تحریر: سعیداللہ سعید میرے گذشتہ کالم ”مولانا صاحب ذرا سنبھل کے چل،، پر بعض احباب کی جانب سے ملا جلا ردعمل دیکھنے کو ملا۔ میں ان تمام احباب کا مشکور ہوں جنہوں نے اپنے قیمتی وقت کو صرف کرکے نہ صرف اس کالم کو پڑھا، اسے آگے پھیلایا بلکہ اپنے قیمتی خیالات سے بھی نوازا۔ ان احباب میں کراچی سے میرے واجب الاحترام بھائی جناب مولانا روح الباری صاحب بھی شامل ہے۔ جن کا شکوہ ہے کہ میں نے مولانا صاحب پر تنقید تو کی ہے لیکن ان کے مقابلے میں چیئر میں پاکستان تحریک انصاف عمران کو کلین چٹ دے دی۔ تو اس بارے میں اپنے بھائی کی خدمت میں عرض کرتا چلوں کہ میرا مقصد تنقید برائے تنقید ہرگز نہیں بلکہ اس کالم میں جس تنقید کا آپ نے حوالہ دیا ہے ، وہ تنقید برائے تعمیر ہے نا کہ تنقید برائے تخریب۔ وہ کیسے؟ تو آئیں اس پر تھوڑی سی روشنی ڈالتے ہیں۔
اس بات میں شک کی گنجائش ہی کیا کہ جمعیت علماء اسلام پاکستان کی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جن کے قائدین کو تو چھوڑیں، عام ورکرز میں بھی علماء کرام کی اچھی خاصی تعداد موجود ہیں۔ جے یو آئی کے بارے میں آپ سمیت ملک بھر کے جید علماء کرام کی ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ یہ جماعت وطن عزیز میں دینی مراکز کا محافظ ہے۔
Maulanz Fazlur Rehman
ملککی طرف اٹھنے والی ہر میلی نظر کے آگے سیسہ پھیلائی ہوئی دیوار بن جاتی ہے۔ یہ بھی اکثر علماء کرام کی رائے ہے کہ آج جو اس پاک سرزمین پر دین اسلام کے نشرو اشاعت کا کام ہورہا ہے یہ بھی جمعیت ہی کے دم قدم سے ہے۔ تو بھائی مذکورہ بالا خوبیوں کی حامل جماعت کے اس امیدوار کو جن سے زندگی بھر کوئی نماز قضا نہیں ہوئی ہو، کباب و شباب کے محافل کے وہ قریب بھی نہ پھٹکا ہو، چوری و دروغ گوئی سے اسے سخت چڑ ہو غرض وہ عبادات، معاشرت اور معاملات میں اپنی مثال آ پ ہو، وہ ایک ایسے امیدوار سے جن میں کوئی خوبی سرے سے موجود ہی نہ ہو جن کی زندگی کا مقصد عیش اور صرف عیش ہو ،الیکشن میں شکست بلکہ بری شکست کھا جائے۔ تو اس شکست کے عوامل تلاش تو کرنے ہوں گے۔
اب سوال یہ ہے کہ تلاش کا یہ عمل کون کرے گا؟ میں سمجھتا ہوں کہ سب سے پہلے یہ ذمہ داری محبان جمعیت پر عائد ہوتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ جمعیت کے ہمدرد ہیں یا نہیں لیکن بحیثیت ایک عالم دین یہ ذمہ داری آ پ پر بھی عائد ہوتی ہے کہ آپ ان وجوہات کو ڈھونڈیں جس کے باعث ایک اسلام پسند امیدوار ناکام جبکہ مال، مال اور صرف مال بنانے کی فکر رکھنے والا امید وار جیت جاتا ہے۔
اس کے بعد یہ ذمہ داری ہر ذی شعور پاکستانی پر عائد ہوتی ہے کہ وہ غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنے کی کوشش کریں ۔ گذشتہ کالم میں میں نے یہی کیا، کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ ایک اسلامی ملک میں کے پارلیمان میں اسلام کے نام لیوا پارٹی کا چار، چھہ نشستوں سے آگے نہ بڑھنا قابل آفسوس ہی نہیں باعث شرمندگی بھی ہے لہٰذا اس بری کارکرگی سے بچنے کے لیے پیشگی اقدامات اٹھانے ہونگے اور ذمہ داروں کا تعین کرنا ہوگا۔
PTI
میں نے جو محسوس کیا گذشتہ امید سحر میں تحریر کر ڈالا اور اب بھی میں یہی سمجھتا ہوں کہ مولانا فضل الرحمن صاحب کا موجودہ رویہ جمعیت علماء اسلام کے لیے نقصان دہ ثابت ہورہا ہے ناکہ فائدہ مند۔ لہٰذا جمعیت کے ہر ہمدرد کو چاہیے کہ وہ مولانا صاحب اور ان کے بعض قریبی رفقاء کی توجہ ان سیاسی غلطیوں کی جانب مبذول کرائے جو وہ ان دنوں تواتر کے ساتھ کررہے ہیں۔
جہاں تک تعلق ہے پاکستان تحریک انصاف کا، تو میں نے یہ کبھی نہیں لکھا کہ خان کی جماعت دودھ کی دھلی ہوئی ہے بلکہ سچ یہ ہے کہ میں نے گذشتہ کالم میں بھی پی ٹی آئی کے منفی پہلو کو اجاگر کیا تھا لیکن شائد بعض احباب نے اس پر توجہ دینے کی کوشش نہیں کی اس لیے وہ یہ سمجھے کہ میرا کام تحریک انصاف کا دفاع اور جمعیت پر بے جا کیچڑ اچھالنا ہے۔
ان احباب کی یہ سوچ منصفانہ نہیں لہٰذا انہیں چاہیے کہ وہ اپنے اس تاثر سے رجوع کرلیں جو انہوں نے میرے بارے میں قائم کیا ہے۔ آخرمیں دوبارہ احباب جمعیت کے نام یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ جن کمزریوں کے بارے میں میں نے پچھلے کالم میں لکھا ہے ، آپ ٹھنڈے دل و دماغ سے اس بارے میں غورو خوض کیجیے تاکہ مرض کا بروقت علاج کیا جاسکے نہیں تو بعد میں جمعیت پائندہ باد اور قائد جمعیت زندہ کے نعرے محض نعرے ہی رہ جائیں گے جس کا ہرگز کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔