تحریر : محمد عرفان اقبال جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے تب سے بے شمار کتب پڑھیں، رسم الخط دیکھے، مختلف علوم سے تعارف حاصل کیا۔ ایک قلم ہی تھی جس کی وجہ سے ہم نے اتنا ترقی کی، مریخ و ثریا تک کو چھولیا۔ یہی وہ عطیہ خداوندی تھا جس نے ہماری تہذیبوں ہمارے اسلاف کی تاریخ ان کی خدمات او رانہی کی زندگیوں کو اپنے ادر ایسے گزارا کہ آج ہم اپنی ترقی کو دیکھ کر خود بھی حیران ہوتے ہیں۔ بقول اقبال آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا گئی قلم کی افادیت اور اس کی حرمت ہر دور میں اپن جگہ اہمیت کی حامل ہے۔ اگرچے آج کا ہمارا کمپیوٹر کا زمانہ ترقی میں بہت آگے جاچکا لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ خود کو قلم سے چھڑا نہیں سکا۔ مثلا ان پیج، میکروسافٹ آفس وغیر قلم کی جدید صورتیں ہیں۔ قلم کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہم اس حقیقت سے روشناس ہوتے ہیں کہ ہزارہاسال پہلے ایک وقت تھا جب زندگی جنگلات میں کٹا کرتی تھی۔
تہذیب کی قید اور اخلاقیات کی پابندی سے عاری معاشرت و طور و اطوار والی زندگی۔ کوئی زبان نہیں تھی اور نہ ہی کوئی قواعد تھے اشاروں میں اپنی بات سمجھی جاتی تھی تب اس کا اظہار خیال کا سب سے بڑا ذریعہ قلم تھا جس کی گواہی آج بھی ہمیں التعمرہ، اسپین کے غاروں میں کئی ہزار سال پرانی مصوری سے ملتے ہیں۔ وقت کے بدلنے کے ساتھ ساتھ قلم کی تاریخ کو ایک خاموش داستان کے طور پر اپنے اندر چھپائے رکھا اور یوں اس کی فکر میں ہمیں ایک اور حقیقت بھی سامنے آئی وہ یہ تھی کہ جس قوم کی قلم پر دسترس ہوتے ہے وہ طاقت ور اور مظبوط ہوتی ہے۔ مغرب نے سقوط بغداد اور سقوط قسطنطنیہ کے واقعات میں مسلم کتابیں ساتھ لے گئے اور پھر انہیں اپنی اپنی زبانوں میں ترجمے کر ان سے فوائد حاصل کیے اور یوں ہمیں بھی میراث عظیمہ سے محروم کردیا۔ مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباءکی جو دیکھیں میں نے یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
کچھ دن قبل میں سوشل میڈیا کی ویب سائٹ پر ایک اشتہار دیکھا جو مضمون نویسی سے متعلق تھا۔ جس میں ایک عنوان دیا گیا تھا کہ ”لکھنا کیوں ضروری ہے“ یہ بات واقعی قابل غور ہے کہ دور حاضر میں صحافت نے بہت ترقی کی ہے اور آئے روز علاقائی سے لے کر قو می سطح پر اخبارات کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ مضامین لکھے جارہے اور صفحات کے صفحات بھر دیے جاتے ہیں مگر کیا کبھی کسی نے یہ سوچا کہ ہم کیوں لکھ رہے ہیں یا لکھنا کیوں ضروری ہے۔ کسی نے کیا خوب لکھا کہ کچھ لوگوں کو بڑھنا چاہے مگر وہ لکھ رہے ہیں۔
Life
ہم اپنے ارد گرد کے ماحول سے دن رات مشاہدات کرتے ہیں انہیں پر اپنے روز مرہ زندگی کے اصول و ضوابط بناتے ہیں اور اسی معاشرے مین ہم ہزاروں خوبیاں اور خامیاں دیکھتے ہیں۔ لیکن تعجب ہوتا کہ ہم انسان ہونے کے باوجود ایسے خاموش ہوتے ہیں جیسے ہم کوئی راستے میں کھڑا درخت ہوں یا کسی چوراہے کے دامن میں پڑا کوئی پتھر۔ باوجود اس کے کہ ہم احساسات بھی رکھتے اور جذبات بھی موجود ہیں اور یہ انسانی فطرت کے وہ عناصر ہیں جو زندگی کے توازن میں ہلچل مچاتے ہیں۔ بعض اوقات تہذیبوں کے تختے تک الٹ دیتے ہیں یہ اظہار کے متقاضی ہوتے ہیں مگر ہم پھر بھی بے جان چلتی پھرتی لاشوں کی ماند سب کچھ دیکھتے ہیں پھر بھی خاموش رہتے ہیں۔ ہمارے آگے ناجانے کتنی ہی سبق آموز تجربات اور نصیحتیں ہوتی ہیں جو چیخ چیخ کرہم سے کہہ رہی ہوتی ہیں کہ ہم سے سیکھو اور جو سیکھو وہیں دوسروں کو بھی بتاﺅ۔
تاریخوں کی تدوین تہذیبون کے نشیب و فراز کی داستیں، معاشرت زندگی کا مسودہ اور رہن سہن معمولات کو ہم تک پہنچانے کا سبب جہاں یہ قلم بنا وہیں اب یہ قلم ہم سے بھی مطالبہ کرتا ہے کہ آج ہم اس میں اتنا حصہ ڈالیں اور اپنے آباءکی روایت کو آگے بڑھائیں۔ شریعت اسلامیہ نے بھی قلم کو ایجوکیشن کے لیے اہم ترین ذریعہ قرار دیا حتیٰ کہ تقدیریں تک اس قلم کے ذریعے لکھی گئیں۔ قلم سے لکھا گیا کسی بھی فرد کے ذہنی سوچ اور اس کے جذبات کو اجاگر کرتا ہے۔ اگر آپ کو معاشرے میں اچھا یا برا محسوس ہوتا تو وہ اپنے تک محدود رکھنے کی بجائے دوسروں تک پہنچائیں گے یوں آپ کے ساتھ ساتھ اپنے اچھے خیالات اور سوچ سے دوسرے بھی یکساں مستفید ہوسکیں گے۔
Language
گونگے کی سمجھانے کے لیے جس طرح اس کی زبان سیکھنا بہت ضروری ہوتی اسی طرح اس معاشرے کے لوگوں کو سمجھانے کے لیے بھی انہیں کی سوچ کے مطابق ان سے بات کرنی ہوتی جو انہیں فائدہ دے۔ آپ کی بات، نصیحت اور اچھی فکر کسی کے لیے نفع مند تب ثابت ہوگی جب وہ آپ کے دماغ کا سکوت توڑ کے باہر نکلے گی۔ اظہار اور ابلاغ اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے نفع مند تب ثابت ہوگی جب وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے گی۔ چنانچہ اس کے دو ذریعے ہوسکتے ہیں۔ سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا جہاں پر سب کو رسائی حاصل ہے۔ الیکٹرونک میڈیا تک ہر عام شخص کی رسائی اس قدر آسان نہیں تاہم تحریر کی صورت میں اخبارات یا میگزین کے ذریعے اپنی بات کم وقت میں بہت سارے لوگوں تک پہنچائی جاسکتی ہے۔ یقینا آپ کی فکری سوچ نہ صرف آپ کے بلکے دوسرے لوگوں کے لیے بھی فائدہ کا سبب بنے گی تو اس اچھائی میں آپ بھی برابر کے شریک ہوں گے۔