تحریر: کوثر ناز اردو ادب سے لگاؤ محبِ وطن پاکستانی ہونے کی حیثیت سے فطری تھا۔۔ ہمارا وطن ہماری ثقافت ہمارا ادب میرے لیئے فخر کرنے کو یہی چیزیں سب سے پہلے ہوا کرتی تھی بڑے ہوئے تو محبِ وطن بھی رہے ادب سے لگاؤ بھی بڑھ سا گیا مگر ادیبوں سے ایسا کوئی خاص تعلق قائم نہ ہوسکا نہ کبھی کوئی اسقدر متاثر کر سکا کہ اسکی شان میں قصیدہ گوئی کا اہتمام کرتے ہیں۔۔۔۔ ایسا قطعی نہیں کہ میں ہمارے فخرِ پاکستانان کی توہین کررہی ہوں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انسے تعلق صرف انہیں پڑھنے کی حد تک رہا تھا پھر جب خود ادبی دنیا میں قدم رکھنے کا سوچا تو بہت سے لوگوں سے بات چیت کا اتفاق ہوا سوشل میڈیا کے ذریعے یہ بہت آسان بھی تھا سب اچھے اور جن کے چہروں پر نقاب تھے وہ بھی بہت اچھے ۔۔۔۔۔یہاں آکر علم ہوا کہ انسان کے کردار کو اسکے پیشے سے نہیں پرکھا جاسکتا یہ شرافت تو ماں گھٹی میں ملا کر پلائے تربیت میں گھولے تو تبھی نظر آتی ہے ورنہ بس ایک لبادہ ہی بن کر رہ جاتی ہے جو صاحبِ لباس کبھی بھی اتار پیھنکتے ہیں۔۔۔
ویسے تو اچھائی دیکھنے والی آنکھ میں ہونی چاہیئے سبھی سے سنا ہے مگر اس آنکھ کا کیا کریں جو خدا نے عطا کی ہے اور حقیقت دکھانے پر مصر تب بھی نہ بولیں تو کیا لبوں پر قفل لگا لیں قفل ہی لگانا ہوتا تو کیا ہم بے زبان دنیا میں نہیں آسکتے تھے اور اگر صاحبِ زباں دنیا میں آئے ہیں تو ان صبح شام کی مانند رنگ بدلتے لوگوں پر کڑھیں بھی ناں؟؟؟ خیر چھوڑیئے بات نکلے کی تو دور تلک جائے گی کہ متصادق ہم وہ کہتے ہیں جو کہنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔
Muhabbat
اگر یہاں نقابوں میں لوگ چھپے بیٹھے ہیں جنکی تعداد بھی اتنی نہیں یا یوں کہہ لیں کہ پھر اس سے آگے لوگوں کو پرکھا ہی نہیں مگر یہاں ایسے اچھے بھی ہیں جن سے مل کر بات کرکے انسان کی سوچوں کو مثبت رخ ملتا ہے اچھائی سچائی بے ریا حقیقتاً ادیب لگتے ہیں وہی ادیب جو ہمارا فخر ہیں ہمارا مان ہیں جو وطنِ عزیز کی شان ہیں ایسے میں انکا لازوال کردار انکی تحریروں میں چار چاند لگا دیتا ہے انکے مداحوں کی ایک لمبی فہرست انکی ہاتھوں میں تھما دیتا ہے ان بہت سے اچھوں میں جو اپنی ذات میں کوئی ثانی نہیں رکھتے گفتگو ان سے متعلق ہے۔۔۔۔ یہ وہ ہیں جنکی تحریریں اس دنیا سے پرے کی معلوم ہوتی ہیں جو اپنی تحریروں میں محبت کی روشنائی بھر کر لکھتے ہیں اور سدا محبت کا پرچار کرتے ہیں ایسی محبت جو خدا کا پرتو ہے جو بلکل سچی ہے دنیا کے جھمیلوں سے بہت دور کی ہے پاکیزہ ۔۔۔ اور وہ محبت نہ کہیں تمھتی ہے نہ اسکا اختتام نظر آتا ہے پھر چاہے وطنِ عزیز کی محبت ہو جو انکے لفظ لفظ سے جھلکتی ہے یا پھر اپنے وطن باسیوں سے۔۔۔۔ ایک بیٹے کی سی ہو ۔۔۔ بھائی کی سی ۔۔۔ باپ کی سی ہو پھر محبوب شوہر کی سی۔۔ محبت اس لحاظ سے انکا اوڑھنا بچھونا ہے۔۔
انکی تحریروں میں نفرتوں کا ذکر ہوتا ہے نہ کدورتوں کا۔۔ چاہت جنکی تحریروں کا اولین تو محبت و شفقت ہی انکا آخری حصہ ہوتا ہے جو وہ تحریر کرتے ہیں اور کیا خوب ازماتے ہیں کہ لوگوں کو اپنے سحر میں مبتلا کیئے ایک دنیا کو اپنا اسیر کیئے جاتے ہیں ۔۔۔۔ انکی تحریریں اور انہیں تخلیق کرنے والے انکے عظیم ادیب اردو ادب کے افق پر چمکنے والا وہ ستارہ ہے جو انشااللہ بہت جلد سب سے تابناک ہوگا۔۔ انکی تحریریں ہی نہیں انکی ذات بھی اسی قدر اعلی ہے کہ کسی خاص مخلوق کا سا احساس ہوتا ہے جنکی نہ صرف ایک تحریر آپکی سوچ کو مثبت رخ دینے کو کافی ہے بلکہ انکی ذات میں ایسا سحر ہے جو آپکو مہبوت سا کردیتا ہے اور انکی تحریروں سے ملتے سبق پر آپکا ایمان اٹوٹ کردیتا ہے۔۔ جنکی ذات میں کوئی اونچ نیچ نہیں وہ جو لکھتے ہیں وہ دکھتے ہیں۔۔۔ جو اپنے نام میں کئی اعلی ہستیوں کو یکجا کیئے فخرِ پاکستان بنے بیٹھے ہیں نہ صرف نام سے بلکلہ انکی دلوں کو بدلِ دینے والی تحریروں سے ۔۔ وہ ذات کے اتنے گہرے ہیں کہ سمندر کو بھی بلاشبہ مات دے سکتے ہیں ۔۔
Life
انکی زندگی کا کل سرمایہ شاید محبت ہی ہے جو چھوٹوں پر شفقت بن کر برستی ہے تو ہر رشتے میں نیا اپنا پن دے کر۔۔۔۔اور وہ نام کسی اجنبی کا تو نہیں ہے بلکہ اردو ادب کے تین شہکار ” سفید گلاب” ، ” اندھیرے میں جگنو” ، ” قلم قرطاس اور قندیل” اور آنے والے ناولز ” میں جناح کا وارث ہوں” ، “لمس” ، ” شاخسار” ، ” زرد جھیل کا چاند” اور کائنات میں کسی جگہ” کے علاوہ کئی اور ناولز کے خالق سر محمود ظفر اقبال ہاشمی کا ہے جو پاکستان کا فخر ہی نہیں بلکہ رحیم یار خان کا وہ سپوت بھی ہے جس نے دنیا کو بدلنے کی ٹھانی تو اسی عظم کو ساتھ لیئے کامیابی سے چلے جارہا ہے اور مسلسل اسی کوشش میں ہے ۔۔۔۔ جو نہ صرف اپنے نام میں کئی بڑے ناموں کو سموئے ہے بلکہ خدا نے انہیں بیک وقت کئی چیزوں میں مہارت عطا کررکھی ہے سعودیہ عربیہ میں جہاں ہیومن ریسورز مینجمینٹ کے سینئر پروفیشنل کے ایک اعلی شناخت رکھتے ہیں وہیں منجھے ہوئے نگاول نگار ہونے کے ساتھ مصوری میں بھی پاکستان کا نام روشن کرچکے ہیں ساتھ ہی شاعری کا ذوق بھی رکھتے ہیں اور نہایت بامعنی اور پراثر شاعری انکے کردار کو اور مضبوط بنا کر پیش کرتی ہے ۔۔۔
محبت ، عزت ، شفقت ، فراخدلی اور خوش اخلاقی انکی ذات ایسا حصہ ہے جو لمحے بھر کے لیئے کبھی غائب نہیں ہوتی ۔۔۔ جو اپنے جاننے والوں کے لیئے دل کے امیر ہیں اتنے ہی انجان لوگوں پر بھی مہربان۔۔ اپنی ذات کا سحر کسی پر بھی لمحوں میں پھونک سکتے ہیں ۔۔۔ اپنی بات کروں تو میرے لیئے وہ واحد ادبی ہستی ہیں جن سے مجھے محبت یا عشق نہیں بلکہ شدید عقیدت ہے ایسی عقیدت جو انکا نام سن کر احتراماً دل میں کسی کو اپنی جگہ چھوڑ کر اٹھتے پاتی ہوں جو سر ہاشمی کا نام سر لکھے بنا گوگل پر سرچ بھی نہیں کرتی اور اگر کرنا پڑے تو سر پہلے کہتی ہوں پھر نام کے چند حرف لکھتی ہوں اور میں قصداً نہیں کرتی ہوجاتا ہے میرے لیئے کا سر کے چند الفاظ جو کام کرتے ہیں وہ شاید کوئی اور نہیں کرسکتا انکی تعریف جو بس کے لیئے ہوتی ہے اسے سن کر میں ہواؤں میں ایسے اڑتی ہوں گویا تعریف نہ ہوتی ہفتِ کلیم کی دولت سی مل گئی جو واقعی کسی دولت سے کم ہوتی بھی نہیں اپنا نام سر سے سنتی ہوں تو خود کو معتبر سا پاتی ہوں۔۔
سر سے مخاطب ہوتی ہوں تو احترام خود بخود زات میں اترتا سا چلا جاتا ہے ۔۔۔ سر کا نام دیکھ کر عجیب فخر سا محسوس ہوتا ہے کہ یہ وہ ہستی ہے جسے میں جانتی ہوں اور ایک عالم انکے سحر میں مبتلا ہے کوئی اور انکے متعلق تعریفی انداز میں گفتگو کرئے تو میں اپنے آپ فخر کرنے لگتی ہوں کہ یہ میرے سر ہاشمی ہیں ۔۔ سر ہاشمی ہم گروپ کے تمام میمبرز کے لیے استاد ہی کا نہیں والد کا بھی درجہ رکھتے ہیں۔۔۔ وہ سب کی اصلاح کرتے ہیں اور اس انداز میں کرتے ہیں کہ تنقید کا سہارا کبھی نہیں لیتے جو قابل نہ ہو اسے بھی اپنے لفظوں کے سحر میں قید کرکے اچھے کی سمت کوششوں پر گامزن کردیتے ہیں محبت کا پیکر وہ ہستی ہم سب کا مان ہے جو ایک قافلے کو اپنے سنگ باندھے چل رہی ہے اور محبت کا سبق اس خوبصورتی سے پڑھاتی ہے کہ ہم سب اپنے اپنے طور اچھے ہونے کی کوششوں میں سرگرم ہیں انہی کی پیروی کرتے ہوئے دنیا کو سچائی اور اچھائی دینے پر مصر ہیں
Society
انہی کی طرح پیغام ِ محبت کو لیئے ہر کسی سے ملتے ہیں کم سے کم میری زندگی سے تو جو پہلے بھی نہیں تھا مگر اب تو نفرت کا نام تک خارج ہوگیا اور انکے ملنے والوں میں بھی یہی بات میں نے عام دیکھی ہے ایسے میں یہی خیال آتا ہے کہ ہم اور وطنِ عزیز خدا کی سمت سے اس خاص وجود سے نوازے گئے ہیں جو معاشرے کی اصلاح کے لیئے اپنی بے حد پراثر تحریروں کا سہارا لیتے ہیں اور اپنی ذات کو بھی اسی کا نمونہ بنائے ہوئے ہیں۔۔۔۔ سر محمود ظفر اقبال ہاشمی سے ہم سبکی حیات کسی ڈور کی مانند جڑی ہے ہمارے لیئے وہ اہم ہی نہیں بلکہ قیمتی سا اثاثہ بھی ہیں جسے ہم ہمیشہ اپنے آس پاس دیکھنا چاہتے ہیں اپنے سروں پر انکی شفقت کے گہرے سائے کو ہمیشہ محسوس کرنا چاہتے ہیں جنکا نام ہماری دعاؤں میں خصوصی اہمیت کا حامل ہوتا ہے سر محمود ظفر اقبال ہاشمی ہم سب ہی زندگی آپ سے بہت گہرائی سے جڑی ہے آپکا ہرہر لفظ ہمارے لیئے بہت قیمتی کسی متاع جاں کی سی حیثیت رکھتا ہے
خدا تعالی آپکو وہ عروج عطا کرئے جسے زوال نہ ہو وہ خوشیاں عطا کرئے جو کبھی مانند نہ پڑیں وہ دعائیں آپکا مقدر ہوں جنکا اثر کبھی نہ ختم ہو اور ایک حصار ہمیشہ آپکے گر د باندھے رکھیں خدا تعالی سے یہی ایک دعا ہے کہ وہ آپکا سایہ ہمارے سروں پر تادیر قائم رکھے ہمیں ضرورت ہے اور وطنِ عزیز کو آپ سے بیٹے اور ادیب کی۔۔۔۔
دعا کی صورت میں اسکی خاطر جو میرے ہونٹوں سے لفظ نکلے
جو میری آنکھون سے اشک نکلے انہی کے بدلے میں اے خدایا