لاہور: سنجوگ پاکستان کے ممبران نے پریس کانفر س میں پنجاب حکومت سے جیونائل جسٹس سسٹم آرڈیننس ٢٠٠٠ء پر مکمل عمل درآ مد کے لئے فوری قانونی اور انتظامی اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ سنجوگ کی لائزان آفیسر، نبیلہ فیروز نے کہاکہ حال ہی میں وفاقی پارلیمان نے بچوں کے جرأم کی ذمہ داری کی عمرکی حدکہ ٧ سال سے بڑھا کر ١٠ سال کر دی ،جو کہ قابل تحسین ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ سنجوگ حکومت پاکستان کے زیرغور جیونائل جسٹس سسٹم میں بہتری کی طرف کاوشوں کو بھی سراہتی ہے ـ وحید احمد ایڈووکیٹ نے سنجوگ کی نمائندگی کرتے ہوئے بتایا کہ اس قانون کا سب سے اہم پہلو ملک بھر میں بچوں کے کیسز سننے کے لئے علیحد ہ جیونائل کور ٹس کا قیام ہے ـ یہ جیونائل کورٹس بچوں کے کیسز کی مناسب چھان بین کے بعد 4 ماہ کے اندر ان کا فیصلہ کرنے کی پابند تھیـ لیکن بدقسمتی سے آج تک پاکستان کے کسی صوبے میں بھی جیونائل کورٹس کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا قمر حنیف ایڈووکیٹ نے اے جی ایچ ایس لیگل ایڈ سیل کی نمائندگی کرتے ہوئے بتایا کہ ہائی کورٹ کی طرف سے مختلف عدالتوں کو عارضی طور پر جیونائل کورٹ کا درجہ دیا لیکن لاہور ہائی کورٹ کے دسمبر 2004ء کے فیصلے کے مطابق بچوں سے متعلق عدالتوں کا عارضی انتظام ناکافی ثابت ہوا ہے جو ایسے کیسز کے بروقت خاتمے کے لئے معاون نہیں ہے۔ اسی وجہ سے بچوں کے کیسز کی سماعت دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں میں کی جا رہی ہے جو انصاف کے عالمی معیارات کے منافی ہے۔ عاطف خان ممبر چائیلڈ رائیٹس موومنٹ نے ساحل کی طرف سے جیونائل جسٹس سسٹم آرڈیننس ٢٠٠٠ء کاآرٹیکل 5بچوں کے بالغ افراد کے ساتھ ٹرائل سے روکتا ہےـ
اس آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ ”کسی بچے کو بھی بالغ افراد کے ساتھ کسی بھی جرم میں سزا نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی ٹرائل کیا جا سکتا ہےـآخر میںنے بحث سمیٹتے ہوئے سنجوگ کی ایڈوکیسی ا فیسر میمو نہ طاہرکہا کہ جیونائل جسٹس سسٹم پر جزوی طور پر عملدرآمد ہو رہا ہے۔ریاست کی طرف سے بچوںکو مفت قانونی امداد مہیا نہیں کی جا رہی۔ بچوں کے کیسز کی بالغ افراد سے علیحدہ سماعت کے قانون کو بھی نظرانداز کیا جا رہا ہےـ اسی طرح جیونائل جسٹس سسٹم آرڈیننس کا اطلاق پورے ملک کے بہت سارے علاقوں میں اس کی اصل روح کے مطابق نہیں ہو رہا ۔سنجوگ کی جانب سے حکومت پنجاب سے بچوں کے کیسز کے لیے جیونائل جسٹس سسٹم آرڈیننس پر مکمل عمل درآمد کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔