تحریر : عماد ظفر بالآخر ملا منصور کی موت کے بعد ارباب اختیار مذہبی ٹھیکیداروں اور قومی وقار اور غیرت کا چورن بیچنے والوں کو ہوش آ ہی گیا.اس تازہ ترین ڈرون حملے کے بعد یہ تمام لوگ بالکل سکتے میں چلے گئے تھے. ویسے تو ہمارے ہاں ماشااللہ ایک کور کمانڈر ٹوئیٹر اور سوشل میڈیا کیلئے مختص ہیں جو ملک کے ہر سیاسی یا خارجی معاملے پر فورا اپنے ادارے کا موقف پیش کرتے ہیں لیکن اس حملے کے بعد ان کی جانب سے بھی مکمل سناٹا اور سکوت ہی دیکھنے کو ملا. وزیر داخلہ چوہدری نثار کو ہمارے “وقار” نے میڈیا کو بریف کرنے کی ذمہ داری دی جسے چوہدری نثار صاحب نے اپنی استعداد کے مطابق خوب قابل طنز اور مزاحیہ بنانے میں کوئی کثر نہ چھوڑی.
چوہدری صاحب نے جب دوران پریس کانفرنس یہ کہا کہ ڈرون نے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ سرحد پار سے ڈرون کے زریعے میزائل داغے گیئے تو یقین کیجیئے اس قدر غم ویاس کی کیفیت میں بھی قہقہے لگانے کو جی چاہا.یعنی ڈرون اگر سرحد پار سے میزائل یا بم برسائے تو وہ ہماری فصای حدود کی خلاف ورزی نہیں اور نہ ہی اس سے ہماری خود مختاری پر کوئی آنچ آتی ہے.
چوہدری صاحب نے انتہائی معصومیت سے یہ بھی پوچھا کہ ملا منصور کو تو کسی بھی دوسرے ملک میں مارا جا سکتا تھا تو پھر پاکستان میں ہی جان بوجھ کر کیوں مارا گیا. حالانکہ امریکی حکام نے اس معاملے کے بعد دو ٹوک الفاظ میں بتا دیا ہے کہ جہاں جہاں دہشت گرد پائے جائیں گے ان علاقوں میں ایسی کاروائیاں جاری رہیں گی. دوسری جانب مذہبی ٹھیکیدار بھی خواب غفلت سے جاگے اور امریکی ظلم و ستم اور آئیندہ سے ایسے حملے برداشت نہ کرنے کی دھمکیاں دیتے دکھائی دیئے. مفتی نعیم صاحب نے تو واشگاف الفاظ میں اسے ہماری قومی غیرت کو پامال کرنے اور ہماری تضحیک کہتے ہوئے امریکہ کو دو ٹوک الفاظ میں بتا دیا کہ اب اس طرح کے واقعات کو برداشت نہیں کیا جائے گا.
US Drone Attack
اسی طرح سراج الحق صاحب جو ٹرین مارچ کی تیاریوں میں مصروف ہیں انہوں نے بھی اس حملے کو امریکہ کی افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں عبرتناک شکست کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے امریکہ بزدلی پر لعن طعن کی.شاہ محمود قریشی نے تو جوش خطابت میں امریکی سفیر کو ملک بدر کرنے کی دھمکی تک دے ڈالی. حالانکہ خود قریشی صاحب کی وزارت کے دور میں لاتعداد ڈرون حملے ہوتے رہے لیکن قریشی صاحب ستو پی کر سوتے رہے.غرض قصہ مختصر کہ ہمارے قومی وقار کے ٹھیکیداروں نے اپنی بی ٹیم کے زریعے امریکی ڈرون حملے کا جواب لفاظی اور خطابت کے زریعے دیا.جسے دیکھ کر وہ مشہور مزاحیہ کہاوت “اب کے مار” یاد آ گئی. جس کے مطابق بندہ تھپڑ کھاتا جاتا ہے اور ہر تھپڑ کے جواب میں ایک ہی بات دہراتا ہے کہ اب کے مار کے دکھا. اور دوسرا فریق ہر بار پہلے سے زیادہ کرارا تھپڑ جواب میں رسید کر دیتا ہے.
ہمارے ڈی ایچ اے جیسی شاندار ہاوسنگ سوسائٹی کا لمبا چوڑا پراجیکٹ نہ ہوتا یا دلیہ کھاد فارمز ہاوسز سیمنٹ بنانے اور مالیاتی ادارے چلانے کا بوجھ عسکری اداروں کے ناتواں کندھوں پر نہ ہوتا تو پھر دیکھتے کہ امریکہ بہادر کس طرح جرات کرتا ہے ہماری سرزمین پر حملہ کرنے کی. اسی لیئے تو اب باعث مصروفیت اپنی بی ٹیم کو ڈرون حملوں کے جواب میں ملک گیر مظاہروں کیلئے تیار کیا جا رہا ہے جس میں امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے جیسے نعرے لگا کر ہم امریکہ کی ناک نیچی کر دیں گے اور افغانستان میں امریکی شکست کا پول بھی کھولیں گے.
اس ضمن میں تمام مذہبی سیاسی جماعتیں اور شدت پسند و عسکریت پسند گروہ اپنا اپنا حصہ ڈالنے کو تیار بیٹھے ہیں.جو دو باتیں آج تک سمجھ نہیں آتیں وہ یہ ہیں کہ جب ہم نعرے مارتے ہیں کہ امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے تو اس سے مراد کون ہوتا ہے.کیونکہ امریکہ کا یار تو لیاقت علی خان صاحب بھی تھے اور ان کے بعد ایوب خان کے دور سے لیکر آج تک سب سے زیادہ یاری امریکہ کی ہماری عسکری اداروں سے ہی رہی ہے اس کے علاوہ مذہبی چورن فروشوں اور شدت پسندوں نے کبھی جہاد تو کبھی اپنے اپنے ایجنڈوں کی تکمیل کیلئے چند ڈالرز کے عوض امریکی آقاوں کی ڈگڈگی پر عرصہ دراز تک ناچ دکھانے کا ریکارڈ بھی قائم کیا ہے.
دوسری بات جو سمجھ نہیں آرہی وہ یہ ہے کہ امریکہ کو طالبان سے عبرتناک شکست کیسے ہو رہی ہے؟ نائن الیون سے پہلے طالبان افغانستان پر حکمرانی کرتے تھے لیکن امریکی جنگ کے بعد انہیں پسپا ہونا پڑا افغانستان امریکی بمباری کی وجہ سے کھنڈرات کا ڈھیر بن گیا.افغانستان کے وسائل پر امریکہ کا قبضہ بھی ہو گیا.اگر تو یہ طالبان کی کامیابی ہے تو خدا ہم سب کو ایسی کامیابی سے دور ہی رکھے. قومی وقار کی بھی سمجھ نہیں آتی یہ وقار مجروح ہوتا ہے اگر ہم عسکری اداروں پر تنقید کریں جہادی انڈسٹری اور عسکریت پسند جنہیں اسٹریٹجک اثاثے کہا جاتا ہے ان پر تنقید کریں لیکن ایبٹ آباد آپریشن نوشکی حملہ اور دیگر کئی سانحات میں یہ بالکل متاثر نہیں ہوتا.
قوم کی غیرت نامی اصطلاح تو شاید ہم نے بطور انٹرٹینمنٹ رکھی ہوئی ہے کہ جب کبھی ایسے حادثات ہوں اور ہماری سرزمین سے دہشت گرد پکڑے جائیں یا ہماری سرزمین میں گھس کر انہیں نشانہ بنا کر سرحدوں کی پامالی کی جائے تو اس بے عزتی کو دور کرنے کیلئے قومی غیرت کے لفظ کا استعمال کر کے کچھ دیر اپنے اوپر خود ہی ہنس لیں.یہ اچھی غیرت ہے جو ایک طرف امریکہ سے ذلیل ہونے کے بعد اسی سے ایف 16 طیاروں کی بھیک مانگتی ہے کولیشن سپورٹ فنڈ اور کیری لوگر بل کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مالی معاونت کی قسطیں بھی مانگتی ہے. خیر یہ تماشہ قیام پاکستان سے جاری ہے اور شاید ایسے ہی جاری رہے گا.لیکن اب جو لمحہ فکریہ ہے وہ امریکی ایڈمنسٹریشن کا ہمارے اوپر اعتبار نہ کرنا اور ہماری امداد کو روکنا ہے.
ایف 16 طیاروں کی فراہمی روکنے سے لیکر دہشت گردی کےخلاف جنگ کی مالی معاونت کی قسطوں میں تاخیر اور نوشکی جیسے مزید حملوں کی اطلاع واضح اشارہ ہیں کہ امریکی حکام اب ہماری طالبان اورشدت پسندوں دوارےدہری پالیسیوں کو برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں.شنید ہے کہ عرصہ دراز سے بد نام زمانہ کوئٹہ شوری پر بھی ایسے منظم حملے پلان کرنے کے علاوہ پاکستان کے دیگر ایسے علاقوں میں بھی آپریشن کیئے جا سکتے ہیں جہاں دہشت گرد موجود ہیں. یہ سارا مسئلہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کا نہیں پے کہ تعلقات برابری کی سطح پر ہوتے ہیں، آقا اور محکوم میں صرف احکام کی بجا آوری کا درست طریقے سے بجا آوری کا تعلق ہوتا ہے.یہ مسئلہ صرف اور صرف اپنی ترجیحات درست نہ کرنے اور آج بھی شدت پسندوں اور عسکریت پسندوں کو اپنا اسٹریٹجک اثاثہ سمجھنا ہے. یہ اثاثے جو ہماری غلط دفاعی پالیسیوں کی زندہ مثال ہیں اب یہ نہ تو افغانستان کے امن مزاکرات میں ہمارے کسی کام آ سکتے ہیں اور نہ ہی کفار یا امریکہ کو نیست و نابود کرنے کے.البتہ جہاد اور نفرت کے نام پر کڑوڑوں ناکارہ دماغ تیار کر کے جو لڑنے مرنے کے سوا کچھ نہیں جانتے ہم نے خود معاشی اور معاشرتی ترقی کے راستے اپنے اوپر بند کر دیئے ہوئے ہیں.
America
دنیا اکیسویں صدی اور اس سے آگے جانے کی منصوبہ بندی کرتی ہے جبکہ ہمارے پالیسی ساز آج بھی کئی صدیوں پہلے کے زمانے میں بسنے کی کوشش کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم پوری دنیا کو افغانستان سے بھی زیادہ خطرناک معلوم ہوتے ہیں کہ ہم لوگ امداد بھی دنیا بھر سے دہشت گردوں سے لڑنے کے لیئے حاصل کرتے ہیں اور پھر انہی کے دئیے گئے پیسوں سے ان دہشت گردوں کی سرپرستی کرتے پھرتے ہیں.مشہور محاورہ ہے کہ آپ چند لوگوں کو تو بیوقوف بنا سکتے ہیں لیکن پوری دنیا کو نہیں.یہی وجہ ہے کہ اب پوری دنیا کی انگلیاں ہماری دوہری پالیسیوں کی جانب اٹھتی ہیں. امریکہ اگر پالیسی سازوں کا یار نہ ہوتا تو 1965 کی جنگ بندی سے لیکر بنگال کی عبرت ناک شکست کے بعد ساتھ اور پاکستانی قیدیوں کی واپسی یا پھر کارگل جیسے مس ایڈونچر پر کبھی بھی پاکستان کو فیس سیونگ نہ ملتی. یہ امریکی ڈالر کی یاری تھی جس نے افغانستان میں روس کے خلاف جہاد انڈسٹری شروع کروائی.
یہ امریکہ کی ہی پشت پناہی تھی کہ کشمیر سے لیکر بغداد تک پاکستانی عسکریت پسند دندناتے پھرتے رہے اور دنیا پاکستان کے اس کردار سے آنکھیں موندے بیٹھی رہی.غرض ہر مقام پر امریکہ نے پاکستان کو کبھی مالی معاونت فراہم کی تو کبھی خاموش سفارتی حمایت. اور تو اور ہمارا ایٹمی پروگرام بھی امریکی یاروں کا ہی مرہون منت ہے کہ اگر امریکہ ہمارے ایٹمی پروگرام کی خاموش حمایت نہ کرتا تو ہم دنیا بھر سے چوری اور سمگلنگ کر کے یہ ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے.ہمارے امریکی یاروں نے ہی کئی دفعہ ہمیں ایک بنک کرپٹ ریاست ہونے سے بچایا اور خاموشی سے عالمی مالیاتی اداروں کے زریعے ہماری مدد کی.
پاکستان میں موجود شدت پسند اور عسکریت پسند تنظیمیں بھی ہمارے امریکی یاروں کے چرائے ہوئے ڈالرز کی ہی مرہون منت ہیں.اب یہ جو بی ٹیم کے ذریعے نعرے لگوائے جاتے ہیں کہ امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے.کیا یہ نعرے ہمارے پالیسی سازوں پر موزوں نہیں بیٹھتے کہ آج تک ڈالرز کی کھیپ دفاعی اور سیاسی ایسٹیبلیشمنٹ یا مزہبی چورن فروشوں کو ہی ملتی ہے نا کہ عام آدمی کو.ہم جیسے افراد تو کل بھی کہتے تھے کہ ڈالرز کا چسکا نہ ڈالو اور روکھی سوکھی میں گزارا کر کے اپنا آنے والا کل تعلیم کی روشنی سے سنوارو.تو پھر اب آپ خود فیصلہ کیجئے کہ امریکہ کا اصل یار کون ہے .اور کیا وہ واقعی میں غدار ہے؟