صادق خان کی کامیابی اور پاکستانی

Sadiq Khan

Sadiq Khan

تحریر: ساحل منیر
صادق خان کی کامیابی اور پاکستانی اقلیتیں ساحل منیر پاکستانی نژاد صادق خان کے مئیر لندن منتخب ہونے پر پوری دنیا خاص طور پاکستان میں جو ہلچل مچی اور اس واقعہ کو جس انداز میں لیا گیا وہ غور طلب ہے۔ہمارے رائٹسٹ آیئڈیالوجی کے حامل دانشوروں نے صادق خان کی کامیابی کو ایک مخصوص مذہبی فتحمندی کے تناظر میں پیش کرتے ہوئے رائے عامہ کو جس طرح گمراہ کرنے کی کوشش کی وہ ہرگز قابلِ ستائش نہ ہے۔کیونکہ صادق خان کی کامیابی نہ تومحض لندن کے مسلمانوںکے ووٹوں کی مرہون منت ہے اور نہ ہی اسے کسی مخصوص مذہبی مسلک و عقیدے کی بالا دستی قرار دیا جا سکتا ہے۔بلکہ حقیقت یہ ہے ۔

پختہ جمہوری روایات اور امن پسندانہ انسان پرو ر رحجانات رکھنے والے لندن کے شہریوں کی غالب اکثریت نے نفرت و تعصب کے فلسفے کو رد کرتے ہوئے دنیا کو بین المذاہب ہم آہنگی ا ورواداری کا وہ مثبت پیغام دیا ہے جس کی عملی روح سے ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق ابھی تک نا آشنا ہیں۔یہ فتحمندی ہے اُس سماج کی جو تکریم و تقدیسِ انسانیت کی روح سے سرشار ہے اور جہاں پر ریاستی شہریوں کو مخصوص تعصبات و امتیازات کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا اور نہ ہی مادی وسائل کی فراوانی کو شخصیت و کردار کے اوصاف پر ترجیح دی جاتی ہے۔یہ عارضہ ہم پاکستانیوں ہی کو لاحق ہے کہ ہر معاملہ کو مذہبی رنگ دیتے ہوئے اپنے اُس مائنڈ سیٹ کا اظہار کرتے ہیں۔

London

London

جس سے دنیا نالاں وبیزار ہے۔دنیا کی غالب اکثریت کو اس بات سے کوئی سرو کار نہیں کہ آپ کا مذہب کیا ہے۔مہذب معاشروں میں آپ کی قبولیت و کامیابی آپ کی صلاحیتوں اور کرداری اوصاف کی مرہونِ منت ہے۔اگر جدید دنیا ان اوصاف سے عاری ہوتی تو لندن کی مئیر شپ ایک ارب پتی یہودی کی بجائے ایک معمولی ٹرک ڈرائیور کے مسلمان بیٹے صادق خان کے پاس نہ ہوتی۔اِس عظیم احساس فتحمندی کے جذبہ سے سرشار پاکستانی علماء و دانشوروں کی اکثریت اگر وطن ِ عزیز میں بھی مذہبی اقلیتوں کے لئے انہی نیک خیالات کی حامل ہو تو ان پسماندہ و درماندہ طبقات کی زندگیوں میں بھی کچھ آسانیاں پیدا ہو جائیں۔یہاں تو دیوان بہادر ایس پی سنگھا جیسی اُس عظیم شخصیت کو تاریخ و نصاب سے غائب کر دیا گیا جس نے بطور سپیکر متحدہ پنجاب اسمبلی پاکستان کے حق میں ووٹ دیتے ہوئے قیام پاکستان میں اپنا ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔صرف یہی نہیں بلکہ پاکستان بننے کے فوراً بعد ایس پی سنگھا کو ان کے غیر مسلم عقائد کی بنا پر اسمبلی کی سپیکر شپ سے بذریعہ عدم اعتماد فارغ کر دیا گیا۔

صد شکر کہ موجودہ حکومت کو تحریک و قیام پاکستان میں اقلیتی مسیحی برادری کے کردارکا کچھ احساس ہوا اور گزشتہ دنوں وفاقی حکومت کی طرف سے ایس پی سنگھا کی بھر پور سیاسی و سماجی خدمات کے اعتراف میں یاد گاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا۔اگرچہ اقلیتی حلقوں کی طرف سے اس حوصلہ افزاء اقدام کا دلی خیر مقدم کیا گیا ہے لیکن کیا ہی اچھا ہو اگر پاکستان کے قیام اور اس کی تعمیر و ترقی میں مذہبی اقلیتوں کی تمام تر خدمات کا سرکاری سطح پر احاطہ کیا جائے اور ان کے تمام تر تحفظات و خدشات کو دور کرتے ہوئے انہیں قومی دھارے کا حصہ بنایا جائے۔پاکستانی اقلیتوں کی حب الوطنی آج تک شک و شبے سے بالاترہے اور انہوں نے ہمیشہ وطنِ عزیز کی امن و سلامتی کے سنہری خواب آنکھوں میں بسائے رکھے ہیں۔اپنی سیاسی و سماجی بے توقیری اور عزتِ نفس کی پامالی کے باوجود یہ دھرتی انہیں جان سے پیاری ہے اورانکی یہ امید اپنی جگہ قائم ہے

کہ لاکھ ظلمت بدوش ہو ماحول اک ستارا ضرو ر نکلے گا
اِن اُفق کی بلندیوں سے پرے آدمی کا شعور نکلے گا

مکرّر عرض ہے کہ صادق خان کی کامیابی دنیا میں تہذیبوں کے تصادم کے انسانیت کش فلسفے کی انحطاط پذیری او رعالمی سطح پر انسانی بھائی چارے و رواداری کی روشن مثال ہے ۔لیکن پاکستانی اقلیتیں منتظر ہیں اس وقت کی ،جب یہاں بھی ریاست و سماج کا اجتماعی شعورمذہب و رنگ و نسل کی تمیز سے ہٹ کر کِسی حقیقی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو۔

Sahil Munir

Sahil Munir

تحریر: ساحل منیر