خاندان کو بھی اپنے دفاع کیلئے پارلیمنٹ کے سوا کوئی دوسرا فورم نظر نہ آتا اور دوطرفہ الزام تراشی کے ذریعے محاذآرائی کی سیاست کو انتہاء تک پہنچا کر جمہوریت کے ڈی ریل ہونے کے خطرات لاحق کرنے کے بعد بالاآخر پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے تحقیقات پر ڈیڑھ ماہ بعد اتفاق ہوا ہے تو یہ سارے مراحل پارلیمنٹ میں شروع دن سے ہی طے ہو جاتے اور آج قوم کو پانامہ لیکس کے حوالے سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی نظر آرہا ہوتا مگر اپوزیشن نے اس ایشو پر میاں نوازشریف کو ہر صورت اقتدار سے باہر نکلوانے کی جارحانہ سیاست شروع کی تو حکمران جماعت بھی جواباً لٹھ لے کر اپوزیشن بالخصوص عمران خان کے پیچھے پڑ گئی جس سے جمہوریت کے مستقبل پر پھر سنگین خطرات منڈلاتے نظر آنے لگے۔
Leaks Panama
ڈیڑھ ماہ تک حکومتی’ اپوزیشن جماعتوں میں پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے طریقہ کار پر سیاست ہوتی رہی ہے اور جب جوڈیشل کمیشن کی بیل منڈھے چڑھتی نظرنہ آئی تو اپوزیشن جماعتوں پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے وزیراعظم سے پارلیمنٹ میں آکر اپنے اور اپنے خاندان کے معاملہ کی وضاحت کرنے کا تقاضا شروع کردیا۔ اسی دوران چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس ظہیر انورجمالی نے بھی حکومتی ٹی او آرز پر جوڈیشل کمیشن کی تشکیل ناقابل عمل قرار دی جس پر اپوزیشن کو حکومت پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا مزید موقع ملا تو وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں آکر اپنے اور اپنے خاندان کے معاملات کی وضاحت کرنے کا اعلان کر دیا۔ یہ صورتحال بھی ایک طرح سے اپوزیشن کی سیاست کی کامیابی کی دلیل تھی کہ اس نے وزیراعظم کو ٹریپ میں لا کر انہیں پارلیمنٹ کے روبرو پیش ہونے پر مجبور کر دیا۔
چنانچہ اپوزیشن کو اسی تناظر میں پارلیمنٹ کے اندر اپنی سیاست کو مضبوط کرنے کی حکمت عملی طے کرنا چاہیے تھی جس کے تحت وزیراعظم کو اپنے خاندان کی آف شور کمپنیوں اور انکے بیرون ملک کاروبار اور سرمایہ کاری کے حوالے سے پارلیمنٹ کے فورم پر دفاعی پوزیشن پر لاکر حقیقی اور بے لاگ احتساب کے اقدامات اٹھانے پر مجبور کیا جا سکتا تھا۔ وزیراعظم نوازشریف نے اس سلسلہ میں قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران خود کو احتساب کیلئے پیش بھی کیا اور اس کیلئے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کی پیشکش کی مگر اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے اپنی مختصر ترین جوابی تقریر کے بعد قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کرنے اور عوامی عدالت میں جانے کا اعلان کردیا جس پر عمران خان بھی سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے خطاب کی دعوت ملنے کے باوجود اپنی پارٹی کے ارکان کے ساتھ بائیکاٹ کرکے باہر آگئے تو اپوزیشن کی اس سیاست پر قوم اور تمام سیاسی عوامی حلقوں کو سخت مایوسی ہوئی۔ اس سیاست کو اس حوالے سے اپوزیشن کی نالائقی سے تعبیر کیا گیا کہ وزیراعظم کے سخت دبائو میں آنے کے باوجود اپوزیشن پارلیمنٹ کے فورم پر اپنی سیاست کیش کرانے کی اہل ثابت نہیں ہوسکی جبکہ وزیراعظم کی تقریر کے بعد پارلیمنٹ میں رہ کر ہی اپوزیشن لیڈران اپنی جوابی تقاریر سے وزیراعظم کے ٹیکس چوری اور کسی کرپشن میں ملوث نہ ہونے کے دعوئوں کو غلط قرار دے سکتے تھے اور انہیں ا?ف شور کمپنیوں کے بارے میں اصل حقائق کا اعتراف کرنے پر مجبور کرسکتے تھے۔ بصورت دیگر انکے استعفیٰ کی نوبت لاسکتے تھے۔
جب اپوزیشن لیڈران کو قومی اسمبلی کے بائیکاٹ سے متعلق اپنی حماقت پر تمام عوامی سیاسی حلقوں کی جانب سے اور خود اپنی صفوں میں سے بھی سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تو انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے بائیکاٹ کے فیصلہ پر اپنی اپنی جانب سے وضاحتیں شروع کر دیں۔ بالاآخر انہیں بائیکاٹ کے فیصلہ سے رجوع کرکے قومی اسمبلی کے فورم پر واپس آنا پڑا۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں جہاں اپوزیشن لیڈر سیدخورشید شاہ اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے مربوط انداز میں وزیراعظم نوازشریف کی دو روز قبل کی تقریر کا جواب دیا اور پارلیمنٹ کی اہمیت و ضرورت کا احساس کرتے ہوئے اس منتخب فورم کو ہی مقدم رکھنے کی یکجہتی کا اظہار کیا اور جواباً وفاقی وزراء خواجہ محمد آصف اور پرویز رشید نے بھی جمہوریت کی بقاء کی خاطر پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیا تو اس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کو محاذآرائی کی سیاست میں جمہوریت کی بقاء کیلئے خطرے کی گھنٹی بجنے کا احساس ہوگیا ہے۔
Imran Khan
اگرچہ وفاقی وزیر خواجہ محمد آصف نے اپنی تقریر میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو فوکس کرکے سخت الفاظ میں انہیں تنقید کا نشانہ بنایا اور شوکت خانم ہسپتال کیلئے بیرون ملک فنڈ ریزنگ کے حوالے سے انکی ذات پر بھی حملے کئے جس سے ماحول کشیدہ ہو سکتا تھا تاہم سپیکر قومی اسمبلی نے خوش اسلوبی کے ساتھ موثر اور مثبت انداز میں اجلاس کی کارروائی کو کنڈکٹ کرکے سیاسی ماحول کشیدہ ہونے کی نوبت نہ آنے دی۔ انہوں نے اپوزیشن ارکان پر گراں گزرنے والے پرویز رشید اور خواجہ محمد آصف کے وہ دو الفاظ بھی اجلاس کی کارروائی سے حذف کرادیئے جو انہوں نے دوران تقریر ادا کئے تھے جبکہ خواجہ ا?صف نے خود بھی عمران خان کے بارے میں ادا کیا گیا اپنا لفظ واپس لے لیا۔ اگر عمران خان بھی اسی جذبے کے ساتھ اپنی تقریر کے بعد ایوان میں بیٹھے رہتے اور بے شک وفاقی وزراء کی تقاریر کا بھی جواب دے دیتے تو انکی جانب سے اس منتخب فورم کو مقدم رکھنے کی بات پر مہر تصدیق ثبت ہوجاتی۔
حکومتی بے ضابطگیوں اور اختیارات سے متجاوز اقدامات کو بے نقاب کرنا اور ان بے ضابطگیوں کے تدارک کا تقاضا کرنا یقیناً اپوزیشن کا استحقاق ہے جسے قوم کے نمائندہ فورم پارلیمنٹ میں بروئے کار لایا جائے تو اس سے پارلیمنٹ اور سسٹم پر قوم کا اعتماد بھی بڑھے گا اور ماورائے آئین اقدام کا سوچنے والوں کو ایسے کسی اقدام کا موقع بھی نہیں ملے گا جو پارلیمنٹ کے باہر سیاست دانوں کی باہم سر پھٹول اور ایک دوسرے کے گریبان تک ہاتھ پہنچنے کی نوبت آنے کے باعث ملتا رہا ہے۔ اس تناظر میں اپوزیشن کا قومی اسمبلی میں واپس آنا خوش آئند ہے۔ اسکے باوجود عمران خان نے وزیراعظم کے خاندان کی آف شور کمپنیوں کے معاملہ میں سڑکوں پر آنے کا اعلان کیا ہے تو اس سے بادی النظر میں یہی تاثر پیدا ہوتا ہے کہ حکومت مخالف سیاست کیلئے پارلیمنٹ اب بھی انکی ترجیحات میں شامل نہیں۔
اب بہتر یہی ہے کہ اپوزیشن پانامہ پیپرز کے ایشو کو پارلیمنٹ کے فورم پر ہی منطقی انجام کو پہنچائے اوران تحقیقات میںمزید کوئی رکاوٹ حائل نہ ہونے دے۔ اگر سپیکر قومی اسمبلی حکومت اور اپوزیشن کی مشاورت سے پانامہ لیکس کی تحقیقات کے پیرامیٹرز متعین کرنے کیلئے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے دیتے ہیں جس کے بارے میں وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کے بقول حتمی فیصلہ ہوگیا ہے تو اس سے پانامہ پیپرز کا ایشو خوش اسلوبی سے طے ہو جائیگا اور پھر سب کے بے لاگ احتساب کی راہ بھی ہموار ہو جائیگی۔ حکومت کو عمران خان کی اس پیشکش کا بھی خیرمقدم کرنا چاہیے کہ شوکت خانم کے معاملات کی چھان بین بھی مجوزہ کمیشن کے ٹی او آرز میں شامل کرلی جائے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ اب پانامہ لیکس کا معاملہ بھی پارلیمنٹ کے اندر ہی طے ہوگا اور عوام کے مسائل کے حل کیلئے بھی پارلیمنٹ کے اندر ہی تمام پالیسیاں طے ہونگی جس کا اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے پوری دردمندی کے ساتھ تقاضا بھی کیا ہے۔