تحریر : میر افسر امان یہودیوں نے فلسطین میں صدیوں سے آباد لوگوں کی زندگیاں اجیرن کی ہوئی ہیں۔یہودی تو تیرہ سو سال قبل مسیح پہلی بار فلسطین میں داخل ہوئے تھے۔ اِس سے قبل عرب فلسطین میں آباد تھے۔ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ داخل ہوتے ہی مقامی فلسطینی آبادی کو زور اور ذبردسی ان کے گھروں سے باہر نکال کر خود آباد ہو گئے تھے۔ یہ ویسا ہی ہے جیسے یورپ کے گورے انگریزامریکا میں داخل ہو کر وہاں کی قدیم آبادی ریڈ انڈینز کو ان کے وطن سے نکال دیا تھا۔ یعنی انسانیت کے ساتھ ظلم میں یہودی اور عیسائی برابر کے شریک ہیں۔جب فلسطین میں بخت نصر نے پوری آبادی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی اور یہودیوں کے ہیکل ملیمانی کو بھی تباہ کر دیا تھا اور یہودیوں کو فلسطین سے نکال دیا تھا۔
مگر حضرت عمر کے دور حکمرانی میں ہیکل سلمانی کی بنیادیں دریافت کر کے دیوار گریہ کی یہودوں کو اطلاع کی۔مگر یہ محسن شکن یہودی آج حضرت عمر کے احسان کا بدلہ چکانے کے بجائے فلسطینی مسلمانوں کے بوڑھے ، مرد و خواتین اور بچوں کو سفاکیت سے قتل عام کر رہے ہیں۔ اُندلس پر مسلمانوں نے آٹھ سو سال حکومت کی تھی۔ عیسائی دنیا میں یہودیوں کو چین سکون نہیں ملتا تھا تواندلس کے مسلمان حکمرانوں نے اپنے ہاں آرام و سکون سے رہنے دیا جس کا ذکر یہودیوں کے دانشور اپنی کتابوں میں کرتے آئے ہیں۔
پھر اسی اندلس سے جب مسلمانوں کو عیسائیوں نے شکست دی تو سلطنت عثمانیہ نے یہودیوں کو اپنے ملک میں پنا ہ دی۔ جب سلطنت عثمانی کمزور پڑی تو وہی یہودی اپنے محسنوں کے خلاف ریشہ دونیوں کرنے لگے اور عثمانی بادشاہ سلطان عبدلحمید کو معزولی کا پروانہ بھی یہی یہودی ہی لیکر آئے تھے۔یہودیوں نے اپنے ہر محسن کے ساتھ دغا کیا ہے۔ا سی بنیاد پر ہٹلر نے لاکھوں یہودیوں کو گیس کے چیمبروں میں ڈال کر قتل کیا تھا۔ جس کو یہودی ہولو کاسٹ کے نام سے ہر سال مناتے ہیں۔عجب اتفاق ہے کہ موجودہ دورمیں وہی عیسائی اور یہودی جو تاریخ کے ہر دور میں ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے اب مسلم دشمنی میں ایک ہو گئے ہیں۔
Jews for Palestine
عیسایوں نے ہی بلفور ڈیکلریشن کے تحت دنیا کے یہودیوں کو فلسطین میں داخل کیا تھا۔جہاں انہوں نے ظلم سفاکیت کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ جس کی فلسطینیوں کے ساتھ یہودیوں کی زیادتیوں کی سیکڑوں قراردادیں موجود ہیں ۔ مگرعیسایوں اور یہودیوں کی ملی بگھت سے ان قراردادوں پر عمل نہیں ہو رہا۔عیسایوں کا سرخیل امریکا جو اس دور میں اپنا ورلڈ آڈر دنیا میں چلا رہا ہے فلسطینیوں کے ساتھ ظلم و سفاکیت میں برابر کا شریک ہے۔ روس بھی مذہبی تعصب کی وجہ سے فلسطینیوں کے ساتھ ظلم میں شریک ہے۔فلسطین تاریخی طور پر پندرہ سو سال قبل مسیح سے فلسطینیوں کا وطن ہے۔ان کا حق چھینا نہیں جا سکتا۔
بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے بیت اللہ سے قبلہ اول یعنی بیت المقدس تک سفر کیا تھا۔پھر بیت المقدس سے ہی آسمانوںں کا سفر شروع کیا تھا جسے مسلمان معراج النبی کہتے ہیں۔ اس لیے فلسطین تمام مسلمانوں کے لیے اہم ہے۔ صاحبو! کامل اور مستقل تو اللہ کی ذات ہے باقی سب فانی ہے۔ اس دنیا میں کبھی یونیوں کی، کبھی رومیوں کی،کبھی مسلمانوں کی اور اب یورپ و امریکاکی حکمرانی چلتی ہے مگر یہ ہمیشہ کے لیے نہیں۔کچھ مدت پہلے مسلمانوں سے عیسایوں نے اقتدار چھینا تھا۔یہ اقتدار آنی جانی شے ہے۔ بقول علامہ اقبال فلسفی شاعر کے” میں تم کوبتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے۔
شمشیر سناں اول طائوس رباب آخر”تم اور امریکا جتناچاہو فلسطینیوں پر ظلم کر لومگر تم فلسطین کی مزاہمتی تحریک کو ختم نہیں کر سکتے انشاء اللہ۔ایک نہ ایک دن صحرائی شیر پھر سامنے آئے گا اور فلسطینیوں پر جاری ظلم و ستم ختم کروائے گا۔جہاں تک عرب دنیا کے ملکوں کے حکمرانوں کی بات ہے تو ابھی تک امریکا کے پٹھو کے طور پر کام کر رہے ہیں۔امریکا ان کو ایک دوسرے سے لڑا کر اپنا الو سیدھا کرتا رہتا ہے۔جب بھی مسلمانوں میں تنگ آکر کوئی مزاہمتی تحریک شروع ہوتی ہے تواس میں اپنے زر خرید لوگ ڈال کر ان سے ظلم ستم کرواتا ہے اور عام مسلمان یہ مظالم دیکھ کر ان تحریکوں سے متنفر ہو جاتے ہیں۔
ISIS Soldiers
داعش جیسی تنظیم امریکا نے خود بنائی جس کا اعتراف اُس وقت کی وزیر خاجہ اورموجودہ صدراتی امیدوارہیری کلنٹن نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے۔ یہ شیطانی چالیں کب تک چلیں گیں ایک نہ ایک دن حق ضرورغالب ہو گا اور باطل مٹ جائے گا کیونکہ باطل مٹنے کے لیے ہی ہوتا ہے۔ غزہ جو دنیا میںانسانوں کی سب سے بڑی جیل ہے جہاں انسانی آبادی کے زیر استعمال ستانویں فی صد پانی مضر صحت ہے۔ اسرائیل نے پینے کا صاف پانی بھی روکا ہوا ہے۔ فلسطینیوں نے تحریک انتفاضہ شروع کی ہوئی ہے۔ سات ماہ میں دو سو سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں ساٹھ کے قریب اسرائیلی فوجی بھی جہنم واصل ہوئے ہیں۔آئے دن فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کیا جا رہا ہے۔ جگہ جگہ باہر کی دنیا سے آنے والے یہودیوں کی بستیاں بسائی جا رہی ہیں۔
اقوام متحدہ اپنی قراردادیں پاس کرتی رہتی ہے اور اسرائیل اسے اپنے پائوں تلے روندتا رہتاہے۔دنیا میں کہیں بھی اقوام متحدہ کی رٹ قائم نہیں ہوتی تو فوراً بین الالقوامی فوجیں بھیج دی جاتیں ہے کیا فلسطین میں اس خلاف وردی پر آج تک اقوام متحدہ نے فوج بھیج کر ظلم کو رکوایا ہے ہر گز نہیں۔ اس لیے کہ اقوام متحدہ امریکا اور مغرب کے لونڈھی کی حشیت سے کام کر رہی ہے۔دنیا کے مسلمان ایک ہو کر فلسطینیوں ی مدد کے آگے آناہو گا ورنہ اسرائیل ایک ایک فلسطینی کو ختم کر کے رہے گا۔
یہودیوں کے مذہب کے مطابق باقی دنیا کیڑے مکوڑے ہیں۔اے عرض فلسطین اور عرض فلسطین کے رہنے والوں اپنی جدو جہد جاری رکھوں اللہ کے ہاںدیر ہے اندھیر نہیں۔ کوئی نہ کوئی صلاح الدین ایوبی پھر پیدا ہو گا اور فلسطینیوں کے مظالم ختم کروائے گا انشا ء اللہ۔