سانپ اور سیڑھی کا کھیل تماشا تحریر: ڈاکٹر میاں احسان باری
Membrane assembly
تحریر: ڈاکٹر میاں احسان باری معاشرتی اونچ نیچ ،سرمایہ کی تفاوت ،امیر و غریب ،صنعتکار و مزدور جا گیردار و محنت کش ممبران اسمبلی و ووٹرز سبھی سانپ اور سیڑھی کے کھیل کی طرح ہیں ۔سنپولیے ہوں یا بڑے سانپ سبھی ڈستے ہیںاور اژدھے توانسان،حتیٰ کہ بڑے جانوربیل گائے بھینس وغیرہ کو مکمل نگل جاتے ہیں۔سانپوں کی سینکڑوں اقسام ہیں مگر یہ لفظ ہی وحشت و دہشت کی علامت ہے سپنی خود سینکڑوں بچے پیدا کرکے خود ہی انھیں کھاناشروع کردیتی ہے۔جو اتفاقاً بچ رہتا ہے وہ سانپ ،سپنی بن کر بھاگ نکلتا ہے۔حکمت خداوندی ہے وگرنہ پوری دنیا پر سانپوں کی حکمرانی ہوتی اور ہمارے سمیت دیگر چوپائے چل پھر بھی نہ سکتے۔سپنی تو اپنے بچے کھا لیتی ہے مگر یہاںغریب انسانوں کے بچے بھوکوںمرتے ،کچلے جاتے یاڈبو دیے جاتے ہیں ۔جس طرح سانپ اور سنپولیوں کے کردار کی نوعیت میں کوئی فرق نہ ہے موقع ملتے ہی وہ ڈنگ مارنے سے باز نہیں رہ سکتے۔اسی طرح دنیا کے پلیدترین کافرانہ نظام سود کے پیرو کار نو دولتیے سرمایہ دار ،منافع درمنافع کمانے والے صنعتکار ہوں یا پھر انگریزوں کے ناجائز لے پالک جاگیر دار وڈیرے ہوں یا ان کی اولادیں سبھی انھی کی طرح کمائو پتراور زہریلی ہوں گی۔کہ جینز تواصلاً وہی ہیںان سے مل مزدوریا ہاری و مزارعین کوئی رعایت لے لیں یہ تصور کرنا ہی محال ہے جب صنعتکار بڑے ائیر کنڈیشنڈ محلات میںانھی کی محنتوں سے تیار ہونے والی پروڈکٹس کو مہنگے ترین ریٹس پر فروخت کرکے عیاشیاں کرتے ہیں تو خوا مخواہ رد عمل پیدا ہونا فطری امر ہے۔
سانپوں کا زہر اور ظلم مشہور ہے۔اسی طرح سے ہی جاگیرداروں ،نودولتیوں اور سود خور صنعتکاروں کے مظالم بھی انتہائوں کو چھوئے ہوئے ہیں۔ان سے فالتو زمینیں لے کر مزارعین اورہاریو ں میں تقسیم کردی جائیں۔وگرنہ وڈیرے اندرونی طور پر انتہائی بزدل ہونے کے باوجود ‘پنچ’بنے ہوئے خود ساختہ غریب و مفلس ملزموں کے جوتے ان کے منہ میں گھسیڑ کرفخر محسوس کرتے اور شیطانی ہنسیاں ہنستے ہوئے مزے لینے سے کبھی باز نہیں آئیں گے۔سرمایہ داروں نے اپنے سرمایہ کے تحفظ کے لیے اورڈھیروں منافعوں کے لالچوں کی ہی وجہ سے پاکستان سے باہر آفشور کمپنیوں کے ذ ریعے حرام مال بھجوا رکھا ہے۔بہتوںکی رائے کہ ہم خواہ وزیر اعظم ،صدر ہی بنے رہیں تو کسی بھی وقت”میرے ہم وطنوں” کی آواز گونج کر ہماری ایسی تیسی کرسکتی ہے اور بھٹو مرحوم کی طرح تختہ دار پر بھی پہنچ سکتے ہیں اگر ایسا کرنا مشکل ہوا تو پھر”محترمہ کی طرح انھیں شہید” کرڈالنا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہو گاگو عوام کے نزدیک دور دور تک ایسا کوئی امکان نہ ہے مگر پھر بھی ایسے مفاد پرست طبقات اپنی اولادوں کو باہر بھجوا کر اربوں کی کمائیاں کرنے اورانھیں شاندار محلات میںرہائش پذیر کروانا چاہتے ہیںان کے خیال میں پاکستان کی افواج نے شہیدوں کے خون کی بدولت دہشت گردوں کی کمر توڑڈالی ہے۔مگر سلمان تاثیر اور گیلانی کے بیٹوں کے اغوا کی طرح خطرہ منڈ لاتا رہتا ہے اسی لیے تو پولیس کا دسواں حصہ مقتدر افراد کی حفاظت پر متعین ہے۔
Society
یہ بھی سبھی سمجھتے ہیں کہ کوئی فرد دہشت گرد ،اغوا کار،ڈکیت یا قاتل بنا بنایا ماں کے پیٹ سے جنم نہیں لیتا۔افلاس زدہ معاشرہ سرمایہ دارانہ منافقتیںظلم و بربریت کا کردار ادا کرتے وہ سانپ و بچھو کردار وڈیرے ہی ہیںجو کسی غریب کو دو پاٹوں میں پیستے ہیں ادھرخود لٹکاتے ،پھر تھانوں سے چھترول کرواتے ہیںجعلی مقدمات بنا کر جیلوں میں پھنکواڈالتے ہیں۔ایسے ظلم بھرے معاشرے کے مذموم کردار غریب کی غیرت کو جگا ڈالتے ہیں تو وہ اس ماحول کا باغی ہو کر قانون کی دھجیاں بکھیرتا ہوا جنگلوں اور ویرانوں میں پناہ لیتا اور بدلہ لینے کے لیے اور وارداتوںکی غرض سے چھوٹو کی طرح مختلف گینگ بنا ڈالتا ہے ظلم کی چکی میں پسے ہوئے مفلوک الحال افراد اکٹھے ہو کر خود پر جتنا ظلم ہوا ہوتا ہے اس سے سو گنا ظلم و بر بریت کی کہانیاں رقم کرڈالتے ہیںکچھ اژدھا صفت دہشت گرد بھی ہیں۔
جو انسانوں کو ہی ڈسنا کوئی کمال نہیں سمجھتے وہ زیادہ رقوم کے لالچوں میں بیرونی ایجنٹ بن کر اپنی ہی پاک سرزمین کے ٹکڑے کرنے کا غلیظ ترین عمل کرنے کے لیے خود کو برائے فروخت کرڈالتے ہیںایسے افراد پھر یہود و نصاریٰ اور بھارتیوں کی زہریلی تکون کے پروردہ بننے سے بھی نہیں ٹلتے حالانکہ ان کویہ معلوم ہے کہ میر جعفر و میر صادق کا کردار اداکرنے والے بھی بعد وہ اس بنا پر گردن زدنی ٹھہرے کہ جو اپنوں کے نہیں بن سکے وہ ہم غیروں کے کیا وفادار ہوں گے؟اصولاً جب تک جاگیردارانہ اور حرام مال کمانے والے صنعتکارانہ نظام کے علمبردار مو جود ہیں ان سے اقتدار کی باگیںنہ واپس لی جاسکتی ہیں اور نہ کسی صورت چھینی کہ انہوں نے اپنے تحفظ کے لیے سینکڑوں مسلح دستوں کی فوج ظفر موج بنا رکھی ہے
Courts
تھانے کچہریاں پہلے ہی سرمایہ کی تابع فرمان ہیں اور عدالتیں تو بنیے کی دوکان بنی ہوئی ہیں جہاں سے انصاف بغیر روپوں کے حاصل ہی نہیں کیا جاسکتا۔نہتے بے آسرا،نان جویں کو ترستے ہوئے مزدور ،ہاری،محنت کش کیسے ان کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں۔اصل اور واحد حل صرف اور صرف یہ ہے کہ ناجائزجاگیرداری سسٹم کا مکمل خاتمہ ہوکر زمینیں ہاریوں موروثی مزارعین اور بے زمین کسانوں میں تقسیم ہوں ،بڑی ملوں اور صنعتوں پر مکمل کنٹرول منتخب مزدور یونینوں کا ہو۔انھیں قومی ملکیت میں لیں یا پرائیویٹائز کرلیں فائدے کی بجائے الٹا نقصان ہوگا اور مزدور دشمنی علیحدہ شروع ہو گی۔ہر نیا سرمایہ دار خریدار چھانٹی کو اولیت دے گااور پراڈکٹس کی قیمت لازماً بڑھادے گاتاکہ وہ ڈھیروں سرمایہ کما سکے اس طرح مہنگائی کے جن سے ملک مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے ملیں اور زمینیں خودمحنت کشوں کی ملکیت ہوں گی تو وہ زیادہ محنت کرکے پیداوار بڑھائیں گے منافع اور بچتیں بڑھ کر محنت کشوں میں خوشحالی آئے گی تو ہی ملک ترقی پذیر ہو گا وگرنہ لڈو کی گیم کی طر ح سانپ اورسیڑھی کے کھیل میں آپ کو ششیں کرکے سیڑھیوں پر چڑھتے اوپر منزل مقصود کے قریب پہنچ بھی جائیں تو سانپ آپ کو نگل کر دم کی طرف پھینک ڈال دیتا ہے۔
کوئی خوش قسمت ہی ہوگا جو زہریلے سانپوں سے بچتا بچاتا مطلوبہ ہدف تک پہنچ جائے۔انتخابات مکمل سرمائے کا کھیل تماشہ بن چکے جس کے پاس 30-40کروڑ روپے فالتو ہوںوہی اسمبلی کی ممبر شپ کے انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے پھر بھی زیادہ مال لگانے والا ہی فاتح قرار پائے گا۔باقی سب ڈرامے ہماری آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہیں ۔بھٹو صاحب کو بھی پھانسی نہ دی جاسکتی اگر وہ خود جاگیردا ر نہ ہوتے اور پارٹی پر بھی اپنی وڈیرہ برادری کاقبضہ نہ کرواڈالتے جوں جوں تختہ دار کا وقت قریب آتا گیا جاگیردار بلوں میں گھستے چلے گئے عوام کو جلوسوں میں لیڈ انہی ممبران نے کرنا تھا وہ ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ بیشتر فوجی آمر کے آگے گھٹنے ٹیک گئے۔خدا کی سنت کبھی تبدیل نہیں ہوتی آج بھی جو نئے یا پرانے راہنمایان انھی پرانی گِدھوں پر تکیہ کیے ہوئے ہیں ان کا حشر بھی بھٹو جیسا نہ ہو یہ عقل انسانی تسلیم نہیں کرتی۔ہاں اگر گلی کوچوںگوٹھوں محلوں سے عام غریب گناہ گار مسلمان اللہ اکبر اللہ اکبرکے نعرے لگاتے ہوئے تحریک کی صور ت میں نکل پڑے تو انتخابی نتائج1970کی طرح حیران کن اور محیر العقول ہو نگے انشاء اللہ۔