تحریر: شاہ بانو میر جہاں بھونچال فصیلِ بام و در میں رہتے ہیں ہماراحوصلہ دیکھو ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں بے شمار پانامہ لیکِس کی سیاسی پس منظر پر مبنی خبروں کے درمیان جیسے”” کسی بیوہ کی آہ ہو”” ایک خبر سنائی دی جس کو سب چینلز نے نشر کرنا مناسب نہیں سمجھا ٬ خبر تھی کہ پشاور میں ایک خواجہ سرا کو کئی گولیاں لگیں اور اس کے ساتھی دوسرے خواجہ سرا اسے لےکرہسپتال پہنچے ٬ بے تحاشہ خون بہنے کی وجہ سے وہ شدید تکلیف محسوس کر رہا تھا بجائے اس کے کہ پڑھے لکھے معقول سلجھے ہوئے ڈاکٹرز اسے مرد عورت یا خواجہ سرا کی فہرست سے نکال کر اسے ایک انسان سمجھتے اور اسکی تکلیف کا ازالہ مسیحا بن کر کرتے اس کی بجائے پورا ہسپتال استہزائیہ انداز اختیار کرتے ہوئے ان پریشان حال خواجہ سراؤں سے ہنسی ٹھٹھول کرنے لگے
ایسے وقت میں ہمیں اپنی اوقات کا پتہ چلتا ہے ٬ کہاں اسلام کا سبق کہ ایک بری عورت کو اللہ پاک معاف فرما دیتے ہیں محض گرمی کی شدت سے ہانپتے کانپتے کتے پر رحم کھا کر اسے پانی پلانے پر کہاں انسان زندہ سلامت جو آج سانسیں لے سکتا تھا اگر اسے ہسپتال انتظامیہ سنجیدگی سے سوچتی یہ معاشرتی نا انصافی وہ بھی اس امت کی ایک قوم میں سے جس کو رحمدلی کا سبق یہ کہ کر دیا جاتا ہے کہ “””اللہ نے اپنے غضب پر اپنی رحمت کو حاوی رکھا ہے””” خواجہ سرا وہ زندہ لاش ہے جو درد ہی درد ہے پہلے سے آخری سانس تک آخر ہم اتنے ظالم سفاک بے حِس کیوں ہو گئے ؟ ہماری زندگیوں سے قرآن پاک کیا نکلا کہ ہم اپنے اشرف المخلوقات کے معیار سے ہی نیچے اتر آئے ؟
Pakistan
اس خواجہ سرا کی جگہ پاکستان کی کوئی اداکارہ کوئی ماڈل ہوتی تو کیسے اس ہسپتال عملے کی دوڑیں لگتیں کیسے وی آئی پی لوگوں کے فون کا تانتا بندھتا ٬ کیسے اسکی دیکھ بھال کر کے وی آئی پی صاحبان کے سامنے بہترین کارکردگی کا ڈھنڈورا پیٹ کر اپنی جاب کو مزید بہتر کروایا جاتا ٬اس غریب خواجہ سرا سے یا اس کے شور مچاتے بین کرتے ساتھیوں سے کسی کو کیا فائدہ ہونا تھا؟ اسی لئے ایسا انسانیت سوز سلوک اس کے ساتھ روا رکھا گیا کہ بِلک بِلک کر مر گیا٬ نہ زنانہ وارڈ میں ان کی جگہ نہ مردانہ وارڈ میں ؟ جیتا جاگتا وجود سسک سسک کر موت کے منہ میں چلا گیا لاشیں تو جیسے اس ملک کے باسیوِں کیلئے اب کوئی معنی نہیں رکھتیں ٬ کیا حکومت نہیں جانتی کہ اس صنف کا وجود ہے پاکستان میں اور اس کو زخم بھی لگ سکتا ہے بیمار بھی ہو سکتا ہے اس کیلئے کوئی محفوظ بندو بست کرنا ہے ؟ دکھ میں سکھ میں یہ میک اپ کی گہری تہیں جمائے اپنے وجود کو ڈھٹائی کی چادر میں لپیٹ کر سارا دن ذلیل و رسوا ہو کر اس پیٹ کے دوزخ کیلئے کچھ پیسے جمع کرتے ہیں
Social behavior
٬ ان کو دیکھتے ہی ہمیں تاثر صرف یہی ملتا ہے بیکار فضول تماشہ انسان ہمیشہ انہیں تماشہ کیوں سمجھا جاتا ہے؟ جس کو طنز کرنا استہزا کرنا ضروری امر ہے؟ مردوں کی بالا دستی کا مظہر پاکستانی معاشرہ نجانے کیوں کئی شعبوں میں خواجہ سرا دکھائی دیتا ہے جس کی ذات کی طرح معاملات کا بھی کوئی تعین نہیں خُدارا قدرت کی طرف سے مبتلائے آزمائش ان لوگوں کو دیکھیں تو تماشہ نہ بنائیں بلکہ دل میں اپنے رب کا خاص شکر ادا کریں کہ مکمل اعضاء کے ساتھ آپ پُراعتماد انداز میں زندگی بسر کر رہے ہیں ٬
اس میں صرف اللہ کی مہربانی ہے ہم سب کسی اور مخلوق کا حصہ بھی بن سکتے تھے مگر اللہ کا احسان ہے کہ اس نے جانور کیڑے مکوڑے نہیں بنایا بلکہ مکمل اعضاء کے ساتھ اپنی عبادت کیلئے شعور کیلئے انسان کا وجود عطا کیا٬ جسے مومن کا قالب ہم نے محنت کر کے دینا ہے٬ اس کمزور انداز پر جو ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے اور اہلیان وطن کی جانب سے ان خواجہ سراؤں کیلئے دیکھا اس سے نجانے کیوں مجھے احساس ہوا کہ ہیجڑے وہ ہیں؟ یا ہمارا معاشرتی رویہ اتنا کمزور اتنا بودا ہے کہ ہمارے معاشرے سے ہیجڑے پن کی بو یہاں تک آ رہی ہے؟ اُس زخمی بِلکتے خواجہ سرا کا وجود ایک جیتے جاتے گوشت پوست جیسے وجود کا نہ تھا؟ کیا اسے گولیوں کی درد اور اذیت نہیں پہنچ رہی تھی؟
کیا ڈاکٹرز اور عملہ شعور سے عاری ہو چکا تھا؟ جاگو پاکستان قہر برسائی گئی قوموں کے یہی رویّے ہم سورت ھود میں پڑھ سکتے ہیں ڈریں استغفار کریں اور ان کو جہاں دیکھیں وہاں ان کی دلجوئی کریں اور ان کیلئے کچھ مدد کرنے کی کوشش کریں کہ یہی انسانیت ہے ٬ کرو مہربانی تم اہل زمیں پر