اسلام آباد (جیوڈیسک) قومی اسمبلی میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے وفاقی بجٹ پیش کر دیا۔ بجٹ تقریر میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا 3 سال میں معیشت کو درپیش خطرات ٹل چکے ہیں۔ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا اور اکنامک انڈیکیٹر ہماری معاشی کاکردگی کی عکاس ہیں۔ کپاس کی پیداوار میں کمی کہ وجہ سے معیشت میں کمی آئی۔ معاشی ترقی کی بحالی سے مہنگائی کی شرح میں اضافہ نہیں ہوا۔
ان کا مزید کہنا تھا مالی خسارہ کم ہوکر 4.3 فیصد پر لایا جارہا ہے ٹیکس میں جی ڈی پی کی شرح بڑھ چکی ہے۔ شرح سود 40 سال کی کم ترین سطح 5.75 فیصد پر آ گئی ہے اور برآمدات 32.7 ارب ڈالر رہی۔ روپے کی قدر کئی سالوں سے مستحکم سطح پر موجود ہے۔ ملک کے زرمبادلہ ذخائر 21 ارب 60 کروڑ کی ریکارڈ سطح پر ہیں۔
انہوں نے کہا ملک کی تینوں اسٹاک ایکسچینج ایک بن چکی ہے۔ آئندہ مالی سال مالی خسارے میں کمی کر کے 3.8 فیصد پر لایا جائے گا۔ ایکٹ میں ترمیم کر کے وفاق کے قرضوں کا نیا ہدف مقرر کیا جا رہا ہے۔ ملک کے مجموعی قرضوں کو 60 فیصد تک لائے اور آئندہ 15 سال میں مجموعی قرضوں کو 50 فیصد تک لایا جائے گا۔
قومی اسمبلی میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ تقریر کے دوران بتایا کہ معاشی استحکام کے بعد حکومت اب اقتصادی ترقی کی طرف توجہ دے رہی ہے اور گزشتہ سال کے مقابلے رواں مالی سال بجٹ کے حجم میں 7 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جاری اخراجات کا حجم 3400 ارب روپے ہے ۔ نئے مالی سال 1360 ارب روپے قرض و سود کی نذر ہو جائیں گے۔
ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے وفاق 3621 ارب روپے کی ٹیکس آمدن ہونے کی توقع کر رہا ہے ہے جبکہ سرکار کا ارادہ ہے کہ مالی سال 17-2016 میں بجٹ خسارے کو 1279 ارب روپے تک محدود کیا جائے۔ دفاع پر 860 ارب اور ترقیاتی منصوبوں پر 800 ارب روپے خرچ ہوں گے۔
توانائی منصوبوں کیلئے بجٹ
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کے دوران کہنا تھا کہ جب حکومت میں آئے تو بدترین توانائی بحران کا سامنا تھا۔ بہتر اقدامات سے لوڈشیڈنگ کی صورتحال بہتر بنائی۔ مارچ 2018 تک 10 ہزار میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کی جائے گی جس سے ملک میں جاری توانائی بحران ختم ہو جائے گا وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ توانائی کے شعبے پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ شعبے کیلئے مجموعی طور پر 380 ارب روپے کا ریکارڈ بجٹ رکھا گیا۔ وفاقی بجٹ میں خیبر پختونخوا میں تعمیر کئے جانے والے داسو ڈیم کے لئے 42 ارب روپے مختص کئے گئے ۔نیلم جہلم ہائیڈل کے لیے 61 ارب روپے رکھے گئے۔ ایل این جی سے بجلی پیدا کرنے کے 3 منصوبوں کیلئے 60 ارب رکھنے کی تجویز ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم کیلئے 32 ارب روپے رکھے گئے۔
تربیلا چوتھے توسیعی منصوبہ کے لیے 16 ارب مختص کئے گئے۔ چشمہ نیو کلیئر تھری اور فور کیلئے 22 ارب رکھنے کی تجویز ہے۔ گومل زام ڈیم کیلئے 2 ارب ، کچھی کینال کیلئے 5 ارب مختص کئے گئے ۔ اٹامک انرجی کمیشن کیلئے 27 ارب 56 کروڑ رکھنے کی تجویز ہے۔ بلوچستان میں 100 چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کے لئے 20 ارب روپے رکھے گئے۔ بجٹ میں ست پارہ ڈیم، نائے گاج ڈیم کی تعمیر کے لئے بھی فنڈ رکھے گئے۔ حکومت توانائی کے شعبے کو 157 ارب روپے فراہم کرے گی ۔ پاور سیکٹر 253 ارب روپے کے فنڈز کا خود بندوبست کرے گا۔ واپڈا کے توانائی منصوبوں کیلئے 130 ارب روپے مختص۔ پانی کے منصوبوں کیلئے واپڈا کو 31 ارب روپے ملیں گے۔ پن بجلی کے منصوبوں کے لیے 119 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
ترقیاتی منصوبوں کیلئے مختص بجٹ
آئندہ مالی سال کے لئے ایک ہزار چھ سو پچہتر ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ پیش کر دیا گیا۔ وفاق کے ترقیاتی بجٹ کا حجم 800 ارب صوبوں کے ترقیاتی بجٹ کا حجم 875 ارب روپے رکھا گیا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا آئندہ مالی سال کے لئے بجٹ پیش کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اقتصادی راہداری تاریخی منصوبہ ہے جو خطوں کو ملائے گی جس پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ منصوبے پر 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو گی۔ گوادر کی ترقی کیلئے خصوصی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ لاہور کراچی موٹروے سے ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔
بجٹ میں ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے شعبے کیلئے 260 ارب مختص کئے گئے۔ ترقیاتی بجٹ میں سب سے بڑا حصہ 188 ارب روپے این ایچ اے کو ملے گا۔ پاک چین اقتصادی راہداری کیلئے 125 ارب مختص کئے گئے۔ لاہور سے خانیوال موٹروے کیلئے 34 ارب روپے رکھے جائیں گے۔ ملتان سکھر موٹروے کے لیے 22 ارب 87 کروڑ رکھنے کی تجویز ہے۔ برہان سے ڈی آئی خان موٹروے 22 ارب روپے مختص کئے گئے۔ ریلوے کے مجموعی بجٹ کا حجم 114ارب روپے ہو گا۔ 78 ارب حکومت فراہم کرے گی جبکہ ریونیو سے 36 ارب روپے حاصل کرنے کا ہدف ہے۔ ترقیاتی بجٹ میں ریلوے کے لئے 41 ارب روپے مختص کئے گئے۔ پورٹس اینڈ شپنگ کیلئے بھی 12 ارب 80 کروڑ روپے رکھنے کی تجویز ہے۔
سرکاری ملازمین کیلئے پیکج
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈملازمین کی پنشن میں دس فیصد اضافہ کر دیا گیا۔ مزدور کی کم ازکم اجرت تیرہ ہزار سے بڑھا کر چودہ ہزار روپے کر دی گئی۔ سرحد پر تعینات اہلکاروں کیلئے بھی خصوصی الاونس کا اعلان کیا ہے۔ حکومت نے رواں مالی سال میں دس فیصد اضافے کا اعلان تو کر د ا لیکن تنخواہوں میں اس اضافے کو 2013-14 کی ایڈہاک ریلیف سے مشروط کیا گیا ہے بنیادی تنخواہ کا حصہ ہو گا۔ مزدور کی کم ازکم اجرت ایک ہزار اضافے سے تیرہ ہزار روپے سے بڑھا کر چودہ ہزار روپے کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ سالانہ بجٹ میں وفاقی ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں بھی دس فیصداضافہ کیا گیا ہے۔ 85 سال سے زائد عمر کے افراد کیلئے پنشن میں پچیس فیصد اضافہ کیا ہے۔
گریڈ ایک سے پندرہ کے ملازمین کے کا واشنگ ، ڈریس الاؤنس 100 سے 150 روپے ماہانہ جبکہ کنوئینس الاؤنس میں بھی پچاس فیصد اضافہ کا اعلان کیا گیا۔ ملازمین کے کوالیفکیشن پے میں 50 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ حکومت نے سرحدی علاقوں میں تعینات اہلکاروں کیلئے بھی خصوصی الاؤنس کا اعلان کیا ہے۔ پاک فوج کے الاؤنس میں پانچ سو سے آٹھ سو روپے کر دیا گیا۔ خصوصی افراد کیلئے ایک ہزار روپے خصوصی الاؤنس کا اعلان بھی کیا ہے۔ حکومت نے اسسٹنٹ کا گریڈ 14 سے بڑھا کر 16 کر دیا۔ اپر ڈویژن کلرک کا گریڈ 9 سے بڑھا کر 11 جبکہ ایل ڈی سی کی پوسٹ گریڈ 7 سے بڑھا کر 9 کر دی گئی۔
زرعی پیکج
بجٹ تقریر میں اسحاق ڈار نے کہا کاشتکاروں کو معیاری بیج کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ ڈار صاحب نے بجٹ میں کاشتکاروں کے لیے بڑے پیکج کا اعلان کر دیا۔ نئے بجٹ میں یوریا کھاد چار سو روپے سستی کر دی ۔ بوری اب 1400 روپے کی ملے گی ۔ ڈی اے پی کی بوری 300 روپے کمی کے بعد 2500 روپے میں دستیاب ہو گی۔ زرعی آلات پر ڈیوٹی 5 فیصد سے کم کر کے دو فیصد کر دی گئی ۔ زرعی ادویات پر سیلز ٹیکس ختم کر دیا گیا۔ ٹیوب ویل کے لیے بجلی کا یونٹ 8 روپے کے بجائے 5 روپے 35 پیسے کا ہو گیا۔
وزیرخزانہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے کاشتکاروں کے لیے تاریخ کا سب سے بڑا پیکج دیا جس سے کسانوں کے مسائل کم ہوں گے اور زراعت ترقی کرے گی۔ اسحاق ڈار نے مزید کہا زرعی قرضوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے اور قرضوں کے نرخ میں کمی کیلئے حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے۔ ڈیری لائیو سٹاک اور پولٹری کی درآمدات کیلئے کسٹم ڈیوٹی میں کمی کی جا رہی ہے جبکہ فش فیڈ کیلئے کسٹم ڈیوٹی 5 فیصد سے کم کر کے 2 فیصد کی جا رہی ہے۔ مچلی اور جھینگے کی خوراک پر ڈیوٹی ختم کر دی گئی اور مچھلی کے بچوں کی درآمد پر بھی کسٹم ڈیوٹی کو بھی ختم کر دیا ہے۔
فنانس بل
قومی اسمبلی میں پیش فنانس بل کے تحت 60 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم۔ 14 سو سے زائد اشیاء پر کسٹم ڈیوٹی میں ایک فیصد اضافہ ۔ صدر ، وزیراعظم، گورنر، وزراء اور ججز کے لیے تنخواہ پر انکم ٹیکس کی چھوٹ برقرار ۔ بینکوں سے ایک دن میں 50 ہزار سے زائد رقم نکلنے پر ٹیکس عائد۔ فنانس بل کے مطابق 508 اشیاء پر کسٹم ڈیوٹی 15 سے بڑھا کر 16 فیصد جبکہ 9 سو اشیاء پر 10 سے بڑھا کر 11 فیصد کر دی گئی ہے۔
ایف بی آر حکام کا کہنا ہے کہ بجٹ میں 200 ارب روپے سے زائد کے ٹیکس اقدامات کیئے گئے ہیں۔ زندہ مرغی پر کسٹم ڈیوٹی میں 6 فیصد، خشک دودھ کی درآمدی ڈیوٹی پر 25 فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے۔ گاڑیوں کے ٹائرز پر عائد 10 فیصد کسٹم ڈیوٹی ختم کی گئی ہے جبکہ ڈیری، لائیو اسٹاک اور پولٹری سیکٹر پر کسٹم ڈیوٹی 5 سے کم کر کے 2فیصد کر دی گئی ہے۔