تحریر : عفت غضب خدا کا کوئی چیز ہاتھ نہیں لگانے نہیں دیتی ۔یہ دیکھو پانچ ہزار کا سودا ہے ۔میاں صاحب گرمی ، اور مہنگائی کی شدت سے گھبرائے ہوئے ایک شاپر ہاتھ میں لیے داخل ہوئے اور بڑبڑاتے ہوئے شاپر میرے ہاتھ میں تھما دیا ،میرے پاس بھلا کیا جواب تھا ان کی جھنجھلاہٹ کا سوائے خاموشی کے ،کیونکہ اس میں حقیقت تھی کہ متوسط طبقے کی زندگی میں بہت الجھی سی ہوتی ہے ساری عمر پورا کرنے کے چکر میں خود کو گھن چکر بنانا پڑتا اور تب بھی عالم یہ ہوتا کہ چادر پوری نہیں پڑتی سر ڈھانپو تو پائوں ننگے پائوں ڈھانپو تو سر ننگا ۔انسان کی تگ و دو کا ایک اہم مقصود بنیادی ضرورتوں کا حصول ہے اسے جسم و جاں کا رشتہ قائم رکھنے کے لیے خوراک،تن پوشی کے لیے لباس ،اور موسمی اثرات سے خود کو بچانے کے لیے مکان کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہی المیہ ہے کہ جس نے روٹی کپڑا اور مکان کا دلاسہ دیا ہم اس کے ہو گئے۔پٹھر کا زمانہ ہو یا خلائی تسخیر کی راہ گذر انسان ان ضرورتوں کے دائرے سے باہر نہ آسکا ۔ان ضرورتوں کے نتیجے میں اجتماعی جدوجہد ہوئی اور نت نئے وسائل تک کی رسائی ضرورت ایجاد کی ماں کا درجہ حاصل کر گئی ۔اب ان وسائل کے حصول کی کشمکش نے زر اور ضرورت کا توازن بگاڑ دیا جس کا نتیجہ آمد و خرچ کے حساب سے طبقاتی فرق کی صورت میں سامنے آیا ۔اور ایک عفریت نے جنم لیا جسے مہنگائی کہتے ہیں۔
اب جب کہ ہم بیسویں صدی کو عبور کرتے ہوئے اس کے عشرے میں قدم رکھ رہے میں سوچتی ہوں کہ ہم دو حصوں میں بٹے ہوئے ہیں عالمی صورتحال کا جائزہ لیں تو اس عفریت کی وجوہ کی بنا پر وہی نقشہ دکھائی دے گا جو صدیوں پہلے تھا ۔پینے کا صاف پانی،خوراک،اور سر پہ چھت کے نہ ہونے کے سبب جھونپڑیوں میں زندگی گذارنے والے کروڑوں انسان اس مہذب دور کی چیرہ دستیوں کے منہ پہ ایک طمانچہ ہیں ۔جو دو رخ میں نے بیان کیے ان میں ایک وہ طبقہ جو ترقی یافتہ ہے اور پر تعیش زندگی بسر کر رہا جب کہ دوسرا طبقہ پس ماندگی کا شکار ہے ۔علمی طور پہ دیکھیں تو تقریبا اسی فیصد وسائل پہ ترقی یافتہ ممالک کا قبضہ ہے۔
Price
ٹیکنالوجی کے زور پہ ہی غیر ترقی یافتہ مملک پہ دندان تیز کر رہے۔اور ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ ممالک کے غریب عوام خواہ کتنا ہی خون پسینہ ایک کریں ان کی رسائی محض ادھوری بنیادی ضرورتوں تک ہی ہو سکتی ہے ۔جیسے کہ ہم پاکستانی عوام ۔ہماری جہالت اور پس ماندگی کو دیکھ کر ہمیںپس میں لڑایا جاتا ہے اس کے لیے کسی نہ کسی بات کو وجوہ بنا کر ایسے ایشو بنا لیے جاتے کہ مصیبت کی ماری عوام تڑپ اٹھتی ۔ملک میں انتشار کی صورت تب پیدا ہوتی جب گورنمنٹ مصنوعی مہنگائی،ٹیکس،اور اور دیگر پابندیاں لگا کر نئے قانون لاگو کرتی تب عوام کی بے چینی دیدنی ہوتی اور جلسے جلوس احتجاج کی ایک لہر اٹھتی تب مہنگائی کا گراف بھی اوپر جاتا ۔سسٹم ایک لڑی کی طرح ایک دوسرے سے مربوط ہے جب ایک چیز پہ اثر ہوتا تو لازما دوسری بھی اس کی ذد میں آتی،اور معاشرہ استحصال کا شکار ہو جاتا لیکن ایک اور بات بھی روز ِروشن کی طرح عیاں ہے کہ مہنگائی پیدا کرنے میں عوام کا بڑا عمل دخل ہے۔
اب اگر آپ سوال کریں کہ کس طرح ؟؟؟ تو سیدھی اور کھری بات ہے کہ ہم نے سادگی کو ترک کر کے زندگی کی آسائشات کو زندگی کا محور بنا لیا ہے اور اس ٹنٹنے کی وجہ سے مہنگائی بڑھتی ہے جب استعمال اور ضرورت بڑھے گی تو لازما اس کی کھپت میں بھی اضافہ ہو گا ۔نمودونمائش، حد درجہ فضول خرچی ،آگے نکلنے کی دوڑ کے مصنوعی چونچلے ہی مہنگائی کا سبب ہیں ۔ایک اور چیز جس کا مہنگائی سے چولی دامن کا ساتھ ہے وہ ہے جہالت ،اور اس حقیقت سے انحراف ممکن نہیں جن مملک میں خواندگی کی شرح بہتر ہے ان میں اپنے وسائل سے استفادے کا رحجان ہے اور یہاں کی یہ حالت ہے کہ ہمارے نوجواں اگر کچھ ایجاد کرتے ہیں تو اس کی اہمیت اخبار میں ایک خبر کے علاوہ کچھ نہیں ہوتی ۔نہ حکومت انہیں پرموٹ کرتی ہے سو ہمارا ٹیلنٹ کوئی اور ترقی یافتہ ملک لے اڑتا ہے۔
مہنگائی ایک لعنت ہے اس کی وجہ سے ایک پڑھا لکھا نوجوان تعلیم کا ہنر ہوتے ہوئے بھی محض پیٹ پوجا ک ہی محدود رہتا ھے تو معاشرے کی ناانصافی قلم کے بجائے اس کے ہاتھ میں کلاشنکوف تھما دیتی ہے ۔ اسی کے سبب ہمارے معاشرے میں ایمانداری،دیانت ،شرافت،میرٹ جیسی اعلی خوبیاں عنقا ہوتی جا رہی ہیں ۔مہنگائی غربت ایسا زہر ھے کہ اس کی وجہ سے لوگ اپنے جگر کے ٹکڑے اور اپنے اعضاء تک بیچنے پہ مجبور ہیں ،با ت اسی نہج پہ آ کہ منقطع ہوتی ہے کہ ہم خود میں شعور پیدا کریں ۔توازن َتقسیم ِ زر اور اخروی زندگی مین جواب دہی کا عنصر پیدا کریں ۔کیونکہ کفن میں جیب نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔